مثالی مرد اور عورت کے بارے میں بعض غلط فہمیاں



ہمارے معاشرے میں صرف مرد کو ہی ظالم اور عورت کو مظلوم بنا کر کیوں پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے کیا حکمت ہے۔ کیا ہر مرد اپنی بیوی کو گھر میں قید کر کے رکھتا ہے۔ اس کو آزاد فضا میں سانس نہیں لینے دیتا۔ اس پر تشدد کرتا رہتا ہے۔ اس کے حقوق بھی غصب کرتا ہے۔ بیچاری عورت جو موم کی طرح نرم و نازک ہوتی ہے۔ وہ مرد کے ظلم کا شکار ہوتی ہے۔ مگر حرف شکایت زبان پر نہیں لاتی۔ کیا یہ پورا سچ ہے۔

27 نومبر کو مجھے دو کالم پڑھنے کو ملے۔ جو مثالی عورت اور مثالی مرد کے موضوع پر مبنی تھے۔ دونوں لکھاریوں نے عورت کی مظلومیت کو موضوع بحث بنایا ہے۔

بقول ان کے مرد ظالم سماج کے درجے پر فائز ہے۔ وہ عورت کو اس کا جائز حق دینے کا روادار نہیں ہے۔ اگر حق دینے کی نوبت آتی ہے۔ تو اس میں اگر مگر کی گنجائش پیدا کر دی جاتی ہے۔

کیا سارے مرد اسی قماش کے ہوتے ہیں۔ کیا کوئی ایسا گھرانا معاشرے میں نہیں پایا جاتا۔ جہاں عورت باعزت زندگی گزار رہی ہو۔ جہاں اس کے آرام اور آسائش کا خیال نہ رکھا جاتا ہو۔ یا جس کے کام کا گوشوارہ بڑا طویل اور تھکا دینے والا نہ ہو۔ کیا پاکستان کے تمام گھروں کی کہانی ایک جیسی ہوتی ہے۔ جہاں عورت ظلم اور ستم کا شکار ہے۔ اور مرد ظالم ولن کا روپ دھارے رکھتا ہے۔

میرے سامنے والے گھر میں ایک ریٹائر ملازم رہائش پذیر ہیں۔ جن کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ان کی اہلیہ شوگر کے مرض میں مبتلا تھیں۔ تین سال پہلے انہوں نے اپنے ایک بیٹے کی شادی اپنے دور پار کے کسی رشتے دار کی بیٹی سے کردی۔ اور اپنی بیٹی کو چار پانچ گھر چھوڑ کر ایک اچھی فیملی میں بیاہ دیا۔

ایک دن میری بیگم خاتون کی عیادت کرنے گئیں۔ دن کے غالباً ́ گیارہ بج رہے تھے۔ اس وقت ان کی بہو اپنا کمرہ بند کیے سو رہی تھی۔ خاتون نے میری بیوی کو بتایا اس کی بہو روزانہ بارہ بجے اٹھتی ہے۔ اور یہ اس کا روزانہ کا معمول ہے۔ خاتون کی باتوں سے یہ اندازہ ہو رہا تھا۔ کہ وہ اپنی بہو کی روٹین سے کچھ زیادہ خوش نہیں ہے۔ کیوں کہ انہیں بیماری کی حالت میں بھی صبح سویرے اٹھ کر گھر کے ضروری کام نمٹانے پڑتے تھے۔

دوسری طرف انہوں نے اپنی اکلوتی بیٹی کو اپنے محلے میں اس لیے بیاہ کر دیا تھا۔ تاکہ وہ وقتاً ́ فوقتاً ́ ان کی خبر گیری کرتی رہے گی۔ خاتون نے میری بیوی کو جو بات بتائی۔ وہ بڑی ہی افسوس ناک تھی۔ بقول ان کے صبح جب اس کی بیٹی کا شوہر کام پر جاتا تھا۔ تو فوراً ́ وہ اپنا موبائل بند کر دیتی۔ تاکہ ماں کی کال اٹینڈ نہ کرنی پڑے۔ ایک جوان بیٹی اور بہو کی موجودگی کے باوجود بھی بیمار خاتون کو مسائل کا سامنا تھا۔ پچھلے دنوں وہ بدقسمت خاتون اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ حالانکہ بیٹے کی شادی سے پہلے وہ بھلی چنگی تھیں۔ عورت کی اپنی سگی بیٹی ماں کے کام نہ آ سکی۔

عورت کا ایک روپ عائشہ ٹک ٹاکر کا بھی ہے۔ جس نے ایک پارک میں سینکڑوں مردوں کو بیوقوف بنایا۔ اور ایک اچھا بھلا تماشا کھڑا کر دیا۔ اقرارالحسن جیسا گھاگ شخص بھی اس کی چال میں آ گیا۔ اور اسے اپنی بہن کا درجہ دے دیا۔ عائشہ کی حقیقت سامنے آنے پر اب وہ اپنے کیے پر نادم ہے۔ اور قوم سے معافی مانگ چکا ہے۔ بیچارہ خلیل قمر تو ویسے ہی بدنام ہے۔ اس نے اپنے ایک ڈرامے میں عورت کو لالچی اور بے وفا کیا دکھایا۔ صنف نازک کے غصے اور غضب کو دعوت دے دی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ کیا معاشرے میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ کیا کوئی عورت دولت دیکھ کر کسی دوسرے مرد پر لٹو نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے۔

ہمارے ملک میں عورت کو صرف ابن صفی کے ناولوں میں مرکزی کردار کے طور پر ہی نہیں دکھایا جاتا۔ بلکہ چوراہوں پر بنے سائن بورڈز اور میگزین کے سرورق پر بھی بڑے اہتمام سے جگہ دی جاتی ہے۔ ایسا عورت کی مرضی اور منشا کے بغیر ہرگز نہیں ہوتا۔

میں لکھاری کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ کہ ہمارے ملک میں بعض عورتوں کو ان کا جائز مقام نہیں دیا جاتا۔ مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔ صرف ناولوں، کہانیوں اور کالمز میں بڑھا چڑھا کر عورت کو مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات اپنی ناسمجھی، بے وقوفی اور لالچ کی وجہ سے بھی کسی عورت کو سسرال میں مسائل کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔

یہ چند لوگوں کی خام خیالی ہے کہ ہر مرد اپنی بیوی کو پاؤں کی جوتی کے برابر سمجھتا ہے۔ یا اس کو اپنے سے کم تر مخلوق کے درجے پر دیکھنا چاہتا ہے۔ اپنی کہانی کا پیٹ بھرنے کے لئے لوگ زمین اور آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ مگر اس طرح کر کے ان مردوں کی تذلیل کی جاتی ہے۔ جو اپنی بیوی کو اپنے سر پر بٹھاتے ہیں۔ اس کو ایک باوقار مرتبے پر فائز کرتے ہیں۔ اس کی ہر خواہش کا احترام کرتے ہیں۔ اچھے برے دنوں میں اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ تمام مردوں کو ایک لاٹھی سے ہانکنا نا انصافی پر مبنی ہے

جس طرح ایک ہاتھ کی پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ اسی طرح مختلف مزاج اور فطرت کے مرد و خواتین کی ایک اچھی خاصی تعداد معاشرے میں موجود ہے۔ کہیں مرد ظالم اور عورت مظلوم ہوتی ہے۔ اور کہیں اس کے الٹ معاملہ ہوتا ہے۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر کسی عورت میں بگاڑ آ جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کو راہ راست پر نہیں لا سکتی۔ اخبارات اور میڈیا میں آئے روز اس طرح کی بے شمار کہانیاں شایع کی جاتی ہیں۔

”ایک عورت اپنے اتنے بچوں کو چھوڑ کر آشنا کے ساتھ فرار ہو گئی“ ۔ یا ”کسی عورت نے اپنے محبوب کی خاطر اپنے شوہر کو قتل کر ڈالا“ ۔ وغیرہ وغیرہ

اگر خواتین سسرال میں بہتر زندگی گزارنے کی خواہش مند ہیں۔ تو اس صورت میں انہیں سسرال کے ہر فرد کو اس کے مرتبے کے مطابق عزت بھی دینی پڑے گی اور اس کا لحاظ بھی کرنا پڑے گا۔ سب سے بڑھ کر اپنے شوہر کو سچی جھوٹی کہانیاں سنا کر فیملی سے بد زن کرنے سے پرہیز کی راہ اختیار کرنی پڑے گی۔ ایسا کر کے ہی وہ سسرال میں عزت کما سکتی ہے۔

اگر کسی خاتون کو سسرال میں سنجیدہ مسائل درپیش ہیں۔ تو اس کے پیچھے کوئی دوسری عورت یعنی ساس اور نند ہوتی ہے۔

میں نے اپنی سرکاری نوکری کے دوران بے شمار علاقوں میں سکونت اختیار کی ہے۔ میرا ایک وسیع خاندان سے تعلق ہے۔ مگر میں نے اپنی پوری زندگی میں کہیں بھی کوئی ایسی مظلوم عورت نہیں دیکھی۔ جس کا ذکر بعض لکھاری اپنی تحریروں میں بڑے شد مد سے کرتے ہیں۔

البتہ دو ایسے مرد ضرور دیکھے ہیں۔ جو اپنی بیویوں کی عدم توجہی اور زیادتیوں کا شکار ہو کر یہ دنیا چھوڑ گئے۔

جہاں تک ضابطہ حیات برائے مرد بنانے کا تعلق ہے۔ اس کی نہ ضرورت ہے اور نہ کوئی گنجائش۔ کیوں کہ قرآن پاک ایک مکمل ضابطہ حیات کی صورت میں موجود ہے۔ اس پاک کلام میں ہر مرد و زن کے حقوق و فرائض بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کر دیے گئے ہیں۔ اس میں عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ اس کا مطالعہ کر کے ہم اپنی زندگی کو سہل بھی بنا سکتے ہیں۔ اور اپنی آخرت کو بھی سنوار سکتے ہیں۔ اس طرح ہمیں کسی آزادی مارچ کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments