ملک ریاض: حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر


وہ ہر معاملے میں لڑتے ہیں۔ اخلاقیات کی ہر حد عبور کر جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کا وجود اور مینڈیٹ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ کسی بھی معاملے میں ان کا اتفاق نہیں۔ اپوزیشن کا منہ مشرق تو سرکار کا چہرہ شمال کی جانب ہوتا ہے۔ ایک دن کہے تو دوسرا کہتا ہے جھوٹ جھوٹ یہ تو آدھی رات ہے۔ لیکن ایک معاملے میں ان کا مکمل اتفاق و اتحاد ہے۔ ایسا اتحاد ہے کہ اندر سے سوئی بھی نہ گزرے۔ اس معاملے میں میڈیا اور مقتدرہ بھی محمود و ایاز کے ہمراہ ایک ہی صف میں کھڑی ہے۔ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض پر سب متفق ہیں۔ برطانوی عدالت نے ملک ریاض اور صاحبزادے کا ویزہ کینسل کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا

اس پر میڈیا میں تو مکمل ہوکا عالم تھا۔ نو بجے کا خبر نامہ ہوا۔ بڑی گرج دار آواز کے ساتھ خبریں پڑھی گئیں لیکن یہ خبر غائب تھی۔ سوائے ایک بڑے اور قدیم میڈیا گروپ کے کسی نے اس خبر کو لفٹ نہ کروائی۔

آخر کیا وجہ ہے کہ میڈیا نے اس خبر کو لفٹ نہ کروائی؟ کیا اس خبر کو قومی مفاد کے تحت روکا گیا؟ یہ قومی سلامتی کے حساس ترین تقاضوں کے تحت اس کا گھلا گھونٹا گیا۔ کیا پیسہ ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ کیا کوئی اس معاملے کا نوٹس لے گا کہ میڈیا جس کا کام عوام تک اطلاعات پہنچانا ہے۔ اس نے عوام کو اس خبر سے لاعلم کیوں رکھا، کوئی عدالت اس حوالے سے آزادی صحافت کے علمبرداروں سے پوچھے گی کہ آپ نے یہ خبر کیوں نہ دی۔ عوام کو حق اطلاعات سے کیوں محروم رکھا گیا۔ پیسوں سے خبریں دبانے کا کون نوٹس لے گا؟ شاید کوئی نہیں۔ کیونکہ مکمل گھٹن ہے۔ سانس لینا بھی دشوار۔ شاید میر نے اسی لیے کہا تھا سب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔

میڈیا کے چند اداروں کو بھی اس حوالے سے کچھ طے کرنے یا پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے، کیا دولت دکھا کر ہر کوئی اپنے خبر رکوا لے۔ کیا اب پیسہ ہی صحافت کا اصول رہ گیا، مزاحمت تو صحافت کی سگی بہن ہوا کرتی تھی۔ یہ کس قسم کے معاشرے کی تشکیل میڈیا کرنا چاہتا ہے جہاں ہر امیر آدمی اپنی خبر رکوا لے گا۔ دوسرے الفاظ میں اس کی ہی خبر لگائی یا نشر کی جائے گی جو پیسے نہ دے۔ خدارا صحافت کو طوائف نہ بنائیں۔ عوام میں میڈیا کا یہ تاثر انتہائی گہرا ہو چکا ہے۔ میڈیا اس تاثر کو زائل کرے۔ ماضی میں بھی کئی مواقعوں پر اس شخصیت کے حوالے سے میڈیا ایسا ہی بلیک آؤٹ کر چکا ہے۔ ایک بار تو عدالت عظمیٰ کی سماعت کا بھی میڈیا نے بلیک آؤٹ کر دیا تھا۔

ادھر حکومت اور اپوزیشن کے سیاستدان جو ملک میں وقوع پذیر ہونے والے ہر واقعے پر رائے زنی کرتے ہیں۔ اس معاملے پر حکومت اور اپوزیشن رہنما مشترکہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کسی نے نہ ٹویٹ کیا اور نہ کوئی پریس ریلیز جاری ہوئی۔ وفاقی وزیر فواد چودھری ویسے کینیا کے معاملات پر بھی اپنا موقف دیتے ہیں۔ اس معاملے پر ان کا ٹویٹر کیوں خاموش رہا۔ وزیر اعظم عمران خان، شہباز شریف، بلاول، مریم نواز، فضل الرحمن کو تو جیسے چپ لگ گئی۔ چپ لگے بھی کیوں نہ سب اسی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments