پتنگ


مصنف: ادیتی مہروترا
مترجم : ڈاکٹر آفتاب احمد، سینئر لیکچرر، کولمبیا یونیورسٹی، نیو یارک

ادیتی مہروترا کا اس افسانچے کی راوی ایک نئی بہو ہے جو اپنے شوہر کے ساتھ کسی شہر میں رہتی ہے۔ آزاد۔ اپنی مرضی کی مالک۔ کہانی دو حصوں میں ہے۔ پہلے حصے میں راوی دیوالی کے موقع پر اپنے شوہر امر کے گاؤں یعنی اپنی سسرال جانے کی تیاری کر رہی ہے۔ دوسرے حصے میں وہ سسرال میں پہنچ چکی ہے۔ دونوں حصوں میں روزمرہ کی زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتیں اور نئی بہو پر سسرال میں ذہنی دباؤ کی تفصیلات کافی دلچسپ ہیں۔

***

ساری تیاریاں لگ بھگ ہو ہی گئی ہیں۔ اس بار دیوالی پر امر کے گاؤں جانا ہے۔ پلنگ کے اندر سے چھ سات ساڑھیاں نکال لی ہیں۔ دھوپ دکھا دی ہے۔ بلاؤز، پیٹی کوٹ دھوکر سکھا لیے ہیں۔ چار پانچ شلواریں بھی الماری سے ڈھونڈ نکالیں۔ کلف کو پیاسی تھیں سو لگا دیا۔ انڈر گارمنٹس بیٹھ کے چھانٹے۔ ’مہذب‘ یا ’مناسب‘ یا ’شائستہ‘ قسم کے۔ یعنی کاٹن کے سادے، پھیکے، جو کسی دوپٹے کے نیچے چھپے، چپ چاپ الگنی پر سوکھ جائیں۔ نہ لہرائیں، نہ اترائیں۔ ریشمی، لیس لگے، خوبصورت، لال کالے، خوبانی جلد پر پھبنے والے انڈر گارمنٹس یہیں گھر پر اکیلے دیوالی منائیں گے۔ ایسا سوچتے ہی ہنسی چھوٹتی ہے۔ امر پوچھتا ہے۔ کیا ہوا؟ انگلیوں کے بیچ دو چار کو پکڑتی ہوں اور کہتی ہوں، ”یہ اکیلے دیوالی منائیں گے“ وہ بھی ہنس دیتا ہے۔ ہوا جیسی ہنسی، پتنگ کے نیچے کی ہوا۔

چوڑیوں کے ڈبے، بندیوں کے پتے، سب ایک دراز میں مل گئے۔ سندور کی ڈبی کب پیچھے لڑھک کر بکھر گئی تھی، پتہ ہی نہیں چلا۔ اسٹیشن کے راستے میں آٹو رکوا کر دوسری جلدی سے خرید لوں گی۔

ایک انگوٹھی جو امر نے پسند کی تھی اور ایک پتلی سونے کی چین جو میں نے اپنی پہلی سیلری سے لی تھی، اسی کی عادت ہے۔ باقی سب پھنستا ہے، کھینچتا ہے، روکتا ہے۔ پتنگ ہلکی ہوگی تو اڑے گی۔ سونے کے بالے، بچھیا، چوڑی کا ڈبہ، منگل سوتر، سب پرس میں رکھ لیتی ہوں۔ ہڈیوں پر لادنے سے اچھا ہے پرس میں آرام کریں۔ ٹرین کا سفر لمبا ہے۔ زندگی کا بھی۔

گاؤں میں پہنچتی ہوں۔ کیؤں سے پہلی بار ملاقات ہوگی۔ سب کچھ کیسا ہے کیسے بتاؤں۔ دھان کی سونے جیسی بالیاں، لال پیلے گھونگھٹ کے پیچھے سے مٹمیلی سی نظر آتی ہیں۔ افق کا کنارا دھندلا ہے کیونکہ دور کی عینک پرس میں آرام فرما رہی ہے۔ نئی بہو کے گھونگھٹ میں عینک دیکھی ہے کبھی؟

سب سے ملتی ہوں۔ پرنام کرتی ہوں۔ امر کی لمبی عمر کے لیے آشیرواد بٹورتی ہوں۔ کئی نظریں پیٹ کے ابھار پر ہیں۔ چنٹیں سلیقے سے بنانی چاہیے تھیں۔ یونہی ٹھونس لیں۔ خوش خبری نہ سنا پانے کی شرمندگی سے گال لال ہیں۔ گاؤں کو پوتا چاہیے۔ کیا کہوں۔ ”تکلیف کے لیے معافی چاہتی ہوں؟“

تھوڑا فریش ہو لیں، ابھی اور لوگ بھی آتے ہوں گے ۔ تیار ہو کر کمرے سے نکلنے سے پہلے میک اپ بیگ سے فاؤنڈیشن کی شیشی نکالتی ہوں اور امر کو پکڑاتی ہوں۔ پیچھے گھوم کر اور گردن جھکا کر اس سے کہتی ہوں، ”لگاؤ، پارٹنر ان کرائم!“

” کیا ضرورت ہے؟“ کہتے ہوئے اس کی گیلی انگلیاں گردن کو چھوتی ہیں۔ گردن پر بنا اڑتی پتنگ کا ٹیٹو دھیرے دھیرے ہلکا ہو رہا ہے۔ پوری طرح سے چھپے گا نہیں، پر گھونگھٹ سے ڈھکا اتنا ہلکا فی الحال چلے گا۔ کوئی بات نہیں، بس کچھ ہی دن کی بات ہے۔

از کتھا دیش، اگست 2019


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments