شراب، شباب اور کباب


ایسے معاشرے زندگی کے کسی بھی میدان میں آگے نہیں بڑھ سکتے جہاں منافقت عروج پر ہو، جہاں دوہرے معیارات کا چلن ہو اور منافقت کی باقاعدہ ایکسٹرا کوچنگ کلاسز کا دھندا بھی عروج پر ہو۔ دینی مدارس میں باقاعدہ طور پر اس چلن کی پریکٹس کروائی جاتی ہے، ایک دوسرے کے فرقہ کے خلاف مناظرہ بازی کی باقاعدہ ریہرسل کروائی جاتی ہے اور معمولی تشریحاتی مسائل پر طلباء اور عوام کو فرقوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا جاتا ہے۔

جبکہ خود علماء اتحاد بین المسلمین، نو ستارہ، مجلس عمل یا اسلامک فرنٹ کے نام سے اتحاد قائم کر کے سیاسی پاور گیم کا حصہ بننے کے لیے ایک ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز بھی پڑھنے لگتے ہیں۔ عوام کو فرقوں کے نام پر تقسیم کر کے اپنا چندہ، فنڈ اور قربانی کی کھالیں وغیرہ سمیٹنے کا بندوبست بھی چلتا رہتا ہے اور عوام کی نظروں سے چھپ کر تمام فرقوں کے علماء مل کر اقتدار کی کوششوں میں بھی لگے رہتے ہیں۔ اپنے مجمع میں دنیاداری اور سیاست پر لعنت ملامت بھی کرتے رہتے ہیں یعنی چپڑی ہوئی وہ بھی دو دو۔

منافقت کا یہ تسلسل ہمارے ہر طبقے میں موجود ہے کوئی اس کلچر سے بچا ہوا نہیں ہے مگر اگر مذہب کے نام پر ایسا ہوتا ہے تو تھوڑا عجیب لگتا ہے۔ مذہبی دوستوں سے اکثر اس موضوع پر بات ہوتی رہتی ہے کہ ہم روحانیت کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود ہر میدان میں پیچھے ہیں مگر یورپ ہر میدان میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے آخر اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ انتہائی جذباتی انداز میں ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ دیکھو مغرب میں فحاشی اور بے حیائی عروج پر ہے، ان کی زندگیوں کا مقصد شراب، شباب اور کباب بن چکا ہے۔

وہاں عورتیں ساحلوں پر ننگی لیٹی ہوتی ہیں اور سڑکوں پر ہی سیکس اور چوما چاٹی چل رہی ہوتی ہے۔ کوئی بات نہیں یہ کفار دنیا میں مزے لوٹ رہے ہیں اور آخرت میں ہم لوٹیں گے اور یہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ میرا ان کو یہ کہنا ہوتا ہے کہ کیا شراب، شباب اور کباب کلچر مسلمان ممالک میں موجود نہیں ہے؟ جتنے بھی عرب ممالک ہیں کیا وہاں یہ سب نہیں چلتا؟ فرق صرف اتنا سا ہے کہ کفار ہماری طرح منافقت کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ انہوں نے اس کلچر کو اکانومی میں تبدیل کر دیا ہے۔

انہوں نے انسانی فطرت پر کھوکھلے اخلاقی ضابطے اور پابندیاں لگانے کی بجائے اس جسمانی و ذہنی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے اس کلچر کو چینلائز دیا ہے۔ انہوں نے انتہائی عمیق نظری سے جائزہ لینے کے بعد یہ ترتیب بنائی کہ انسان کی سیکس لائف پر پہرے نہیں بٹھائے جا سکتے اور آج کی دنیا میں ہر شخص اتنا باشعور ہو چکا ہے کہ وہ اپنے جسمانی، ذہنی یا کاروباری فیصلے اپنے طور پر اچھے سے لے سکتا ہے۔ انہوں نے جبری ضابطوں کے ذریعے لٹھ لے کر پیچھے پڑنے کی بجائے انسانی فہم پر بھروسا کیا اور انہیں اپنے طور پر اپنے وجود سے متعلقہ اچھے یا برے فیصلے لینے میں آزاد چھوڑ دیا۔

اسی لئے شراب، شباب اور کباب ان کا یہ اہم مسئلہ ہی نہیں رہا کیونکہ ریاست کا کام رعایا کے بیڈ روم میں گھسنا نہیں ہوتا بلکہ انہیں ایک بہتر مستقبل دینا ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر وہ ہم سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ ہمارا دماغ آج بھی انہی مسائل کے گرد گھوم رہا ہے کہ لوگوں کو ان بے حیائی والے کاموں سے کیسے روکیں؟ عوام کی فلاح و بہبود جائے بھاڑ میں۔ عرب ممالک میں رہائش پذیر اکثر دوستوں سے بات چیت رہتی ہے اکثر ان سے اس بات پر تبادلہ خیال ہوا ہے کہ کیا مسلمان ممالک میں شراب، شباب کلچر نہیں ہوتا؟

دوستوں کا یہ جواب ہوتا ہے کہ عرب ممالک میں یہ سب کچھ ان ڈور اور چھپ چھپا کے ہوتا ہے جبکہ باہر نمازوں کے اوقات میں دکانیں بند ہوجاتی ہیں اور شراب کا استعمال جتنا ان ممالک میں ہوتا ہے شاید ہی یورپ میں اتنا زیادہ ہوتا ہوں۔ یہ ہے وہ منافقت جو ہماری رگوں میں اتر چکی ہے۔ یورپ میں جو ہوتا ہے اس کی آپ کو دعوت نہیں دی جاتی بلکہ آپ اپنی مرضی سے گاہک بننے کا فیصلہ کرتے ہیں اور ریڈ ایریا میں چلے جاتے ہیں۔ جب کہ ہم سڑکوں پر یا کھلے عام اپنی پاکبازی کا دکھاوا کرنے کے لئے اس کلچر پر لعنت ملامت کرتے ہیں جب اس منہ زور جبلت کے آگے بے بس ہوتے ہیں تو چھپ چھپا کر ان ڈور سرگرمیوں کی طرف بھی چل نکلتے ہیں۔

اس کے باوجود منافقت کا یہ عالم ہے کہ ہم خود کو اخلاقیات کا سرچشمہ سمجھتے ہیں اور کفار کو غلاظت کا ڈھیر۔ میرے کویتی دوست کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں یہ سروس فون کال پر مل جاتی ہے اور آپ کو جتنا شراب، شباب اور کباب چاہیے ہوتا ہے اس کی آپ کو ہوم ڈیلیوری ہو جاتی ہے۔ منافقت کا ایک اور لیول بھی ہے کہ دن رات گالیاں کفار کو دینی ہیں مگر اپنی زندگی کو گلزار بنا نے کے لیے کسی بھی یورپی دنیا کا ویزہ جائز ہے، اس کا مظاہرہ ہم نے افغانستان سے امریکہ جانے والی فلائٹ کی صورت میں دیکھا جس کے ساتھ ہزاروں لوگ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر چپکے ہوئے تھے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے معاشرے کو کچھ اس طرح سے بنا دیا ہے کہ نہ ہم پیور سچ بول سکتے ہیں، نہ سن سکتے ہیں اور نہ ہی سن کر ہضم کر سکتے ہیں اور کچھ لوگ اگر ہمت کر کے خالص سچ بولنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو ان کے پیچھے ڈنڈے لے کر پڑ جاتے ہیں۔ ہمیں ایکسٹریم پوزیشن پر رہنے کی عادت ہو چکی ہے سافٹ اور اوپن پوزیشن کیا ہوتی ہے اس کا ہمیں ادراک بالکل بھی نہیں ہے۔ ہم ایک ایسے جذباتی حیوان بن چکے ہیں جن کے اندر اتنی سکت بھی نہیں رہی کہ وہ سچ کی تلاش کے سفر کو آگے بڑھانے والے اعلی دماغوں کی بات ہی سن لیں۔

کتنی عجیب بات ہے کہ انسان ہوتے ہوئے اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے ہر طرح کے سوالات کو ہم ڈر اور خوف کی وجہ سے آپس میں شیئر ہی نہ کر سکیں۔ ہمارے معاشرے میں کتنے ذہین لوگ ہیں جن کے ذہنوں میں بہت سارے آئیڈیاز ہوتے ہیں مگر معاشرتی ڈر کی وجہ سے وہ تمام آئیڈیاز ان کے ذہنوں میں ہی دفن ہو جاتے ہیں۔ یاد رکھیں منافقت کا خول پہن کر ہم کبھی بھی اچھے انسان نہیں بن سکتے۔ آخر میں ایک اہم خبر آپ سے شیئر کرنا تھی کہ متحدہ عرب امارات نے شادی سے پہلے جنسی تعلق قائم کرنے کو جرائم کی فہرست سے نکال دیا ہے۔ توبہ توبہ توبہ یہ تو بہت ہی بے شرمی کی بات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments