شمال کا ایک عظیم شاعر


چترال سے تعلق رکھنے والے کریم اللہ نے پشاور یورنیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کیا ہے۔ فری لانسر صحافی، کالم نگار اوربلاگر ہیں، اورمعاشرے کے سیاسی ، سماجی اورثقافتی موضوعات کو زیر بحث لاتے ہیں۔

\"\" سو سال کی طویل اور پر لطف زندگی گزارنے کے بعد بالآخر ارض شمال کا عظیم شاعر، ادیب ، دانشور معلم علامہ نصیرالدین نصیرہنزائی 15جنوری 2017ء کو امریکی ریاست آسٹن میں انتقال کرگئے ۔ وہ حال ہی میں اپنا سوواں یوم ولادت منا چکے تھے ۔ علامہ نصیر الدین ہنزائی 1917ء کو پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے علی آباد میں پیدا ہوئے ، انہوں نے کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی ۔ البتہ بچپن ہی سے ان کی توجہ یمگان بدخشاں کے ایک عظیم فارسی شاعر، فلسفی ناصر خسرو کی تعلیمات کی جانب ہوئی اور انہیں پڑھنا اور سمجھنا شروع کیا۔ کہتے ہیں کہ نصیر الدین ہنزائی نے فارسی زبان پر مکمل دسترس حاصل کرنے اور ناصر خسرو کی تعلیمات کو جامع اندا ز سے سمجھنے کی خاطر افعانستان کے صوبہ بدخشاں میں رہ کر اس زبان پر عبور حاصل کیاتھا۔نصیر الدین ہنزائی ایک ہنگامہ خیز دور میں پیداہونے والا غیر معمولی ذہن تھا ۔ بیک وقت آپ کودسیوں زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔قرآن ، اسلام، صوفی ازم، اسماعیلیت اور عمومی روحانیت کو زیر بحث لایا آپ کی کتابوں کا انگریزی، فرانسیسی، سویڈش ، فارسی ، ترکی اور گجراتی زبانوں میں ترجمہ ہوچکاہے اور بڑے پیمانے پر پڑھی جارہی ہیں ۔ا گرچہ علامہ کو کبھی سکول جانے اور تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن اپنی غیر معمولی ذہانت کے بل بوتے پر ایک مکتبہ فکر تشکیل دینے میں کامیاب رہی ۔
علامہ نصیر الدین نصیر ہنزائی بچپن میں اسلام کے باطنی مفہوم کی جانب متوجہ ہوئے اور ناصر خسرو کی تعلیمات سے بے انتہا متاثر ہوئے ۔ آپ نے قرآن کریم کے باطنی مفہوم اور دانش کو بیان کیا روحانی موضوعات پر سو سے زائد کتابوں اور پمفلٹ کے مصنف رہ چکے ہیں ۔آپ پہلے لکھاری تھے جنہوں نے ’روحانی سائنس‘ ’مونو ریالٹی‘ اور ’ہزارحکمت‘ جیسی اصطلاحات کو علمی حلقوں میں متعارف کیا۔آپ بنیادی طورپر صوفی شاعر اور مصنف تھے۔ علم وادب کے لئے گرانقدر خدمات کے اعتراف پر صدر پاکستان پرویز مشرف نے 23مارچ 2001ءکو آپ کو ستارہ امتیاز کے اعزاز سے نوازا۔کنیڈا کے مونٹرئیل یونیورسٹی نے آپ کی علمی وادبی کاوشوں پر اعزازی ڈاکٹری کی ڈگری سے نوازا۔ اسی یونیورسٹی میں آپ بحیثیت وزیٹنگ پروفیسر برسوں تک خدمات انجام دیتے رہے ۔نصیر ہنزائی کا شمار اسی یونیورسٹی کے شعبہ ’روحانی سائنس‘ کے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔ آپ کی علمی زندگی تقریباََ چھ دہائیوں سے زیادہ کے عرصے پر محیط ہے اور 68 برسوں تک علم وادب کے لئے خود کووقف کئے رکھا۔کہا جاتا ہے کہ آپ نے بائیس برس کی عمر میں فوج میں شمولیت اختیار کی تھی اور تقریباََ سات سال تک فوج میں خدمات انجام دیتے رہے ۔ آپ کی زندگی میں اصل انقلاب اس وقت آیا جب آپ اسماعیلیت کی تبلیغ کے سلسلے سے چین کے سفر میں تھے تو چینی حکومت نے آپ کو قید کرلیا ۔ خود نصیر ہنزائی کے مطابق ایام اسیری کے دوران ان کی زندگی میں انقلابی تبدیلی آئی جسے آپ اپنے اوپر آنے والی پہلی قیامت یعنی تبدیلی سے تعبیر کررہے ہیں ۔
نصیر ہنزائی کی علمی وادبی خدمات :
نصیر الدین ہنزائی ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی کے تعاون سے شائع ہونے والے بروشسکی جرمن ڈکشنری کے شریک مصنف رہے ۔ کینڈین محقق پروفیسر طولی کی کتاب” ہنزہ کے حروف تہجی“ کے بھی شریک مصنف تھے۔کراچی یونیورسٹی اور بروشسکی ریسرچ اکیڈمی کے تعاون سے تین جلدوں پر محیط پہلی ضخیم بروشسکی اردو ڈکشنری ترتیب دی۔ حکومت گلگت بلتستان اور مختلف اداروں نے آپ کی اعلیٰ پائے کی علمی خدمات کے اعتراف میں آپ کو ” حاکم القلم‘ ’لسان قوم‘ اور ”بابائے بروشسکی “ جیسے القابات سے نوازا ۔نصیر الدین ہنزائی بروشسکی زبان کے پہلے صاحب دیوان شاعر ہیں ۔”فلاور آف پیراڈائز ‘ کے عنوان سے آپ کے دیوان کا ایک حصہ انگریزی میں ترجمہ ہوچکاہیں ۔ گلگت بلتستان میں بولی جانے والی قدیم ترین زبان بروشسکی کا پہلا حروف تہجی بھی آپ نے ترتیب دیا ۔ آپ کی ساٹھ سے زائد کتابوں کاانگریزی میں ترجمہ کیا گیا۔ سال رواں میں علامہ نصیر الدین نصیر ہنزائی نے اپنا سوواں یوم ولادت منایا ۔اس موقع پرسابق امریکی صدر باراک حسین اوباما نے وائٹ ہاﺅس کی جانب سے جاری کردہ ایک خط میں سوسال مکمل کرنے والے علامہ نصیر ہنزائی کو مبارک بادی کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ” ہم اپنے خاندان اور دوستوں سمیت آپ کی سوویں برسی پر مبارک باد پیش کرتے ہیںجیسا کہ آپ غیر معمولی سنگ میل عبور کرچکے ہیں آپ کے ساتھ گزشتہ صدی کی کئی یادیں وابستہ ہیں۔ آپ کی نسل نے جنگ وجدل اور پریشانیوں کاانتہائی حوصلہ مندی اور امید سے مقابلہ کیا ہے اور مشکل حالات کا مقابلہ وژن کے ساتھ کیا ہے ۔ امریکی معاشرے کے لئے آپ کی گرانقدر خدمات پر ہم آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ آنے والے برسوں میں یہ سلسلہ جاری رہے گا “۔آپ نے ہنزہ کی ثقافت کو بھی دنیا بھر میں روشناس کرانے میں کلیدی کردار اداکیا۔
ایک جاہل سماج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہاں علم ودانش کو ہر دم تہمتوں اور ملامتوں کا سامنا کرناپڑتا ہے ۔ آج بھی مسلط نظام کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے لئے وہی سزاتجویز کی جاتی ہے جو سقراط، برونو ، شہاب الدین سہروردی ، منصور حلاج اور سرمد کے لئے تجویز کی گئی تھی یعنی الم ناک مشقتیںاور درد ناک موت۔دنیا میں ہمیشہ سے دو چیزوں کے ذریعے علم ودانش کی زبان بند کرنے کی کوشش کی گئی یعنی شوکران اور تلوار۔جسے آج بھی علم، دانش اور انسانیت کی زبان کو خاموش کرنے کے لئے استعمال کیا جاتاہے ویسے بھی علم ودانش اس دنیا میں نووارد ہے، رہی جہالت تو اس کو بلاشبہ طوالت سن اورقدامت عہد کا قابل رشک امتیاز حاصل ہے ۔ پانچویں صدی عیسوی سے لے کر اٹھارہویں صدی عیسوی تک کا زمانہ یورپی معاشروں کے حوالے سے عہد تاریک تھا جہاں کلیسا علم ودانش اور عقل وخرد افروزی پر پہرے لگائے بیٹھے تھے جہاں ہر نئے تصورکو بدعت اور ہر نئی بات کو لادینیت تصور کیاجاتاتھا۔ یورپ ایک ہزار برس تک اندھیروں میں ڈوبا ہواتھا۔ ایک جمود کا عالم سارے یورپ پر طاری تھا ۔ پھر یکایک ابن رشد کا فلسفہ چپکے چپکے فرانس پہنچنا شروع ہوا ۔کہتے ہیں کہ یورپ بالخصوص فرانس میں خرد افروزی کے فروغ میں ابن رشد کی تعلیمات کا گہرا اثر رہا ۔ یوں یورپ عہد تاریک سے دور حاضر کی جادوئی دنیا میں قدم رنجہ ہوا تو اس وقت مسلمانوں کے ہاں مکمل تاریکی پھیلی ہوئی ہے۔ آج ہمارے معاشروں میں عقائد اور نسل ونصب کی آڑ میں دانشوروں کو متنازعہ بنایا جارہاہے ۔یہی سب کچھ سرزمین شمال کے اس عظیم دانشور ، ادیب ، شاعر اور سماجی مصلح کے ساتھ بھی پیش آیا۔ جب معاشرے کو آئینہ دکھا کر انسان دوستی ، امن پسندی اور علم وحکمت کی باتین کہنے لگے۔ برسوں سے مسلط شدہ نظام اور سماجی جمود کو انکا رکیا تو جمود زدہ معاشرہ کہاں چپ رہتا فوراََ آپ پر سنگ باری شروع ہوئی ۔آپ کی ساری علمی وادبی خدمات پر ایک ایک کر کے قدغن لگائی گئی ایک وقت ایسا بھی آیا کہ علامہ کا نام لینا بھی جرم قرار پا یا ۔ اس ساری صورتحال میں جہاں مخالفین کا کردار تھا وہیں ان کے اپنے مکتب سے تعلق رکھنے والوں نے سماج کو پرکھنے کی بجائے منہ کھول کر ہر ایک کے سامنے فلسفیانہ انداز سے بات کرنا شروع کی۔ لوگوں کی ذہنی بلوغت کو جانچے بنا ہی وہی کچھ کہا گیا جو معاشرے میں فساد کا باعث بن سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی بڑی اکثریت علامہ کی تعلیمات کو گمراہی کا منبع تصور کرتے ہوئے انہیں ہاتھ لگانے سے گریزاں ہے ۔ ان کے پیروکاروں کو نہ سماج کا علم تھا اور نہ ہی ملک کی موجودہ صورتحال کا ادراک۔ بس اپنی ذات میں مست ان حضرات نے معاشرے کو مختلف گروپوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ ان کی اس تقسیم کے مطابق جو لوگ علامہ کے پیروکار تھے وہی اہل علم اور باقی لوگ جاہل۔ یہاں سے دو انتہاﺅں کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے ۔
علامہ نصیر الدین کی تعلیمات کے منفی اثرات:
جہاں علامہ نصیر الدین ہنزائی نے جدیدیت کے فروغ اور علم وادب کے لئے گرانقدر خدمات سرانجام دیں وہیں انہوں نے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں صوفی ازم اور روحانیت کو اتنا پھیلا دیا کہ اس دوران جدید سائنس وٹیکنالوجی اور زمینی حقائق پس پشت چلے گئے ۔ان کے پیروکار ماسوائے روحانیت کے اور کسی مسئلے کی جانب خاص توجہ نہیں دیتے ۔اسی مظہر کے پیش نظر بعض جدید ماہرین عمرانیات کا خیال ہے کہ نصیر الدین ہنزائی نے نوجوانوں کو اتنا روحانی درس دیا کہ وہ ان کے لئے منشیات ثابت ہوئی ۔
علامہ نصیر کی خدمات سے انحراف شاید کسی بھی طالب علم کے لئے ممکن نہیں ۔ آپ کی تعلیمات کا بنیادی مفہوم انسانی ذات کی عظمت ہیں ۔ اسی لئے تو آپ نے انسان کے لئے فرشتہ، حور اور غلمان جیسی اصطلاحات وضع کیں۔ خواتین کو ان کا جائز مقام دلانے کے لئے بھی آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہے ۔آپ کی تعلیمات میں انسان دوستی ، خود شناسی ، اور امن عالم کا پیغام موجود ہے ۔
جان فدا کردوں گا میں خود امن عالم کے لئے
تاکہ قربانی ہو میری ابن آدم کے لئے
عالم انسانیت جب اس قدر بیمار ہے
رحم کیوں آتا نہیں ہے ابن مریم کے لئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments