مجاہد کی اذان (حصہ اول)۔


ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار

فارسی کہاوت ہے کہ ایک بکری پانی کی تلاش میں نکلی، دور اسے پانی نظر آیا، اس نے ادھر چھلانگ لگائی، دلدلی زمین تھی اس میں پھنس گئی، اصل معاملہ یہ ہے کہ خواہش کی طلب پانی اور سراب میں امتیاز ختم کر دیتی ہے اس لئے خواہشوں کا بندہ بے دام بننے سے بہتر ہے اپنے رب کی رحمت پر یقین کرتے ہوئے اپنے زور بازو سے حالات کی بہتری کی کوشش کی جائے، تو میں ذکر کر رہا تھا کہ بکری دلدل میں جب پھنس گئی تو اس نے اس کے چنگل سے نکلنے کی بہتیری کوشش کی مگر کامیابی ندارد۔

جو لوگ زمین کے مزاج آشناء ہیں وہ کماحقہ واقف ہیں کہ دلدلی زمین کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ جتنا نکلنے کی جدوجہد کی جائے اتنا اندر دھنساتی ہے، اب بعین ہی یہ معاملہ اس بکری کے ساتھ بھی پیش آیا، اسی اثناء میں ایک بھوکا بھیڑیا جو حصول رزق کے لئے سرگرداں تھا موقع پر پہنچ گیا، بکری کو پھنسا دیکھ کر بھاگا آیا رال ٹپکاتے کہ شکار اور پانی دونوں دسترس میں ہیں تو کیوں نہ پیٹ کے جہنم کی آگ کو سرد کیا جائے۔ بکری پر حملہ کرنے کے لئے جیسے ہی آگے بڑھا تو دلدل میں پھنس کر رہ گیا، حرص اور ہوس ہو یا لالچ ایسا چنگل ہے جو اس میں پھنس گیا وہ تب ہی نکلے گا جب کرم رحیمی ہو ورنہ تباہی اور بربادی اس کا نصیب بن جاتی ہے، غرض کہ بکری نے جب بھیڑیا پھنسے ہوئے دیکھا تو ہنسی نکل گئی اس کی، بسا اوقات جب کوئی ایسی صورتحال ہوتی ہے تو مسکرانے پر مجبور کر دیتی ہے اگرچہ خود مصیبت ہمرکاب ہو۔

بکری بولی آج تو جناب بھی شامت اعمال کا نتیجہ بھگت رہے ہیں، بھیڑیے نے بولا کھلکھلاتی کیوں ہے کیا تو مصیبت میں نہیں ہے، بکری نے جواب دیا ہوں مگر میری مصیبت عارضی اور وقتی ہے اور تیری دائمی، بھیڑیے نے استفسار کیا کیسے، بکری بولی ایسے کہ میرا مالک جب اپنے ریوڑ کی گنتی کرے گا تو اس کو میرے غیاب کا پتا چل جائے گا۔ وہ سوچے گا میری تو 30 بکریاں تھیں یہ 29 کیسے رہ گئیں تو وہ دامے درمے میری تلاش میں نکلے گا۔

مجھ کو ڈھونڈ کر بچا لے گا۔ اور ساتھ لے جائے گا، اب تو بتا کہ تو آوارہ خون آشام درندہ ہے، تیرا کون پیچھا کرے گا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے اپنے اپ کو مالک کے کھونٹے سے باندھ لے، وہ تم کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔ اب آتا ہوں اپنے اصل موضوع کی طرف وہ یہ کہ جب کوئی خالص بندہ بن کر اپنے آپ کو رب کریم کی رضاء کے تابع فرمان کر لیتا ہے، اپنے اپ کو اطاعت الہی کے کھونٹے سے باندھ لیتا ہے، خالق حقیقی کی منشاء کے سانچے میں اپنے اپ کو ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے اور کرتا

چلا جاتا ہے تو ایک وقت ہوتا ہے کہ وہ مقبول بارگاہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی رضائے الہی کے حصول کے لئے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کرنے سے نہیں ہچکچاتا، اور جذبہ جہاد اور ایمان اس کا اوڑھنا اور بچھونا بن جاتا ہے تو ایسے مجاہد خالق کائنات کو اتنے پسند ہیں اور ان کا اجر و ثواب اتنا زیادہ ہے کہ جس کا آپ اور میں صرف موہوم سا اندازہ ہی لگا سکتے ہیں، باقی سب صرف خدائے علیم و خبیر کی ذات بہتر علم رکھتی ہے۔ ہاں مگر بقول شاعر:

الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی ازاں اور مجاہد کی ازاں اور

اب اس تمہید طولانی کے بعد اپنے اصل مدعا کی طرف آتا ہوں جو کہ ایک مرد جری اور بطل حریت کے بارے میں ہے، جی میرا آج کا موضوع سخن سلطان جلال الدین خوارزم ہیں۔ سلطان جلال الدین خوارزم موجودہ ازبکستان کے ایک قدیم شہر خیوا میں پیدا ہوئے۔ خیوا ایک علم پرور شہر مانا جاتا تھا جس میں مختلف علوم و فنون کی درسگاہیں موجود تھیں۔ البیرونی جیسا عالم بے بدل بھی اسی خیوا شہر کا باسی تھا، جبکہ بو علی سینا کو خیوا کے ساتھ خصوصی انس اور نسبت تھی۔

مگر خیوا کے لئے یہ بات بھی باعث فخر تھی کہ سلطان جلال الدین خوارزم جیسا مجاہد ملت بھی نہ صرف خیوا کا رہائشی بلکہ سلطان بھی تھا، خیوا اور اس کے نواحی علاقوں پر حکومت کرنے والے سلاطین کو خوارزم شاہ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ اب قارئین کی دلچسپی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سب سے پہلے میں خوارزمی سلطنت کے بارے میں بتاتا چلوں۔ سلطان جلال الدین کے والد سلطان علاوالدین شاہ خوارزم کے دور میں خوارزم شاہی سلطنت میں خوشحالی کا دور دورہ تھا۔

مشہور جغرافیہ نویس یاقوت حموی نے خوارزم کا دورہ کرنے کے بعد لکھا ( میں نے خوارزم سے زیادہ عظیم، خوشنما اور دولت مند شہر کہیں نہیں دیکھا) ۔ نئے مفتوحہ ممالک کی حاصل کردہ دولت، فصلوں کی پیداوار اور باغوں کے خوشنما خوشوں کی بہتات اور طرح طرح کے مال و اسباب اور خزائن کا منہ اس سلطنت کی دہلیز پر ڈھیر تھا۔ اسی مالی آسودگی اور طمانیت کے باعث دنیا بھر کے تاجر اور ہنر مند حصول روزگار کی خاطر سلطنت خوارزم کی طرح رجوع کرتے تھے، جب معاوضہ خطیر ملتا تھا تو کمال ہنر مندی سامنے آتی تھی۔

ایسے ایسے در نایاب معرض وجود میں آئے جن کی نظیر یا مثال ملنی مشکل ہو۔ ایسا ایسا باریک بینی اور جدت طرازی کا کام ہوتا تھا جو نایاب اور نادر روزگار تھا۔ اگر عسکری مہارتوں کی بات کی جائے تو کمال فن تھا یہاں پر اسلحہ ساز ایسی لچکدار تلواریں بنا لیتے تھے جو موڑ کر دہری کی جا سکتی تھیں۔ اگر زرہ کی بات کی جائے تو ایسی زنجیر دار زریں بنائی جاتی تھیں جو وزن میں ہلکی ہوتیں اور جن کو پہن کر نقل و حمل میں کوئی رکا وٹ نہیں پیش آتی تھی۔

ایسے مضبوط اور دیرپا فولادی خود بنائے جاتے تھے جو وزن میں ہلکے ہونے کے باوجود تلوار اور نیزے کی کاری ضربات سے بچا لیتے تھے۔ ڈھالوں پر بیل بوٹے اور نقش و نگار سے مزین ہوتی تھیں مگر یہ نقش و نگاری پیتل یا تانبے کی بجائے سونے یا چاندی کے پتروں سے کی جاتی تھی۔ خوارزمی اہل فن تیر و تفنگ بنانے میں حد درجے ماہر تھے۔ تمام خوارزمی شہروں کے گردا گرد فصیلیں تعمیر کی گئی تھیں، بلکہ جو بڑے شہر تھے ان کے چہار اطراف تو دو دو فصیلوں کی حد بندی کی گئی تھی تاکہ دشمن کی تاراجی کو روکا جا سکے۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments