احسان تیرے احسان کبھی بھولے نہیں جاتے؟


اس امر حقیقی میں کوئی دو رائے کی گنجائش ہی نہیں کہ انسانوں سے پیار و محبت اور ضرورت مند انسانوں کی مدد کے عمل کو ہر دین اور مذہب میں تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا ہے بلکہ انسانوں سے اچھا سلوک روا رکھنا لازم لازم اور فرض قرار دیا جا چکا ہے دین اسلام نے خدمت کے اس مثالی فلسفے کو بہترین اخلاق اور عظیم عبادت قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو یکساں جسمانی صلاحیتوں اور مختلف اوصاف سے نہیں نوازا بلکہ ان کے درمیان فرق و تفاوت رکھا ہے اور یہی فرق و تفاوت اس کائنات رنگ و بو کا حسن و جمال ہے۔

رب ذوالجلال چاہتا تو ہر ایک کو خوبصورت مال دار اور صحت مند پیدا کر دیتا لیکن یہ یک رنگی تو اس کی شان خلاقی کے خلاف ہوتی اور جس امتحان کی خاطر انسان کو پیدا کیا ہے شاید اس امتحان کا مقصد بھی فوت ہو جاتا۔ اس علیم و حکیم رب نے جس کو بہت کچھ دیا ہے اس کا بھی امتحان ہے اور جسے محروم رکھا ہے اس کا بھی امتحان ہے۔ وہ رب اس بات کو پسند کرتا ہے کہ معاشرے کے ضرورت مند اور مستحق افراد کی مدد ان کے وہ بھائی بند کریں جن کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے تاکہ انسانوں کے درمیان باہمی الفت و محبت کے رشتے بھی استوار ہوں اور دینے والوں کو اللہ کی رضا اور گناہوں کی بخشش بھی حاصل ہو

انسانیت کی خدمت کے بہت سے طریقے ہیں۔ بیواؤں اور یتیموں کی مدد، مسافروں، محتاجوں اور فقرا اور مساکین سے ہمدردی، بیماروں، معذوروں، قیدیوں اور مصیبت زدگان سے تعاون یہ سب خدمت خلق کے انتہائی احسن کام ہیں۔ آج کی اس تحریر کا مقصد انسانی شکل میں ایک دیے کے منور جمال کو الفاظ میں ناپنا ہے اس عظیم شخصیت کا ذکر کرنے جا رہا ہوں۔ جو دکھی انسانیت اور مرجھائے پھولوں کے لئے ایک سدا بہار پودے کی مانند ہے۔ جس نے ہمیشہ اپنی محبت بھری پیار اور خلوص مسکراہٹ سے نہ صرف گلگت بلتستان کے عوام کا دل جیتا ہے۔

بلکہ اپنے منور چہرے پر درد انسانیت کو سجھائے اپنی فوجی چھڑی سے ہر یتیم بے سہارا معذور کا سہارا بنا ہے کہ جس کا خواب ایک اعلی افسر بننا تھا کہ جس کا خواب اعلی تعلیم حاصل کرنا تھا کہ جس کا خواب عبدالستار ایدھی بننا تھا۔ آپ سے ذاتی طور نہ تو جان پہچان رہی ہے۔ نہ اکیلے پن میں تفصیلی ملاقات۔ البتہ دیامر پریس کلب کے اراکین کے ہمراہ تین دفعہ مختصر ملاقات ہوئی ہے۔ جب پہلی ملاقات میں آپ کی گفتگو سنی تو مجھے ایسے لگا کہ میں کسی عظیم شخصیت کے قریب بیٹھا ہوں اور مجھے ہر طرف سے روحانی پیشواؤں سے سکون میں مزے لینے والوں کی جیسی کیفیت محسوس ہوئی۔ اکثر عسکری قیادتوں کا سامنا کرنے کے لئے بڑا اچھا ویل ڈریس اور چوکس رہنا پڑتا ہے۔ لیکن مجھے میجر جنرل احسان محمود کی قربت اور مصافحہ نے میری اندر انسانیت کی قدر و منزلت جگا دی۔ تب میں نے فیصلہ کیا کہ میں ایک بڑا انسان بنوں گا۔ اور انسانیت کی خدمت کروں گا۔ آپ گلگت بلتستان کے وہ واحد فوجی جنرل رہے تھے۔ جنہوں نے اپنا پورا پیریڈ بے سہاروں یتیموں مسکینوں اور انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کردی۔ یوں اس قلیل عرصے میں گلگت بلتستان کے نوجوان بچے بوڑھے آپ کے گرویدہ بن گئے۔ گلگت بلتستان کے اندر جہاں بھی جیسے بھی رات ہو یا صبح وقت پر پہنچ کر پسماندگان سے اظہار تعزیت کی۔ ان کی مدد کی۔ ان کے ہر دکھ درد غم میں شریک رہے۔ حتی کہ تعلیم کے میدان میں بھی آپ نے جو انقلاب برپا کیا تھا وہ ناقابل فراموش ہے۔

قوم کبھی بھی آپ کے احسانات کو نہیں بھول سکتی۔ آپ ہی کے مثالی دور میں گلگت بلتستان کے پسماندہ اضلاع سے سینکڑوں پوزیشن ہولڈر طلباء جن کا خواب تھا ایک بڑا افسر بننا جن کا خواب تھا ایک بڑا انسان بننا جن کا خواب تھا ملک اور قوم کا نام روشن کرنا مگر معاشی حالات کمزور ہونے کے باعث ان کے وہ خواب ادھورے تھے۔ آپ ہی نے ان کے خوابوں کو عملی جامع پہناتے ہوئے سینکڑوں طلباء کو آرمی کالجوں میں فری تعلیم کا بندوبست کر دیا۔

جو کہ عوام گلگت بلتستان کے لئے نہ صرف فخر کی بات ہے بلکہ اس خطے کی تعمیر ترقی کے لئے آپ کا کردار نہایت اہم اور قابل تعریف رہا۔ جس کو قوم کبھی فراموش نہیں کر سکتی جب اس خطے کی تاریخ لکھی جائے گی آپ کا ذکر کیے بغیر وہ تاریخ مکمل نہیں ہوگی آپ کا ذکر کیے بغیر اس محفل کا آغاز نہیں ہو گا جس کو روشنی آپ ہی کی وجہ ملی تھی۔ نامکمل ہے وہ کتاب جس میں آپ کا ذکر نہ ہو۔ نامکمل ہے وہ علم کی بدولت سجی محفل جس کا آغاز آپ کے نام سے نہ کیا جائے۔

نا مکمل ہے وہ فلاحی ادارہ جن کے ریکارڈ میں آپ کا نام نہ ہو۔ پھٹ جائے وہ زمین جہاں پر آپ کا ذکر کیے بغیر تعلیم کی محفل سجے۔ آپ وہ شخص ہیں۔ جس نے فوج کے خلاف پایا جانے والے ابہام کو شکست دے کر ایک عظیم عسکری قیادت ہونے کا نہ صرف ثبوت دیا ہے بلکہ ہر اس کردار کو شکست دی ہے۔ جو فوج کے خلاف نفرتیں بانٹنے کے لئے ہمہ وقت سرکرداں تھے۔ المختصر ان تمام قربانیوں کے پیچھے دکھی انسانیت کا درد ہمیشہ چہرے پر سجھائے مرجھائے پھولوں کے لئے سدا بہار پودا میجر جنرل احسان محمود کا سایہ ہے۔

یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام نے انسانیت کی مدد کرنے کا درس دیا ہے۔ دکھی انسانیت کی مدد کرنا بہت عظیم کام ہے۔ تمام معاشروں میں خدمت خلق انسانی اقدار کی بلند تر صفات کا حصہ ہے۔ غرض انسانیت کا درد رکھنے والا یہ مرد آہن، مذہب، ملت، رنگ، نسل سے ماوراء مخلوق خدا کی مختلف میدانوں میں خدمت کرتے ہوئے گلگت بلتستان سے الوداع ہو گئے۔ اور آنے والی نسل کے لئے بہترین نقوش چھوڑ گیا۔ اس سے بڑھ کر امانت، دیانت، عدل، انصاف، سادگی، استقامت، للہیت اور حسن انتظام کی کیا مثال ہو سکتی ہے۔ میجر جنرل احسان محمود کے لگائے ہوئے پودوں کے ثمرات انشااللہ جلد اس معاشرے کو منتقل ہو کر یہاں سے نہ صرف جہالت کا جنازہ اٹھے گا بلکہ معاشی ناہمواری بھی اپنے آپ ختم ہو چلے گی

االلہ تعالیٰ اس عظیم انسان کی خدمات کو قبول فرمائے اور ذخیرۂ آخرت بنائے اور ہم کو ان کی محنت بطور تقلید اپنے اندر سمونے اور اس مشن کو آگے بڑھانے کی ہمت و توفیق عطا کرے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments