سانس لینے کی رسم جاری ہے


رات کا پہلا پہر ہے، ایک بزرگ بچوں کی محفل میں بیٹھے اپنی جوانی کے قصے سنا رہے ہیں۔ اچانک انہوں نے ٹھنڈی آہ بھری اور بولے، ”کاش! وہ خالص دور لوٹ آئے“ ۔ خالص دور؟ بچوں نے استفسار کیا۔ ہاں خالص دور، بابا جی نے جواب دیا۔ ہمارے بچپن کا زمانہ، جب ہوا خالص، غذا خالص، دوا خالص تھی۔ ہم کھیلتے کودتے کسی بھی نل کو منہ لگا کر پانی پی لیا کرتے تھے۔ تازہ ہوا سے پھیپھڑوں کو تر کیا کرتے تھے۔ وہ آزادی وہ خالص پن نہیں رہا۔ اب آزاد فضاء میں لمبا سانس لینا پھیپھڑوں میں زہر اتارنے کے مترادف ہے۔

یہ کہانی ہے پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کی جہاں اس وقت ائر کوالٹی اس حد تک گر چکی ہے کہ سانس لینا محال ہے۔ ہر شخص گلے، سانس اور آنکھوں کی بیماریوں کی شکایت کر رہا ہے۔ ”جنے لاہور نہیں ویکھیا، او جمیا ہی نہیں“ یہ محاورہ سننے کے بعد اگر کسی لاہور نہیں دیکھا اور جانے کا ارادہ رکھتا ہے، اس کے چاہنے والے اسے اس خواہش کی تکمیل سے روک رہے ہیں کیونکہ وہ جس خوبصورتی کو دیکھنے کا طلبگار ہے وہ ان دنوں گہری سموگ میں گم ہو چکی ہے۔

خرابی صحت کے ساتھ معمولات زندگی بھی جمود کا شکار ہیں۔ ابھی ہمارے تعلیمی اداروں کا کورونا والا زخم بھرا نہ تھا کہ سموگ نے ڈیرے ڈال دیے۔ لاہور کے تعلیمی ادارے ہفتے میں تین دن بند رکھنے کے احکامات بھی آچکے ہیں۔ اہل علم اس بارے رہنمائی کریں تو شاید سمجھ میں آئے وگرنہ ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ تعلیمی ادارے ایسی کون سی آلودگی کا باعث ہیں کہ ہم نے سموگ کا یہ حل نکالا۔ شاید سکولز بند کرنا ایک آسان ہدف ہے یہی وجہ ہے کہ احتجاج ہوں یا کرکٹ میچز، کورونا ہو یا سموگ، پہلا حل یہی نکلتا ہے، سکول بند کر دیں۔ ایک ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ گزشتہ سال کورونا کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش کے باوجود بھی 1100، 1100 نمبر آئے۔ اس لیے حکومت کارکردگی کا نقصان نہیں کرنا چاہتی۔

فضاء کو آلودہ کرنے میں ہم اپنی ذمہ داری برابر قبول کرتے ہیں لیکن اس کو مکمل ہمارے کھاتے ڈالنا قابل قبول بات نہیں ہے۔ کاش کے بارڈر کے بعد زمینی راستے کے ساتھ فضائی راستہ بھی منقطع ہو جاتا تو معلوم ہوتا کے وہ ممالک جو اپنے نام کے ساتھ فخر سے سپر پاور کا لفظ لگاتے ہیں وہ یہ سب کیسے برداشت کرتے ہیں۔ پڑوسی ملک کے ساتھ ہماری ویسے تو تجارت بند ہے لیکن میڈ ان انڈیا سموگ کی بارڈر پار ترسیل ایسے ہمارے گلے پڑی ہے کہ ہر ایک کا گلا خراب ہے۔

یہاں ترقی پذیر ممالک کے وسائل کا بے دریغ استعمال اور ان ممالک میں آلودگی پھیلانے میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی خدمات کا اعتراف بھی ضروری ہے۔ ان کمپنیوں کا طریقہ واردات بھی کیا خوب ہے، پہلے اپنے صنعتی یونٹ لگا کر ایک علاقے کا پانی خراب کریں گی پھر اپنا پلانٹ لگا کر صاف پانی بیچیں گی۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی زخم دے کر ہلدی بیچنے کی یہ پرانی عادت ہے جو جاتی نظر نہیں آتی۔ اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی تو کچھ بعید نہیں کے آنے والے چند سالوں میں یہ کمپنیاں صاف ہوا کے کنٹینر بھی بیچنے لگ جائیں اور ہم ٹیکنالوجی کی اندھی تقلید میں اپنے گھروں کو ان سلنڈروں سے بھر دیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کب تک ہم فصلوں کی باقیات جلانے اور اینٹوں کے بھٹوں کو سموگ کا ذمہ دار ٹھہرا کر بڑے مگر مچھوں کی حرکات پر چپ سادھے رہیں گے۔

آئیں پہلے تو اس وقت موجود سموگ میں اپنی حفاظت کے اقدامات کریں۔ کورونا وبا میں بھلے ماسک نہ پہنا ہو اب پہنیں۔ آنکھوں پہ حفاظتی چشمے استعمال کریں۔ دل، پھیپھڑوں اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا افراد مشقت طلب کام اور غیر ضروری سفر سے اجتناب کریں۔ طبی ماہرین کھلی فضاء میں ورزش اور کھیل کود سے اجتناب کا مشورہ دے رہے ہیں جسے تسلیم کرنے میں ہی عافیت ہے۔

موجودہ صورتحال سے جان چھوٹنے کے بعد ہمیں اب اگلے سال کی سموگ کا انتظار کرنے کی بجائے کچھ کرنا ہو گا۔ حکومت کو اینٹوں کے بھٹوں کے جرمانے اور فصلوں کی باقیات کو نہ جلانے کے حکم نامے کے علاوہ بھی عملی اقدامات کرنا ہوں گے ۔ عالمی اداروں کو صرف تشویش کے اظہار سے آگے بڑھ کر تمام ممالک کو میدان عمل میں لانا ہو گا۔ پڑوسی ملک بھارت کو بالخصوص آلودہ ہوا کی بارڈر پار ترسیل روکنا ہوگی۔ ہمارے ان اقدامات سے ہی آنے والی نسلیں حقیقی معنوں میں کھلی فضاء میں سانس لینے کی قابل ہوں گی ۔ اگر ہم نے اپنا رویہ نہ بدلا تو آنے والی نسلیں ہماری غلطیوں پر سجدہ سہو کرتی پھریں گی۔ بقول احمد جاوید صاحب

یہ لوگ نئی زندگی کی خواہش میں

نکل رہے ہیں دھواں بن کے کارخانوں سے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments