آزاد کشمیر کی قاتل سڑکیں اور تعمیر و ترقی کے بلند بانگ دعوے۔


یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کسی بھی علاقے یا کسی بھی جگہ کی تعمیر و ترقی میں ذرائع آمدورفت ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے اور معاشی انقلاب آئے ہیں اس میں ذرائع آمدورفت نے بنیادی کردار ادا کیا ہے آج بھی کسی بھی سطح پر ترقی کرنے کے لئے سب سے زیادہ ذرائع آمدورفت کا ہونا معاشی اور سماجی ترقی کو ممکن بنا سکتا ہے۔ آزاد کشمیر جو کہ چار ہزار مربع میل پر مشتمل ہے۔ یہاں گزشتہ 74 سالوں سے مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ایوان اقتدار میں پہنچے۔

تعمیر و ترقی کے نام پر اربوں روپیہ بجٹ سے لیا گیا۔ آزاد کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جہاں سے ہر گھر میں سے کم از کم ایک اور بعض گھروں سے دو دو تین تین چار چار پانچ پانچ افراد بھی بیرون ملک روزگار کی تلاش میں گئے ہیں۔ روزگار کی تلاش میں آزاد کشمیر سے بیرون ملک ہجرت کرنے والوں کی اکثریت مشرق وسطی اور کچھ لوگ یورپ ’نارتھ امریکہ اور دیگر ممالک میں مقیم ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں محنت مزدوری کرنے والے کشمیری تپتے صحراؤں میں دن رات محنت کر کے اپنے والدین اپنے بچوں اور اپنے عزیزواقارب کی کفالت کرتے ہیں اسی طرح یورپ اور نارتھ امریکہ اور دیگر ممالک میں بسنے والے کشمیری منفی درجہ حرارت میں دن رات کھڑے رہ کر سولہ سے اٹھارہ گھنٹے مزدوری کرتے ہیں اور اپنی فیملیوں کی کفالت کرتے ہیں اپنے گھروں پر پختہ چھتیں ڈالتے ہیں۔

اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرتے ہیں۔ اپنی فیملی اور عزیز و اقارب کا علاج معالجہ کرواتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے نمائشی حکمران گزشتہ سات دہائیوں سے لوگوں کو ذرائع آمدورفت تعلیم۔ پینے کا صاف پانی صحت اور علاج معالجہ اور دیگر بنیادی سہولتیں مہیا کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ تعمیر و ترقی کے بلند بانگ دعوے کرنے والے حکمرانوں کے دعوے زمینی حقائق سے متصادم ہیں۔ ان کی نا اہلی اور کرپٹ سسٹم کی وجہ ہمارے لوگ کسی بھی شعبے میں ترقی نہ کر سکے۔

یہ حکمران عوام کو نہ تو بنیادی سہولتیں دے سکے اور نہ ہی ان کے دکھوں کا مداوا کر سکے۔ عوام کے ٹیکس کے پیسے سے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے نام پر آئے روز نمائشی حکمران بیرونی ممالک کے دورے کرتے ہیں۔ فوٹو سیشنز ہوتے ہیں۔ اخبارات اور میڈیا میں بڑی بڑی نیوز جاری کی جاتی ہیں۔ نمائشی حکومت کے یہ وزراء بین الاقوامی برادری کو یہ بریف کرتے ہیں کہ آزاد کشمیر کو ایک مثالی ریاست بنایا گیا ہے۔ یہاں کی تعمیر و ترقی سویٹزر لینڈ اور یورپ سے کم نہیں۔ عوام کو تمام بنیادی سہولتیں میسر ہیں اور روزگار کے وافر مواقع بھی موجود ہیں۔ جبکہ زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ آزاد کشمیر کے صدر سلطان محمود نے چند روز قبل حسب سابق ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ آئندہ چند سالوں میں آزاد کشمیر تعمیر و ترقی میں یورپ سے آگے نکل جائے گا۔ موصوف 1996 سے 2021 تک وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان رہے ہیں۔ اقتدار کے حصول اور تابعداری میں اتنی پارٹیاں تبدیل کر چکے ہیں۔ کہ شاید موصوف کو خود بھی تمام پارٹیوں کے نام یاد نہ ہوں۔

جس طرح کے بلند بانگ دعوے، وعدے اور سبز باغ پاکستان کے موجود حکمرانوں نے پاکستانی عوام کو دکھائے تھے اسی طرح آزاد کشمیر میں یہ سلسلہ شروع ہے۔ آزاد کشمیر کے اندر صنعتیں موجود نہیں، روزگار کے مواقع انتہائی محدود ہیں۔ مذہبی انتہاپسندی اور لاقانونیت کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پروان چڑھایا گیا۔ میرٹ نام کی کوئی چیز یہاں موجود نہیں۔ ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر لوگوں کو مخلتف محکموں میں بھرتی کیا جاتا ہے۔

ملازمت کے حصول کے لیے بھی ریاست جموں و کشمیر کے الحاق اور اپنی وفاداری کا حلف دینا پڑتا ہے۔ نسل در نسل ان نمائشی حکمرانوں کی خوشامد کرنی پڑتی ہے اور ان کو ووٹ دینے پڑتے ہیں۔ چونکہ ازادکشمیر میں انڈسٹری نام کی کوئی شے موجود نہیں۔ ایسے میں لوگوں کو روزگار کے حصول کے لیے ملکوں ملکوں کی خاک چھاننی پڑتی ہے۔ یوں تو ہر شعبے میں ماہر اور ہنرمندوں افراد کی کمی ہے۔

نہ تو لوگوں کے پاس مہارت ہے اور نہ ہی جدید تعلیم سے آراستہ ہیں۔ ایسے میں من پسند لوگوں کو نوازنے کے لئے ٹھیکیداری اور سب ٹھیکیداری نظام متعارف کرایا گیا ہے۔ جب ٹھیکیداروں کو ٹھیکے ملتے ہیں۔ تو ٹھیکہ دینے والوں کو بھی ان کا ایک حصہ دیا جاتا ہے۔ اور جب سڑک تعمیر کی جاتی ہے تو محکمے کے لوگوں کے ساتھ ملی بھگت کے ساتھ چاہیے سڑک کی کوالٹی جیسی بھی ہو پاس کر دی جاتی ہے کاغذات میں سڑک کی چوڑائی اگر 24 فٹ ہے تو گراؤنڈ پر 12 فٹ سے بھی کم ہوتی ہے۔

سڑکوں کی تعمیر میں ایسا ناقص میٹریل استعمال کیا جاتا ہے کہ چند ہفتوں کے اندر ہی سڑکوں پر گھاس اگنا شروع ہوجاتی ہے۔ نہ تو صحیح سروے کیا جاتا ہے۔ نہ حفاظتی دیواریں تعمیر کی جاتی ہے اور نہ ہی بارش کے پانی کی نکاسی کا انتظام کیا جاتا ہے۔ چند ہفتوں کے اندر ہی سڑکوں پر گڑھے پڑ جاتے ہیں اور چند ماہ میں سڑکیں کھنڈرات بن جاتی ہیں۔ موسم برسات اور سردیوں کے موسم میں ناقص تعمیر کا الزام برسات اور برف باری پر دھر دیا جاتا ہے۔

کے بارشوں اور برفباری نے سڑکوں کو تباہ کر دیا ہے۔ بعض جگہوں پر تو فائلوں میں سڑکیں موجود ہیں۔ ان سڑکوں کی تعمیر کی مد میں کروڑوں روپے خزانہ سے نکالے گئے ہیں لیکن زمین پر سڑک نامی چیز کا کوئی وجود نہیں۔ لوگوں کو کام پر جانے کے لئے‘ بچوں ’اساتذہ اور تدریسی عملہ کو سکولوں اور کالجوں تک پہنچنے کے لئے ان کھنڈرات نما سڑکوں پر سفر کرنا پڑتا ہے۔ حادثات اور قیمتی جانوں کا ضائع معمول بن چکا ہے۔ ہر حادثے کے بعد نمائشی حکمران ہمدردی کے بیانات دیتے ہیں۔

اور لواحقین کی مالی امداد کے وعدے کیے جاتے ہیں۔ لیکن ان وعدوں پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس حمام میں سارے ننگے ہیں۔ آزاد کشمیر کے اندر صحت کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں عام امراض کے علاج کے لیے پیراسٹامول اور ڈسپرین وغیرہ تو میسر ہیں۔ لیکن پیچیدہ امراض کی تشخیص کے لئے جدید لیبارٹریاں اور ادویات میسر نہیں۔ 2005 کے قیامت خیز زلزلے کے بعد متحدہ عرب امارات نے مظفرآباد اور راولاکوٹ میں جدید مشینوں سے لیس ہسپتال بنائے۔

مقامی لوگوں کو تربیت دینے کے بجائے۔ ٹیکنیشنز کی کمی کا بہانہ بنا کر جدید مشینوں کو آزاد کشمیر سے منتقل کر دیا گیا۔ مجبوراً مقامی لوگوں کو علاج معالجے کے لئے اپنے عزیز و اقارب کو چارپائی میں ڈال کر اپنے کندھوں پر اٹھا کر پہلے تو سڑک تک پہنچانا پڑتا ہے۔ صاحب ثروت خود کسی پرائیویٹ گاڑی یا ایمبولینس کا انتظام کرتے ہیں اور غریب قرض ادھار کر کے کسی گاڑی کا بندوبست کرتے ہیں۔ چونکہ آزاد کشمیر میں علاج معالجے کی سہولیات کا فقدان ہے اسی لئے مریضوں اور زخمیوں کو ان قاتل نما سڑکوں پر سفر کرا کے راولپنڈی یا اسلام آباد لے جانا پڑتا ہے۔

اکثر مریض ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں دم توڑ دیتے ہیں۔ جو خوش قسمتی سے زندہ پہنچ جائیں وہ پرائیویٹ ہسپتالوں کی بھاری بھرکم فیس اور دیگر من منانے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ ان کھنڈرات نما سڑکوں حادثات معمول بن چکے ہیں۔ لوگ اپنے عزیزوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھو دیتے ہیں۔ یہ کھنڈرات نما سڑکیں حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ حکمرانوں کی غفلت و نا اہلی تو اپنی جگہ لیکن ہم کئی کئی دہائیوں سے ان نا اہل اور نمائشی حکمرانوں کے جھوٹے دعوؤں اور پروپیگنڈے کا شکار ہو کر ان کو ووٹ دیتے آئے ہیں۔

ہمارے یہاں بہادری اور دلیری کے بلند بانگ دعوے کرنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ اپنے آپ کو شہیدوں اور غازیوں کے وارث ثابت کرنے کے لئے کیا کیا جتن نہیں کرتے۔ ایسے ایسے معرکوں اور فتوحات کے تذکرے سنے کو ملتے جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ ان بلند بانگ دعویداروں نے کبھی یہ جرات نہیں کی کہ ان نااہل حکمرانوں کا احتساب کریں اور ان سے پوچھنے کی جرات کریں کہ تعمیر و ترقی کے نام پر جو اربوں کھربوں روپے انہوں نے گزشتہ سات دہائیوں میں بجٹ سے لیا، وہ کہاں پر اور کس مد میں خرچ ہوئے؟

ہزاروں لوگ جو ان سڑکوں پر حادثات کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ان کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ ان کے بچوں اور ان کی فیملی کی کفالت کا ذمہ داری کس پہ عائد ہوتی ہے؟ بیرون ممالک میں مقیم کشمیری سالانہ اربوں ڈالرز زرمبادلہ بھیجتے ہیں وہ کشمیریوں کی تعمیر و ترقی پر خرچ ہونا چاہیے۔ مگر یہ سیاسی شعبدہ باز نمائشی حکمران بیرون ممالک میں محنت مزدوری کر کے اپنے خاندانوں کی کفالت کرنے والے کشمیریوں سے سڑکوں کی تعمیر اور مرمت، ہسپتالوں، صحت کے مراکز کے قیام، تفریحی مقامات کی تعمیر اور توسیع کے نام پر چندہ بٹورتے ہیں۔

ذرائع آمدورفت‘ صحت علاج معالجے کی سہولیات ’پینے کا صاف پانی‘ مفت تعلیم، میرٹ پر روزگار مہیا کرنا، لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہم ان لوگوں سے بھی یہ پوچھنا چاہتے ہیں جو ان نمائشی حکمرانوں کے بہکاوے میں آتے ہیں سڑکوں کی مرمت کے لیے پارکوں کی تعمیر و توسیع کے لئے سرکاری ہسپتالوں کی مرمت کے لیے ان کو چندہ دیتے ہیں۔ جو کشمیری دنیا بھر کے ممالک میں روزگار کی تلاش میں آباد ہیں۔

یہ تو ان کے علم اور مشاہدے میں ہے کہ ان ممالک کی حکومتیں اپنے عوام کو ذرائع آمدورفت، صحت کی سہولیات مفت تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات مہیا کرتی ہیں۔ ان کے جان مال کی حفاظت کرتی ہیں۔ عوام جو ٹیکس ادا کرتی ہے حکومتیں وہ روپیہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی ہیں۔ نہ کہ عوام سے چندہ بٹورنے کی مہم چلائی جاتی ہیں۔ ہمارا علاقہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے بیرون ممالک سے اربوں ڈالر سالانہ زرمبادلہ کی صورت میں کشمیری اپنے ملک میں بھیجتے ہیں وہ اربوں ڈالر کہاں جاتے ہیں؟

کشمیریوں کو ان کے قدرتی وسائل پر حق ملکیت حاصل نہیں۔ اور نہ ہی رائلٹی دی جاتی ہے۔ ایسے میں ہمیں خود احتسابی کے عمل سے بھی گزرنا چاہیے۔ اپنی بہادری اور دلیری کے کھوکھلے دعوے اور جھوٹے نعرے لگانے کے بجائے اپنے حقوق کے حصول کے لئے تمام تر مصلحتوں اور خوف سے بالاتر ہو کر جدوجہد کرنی چاہیے۔ ہمارے لوگوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مایوسی اور بیگانگی کی تعلیم دی جاتی ہے اور لوگوں کو اس طرف مائل کیا جاتا ہے کہ وہ جن مصائب و مشکلات کا شکار ہیں وہ تو قدرت کی طرف سے ان کی قسمت میں لکھے جا چکے ہیں۔

مایوسی اور بیگانگی کی تعلیم پھیلانے والے مذہبی پیشوا اور نمائشی حکمران خود تو محلات نما گھروں میں رہتے ہیں۔ پرتعیش زندگی بسر کرتے ہیں۔ لگژری گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ دنیا جہاں کی ہر طرح کی عیش و عشرت ان کو میسر ہے۔ اپنے بچوں کو جدید سائنسی اور اعلیٰ تعلیم دیتے ہیں۔ لیکن عام لوگوں کو سادگی۔ قناعت اور صبر کا درس دیتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے۔ کہ لوگ سنجیدگی سے اپنے حقوق کے حصول کے لئے آواز بلند کریں۔ ان کھنڈرات نما سڑکوں پر آئے روز حادثات کا شکار ہونا علاج معالجے کی سہولیات اور دیگر بنیادی سہولتوں کا فقدان ہماری قسمت ہرگز نہیں۔ بلکہ اس کرپٹ اور نا اہل سسٹم کی دین ہے۔ جو ہم ہر مسلط کیا گیا ہے۔ جس سے چھٹکارا پانے کے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کو غلامی کے طوق سے نجات دلانے کے ہمیں جرت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments