حمزہ یوسف صاحب! کپتان نے طاقتوروں کی کردار کشی کرکے ان سے بدلہ لے لیا ہے



ہمارے محبوب کپتان نے اللہ جانے کیسے اور کہاں سے انکل سام کے دیس سے ایک اسکالر حمزہ یوسف کو ڈھونڈ لیا اور پھر اسے خود کا انٹرویو بھی ایسے انداز میں کرنے پر لے آیا کہ اسکالر صاحب نے پورے انٹرویو میں ”پولے پولے بال“ پھینکے اور کپتان نے ہر بال پر چھکا لگایا اور سمجھ لیا کہ وہ اب اپنے 22 کروڑ عوام کو نا سہی لیکن اوورسیز کی نظروں میں تو ضرور معتبر ہو جائے گا اور اگلی ای وی ایمی کر دکھائے گی بار آر ٹی ایسی اور کپتان پھر 5 سالہ اقتدار پاکر مخالفین، مافیاز اور عوام کے سینوں پر مونگ کیا چنے بھی دلے گا، ویسے خاکسار حیران ہے کہ حمزہ یوسف کو سوالنامہ کس نے تیار کر کے دیا تھا؟

مجال ہے کہ ایک بھی سخت سوال پوچھا ہو اسکالر صاحب نے، بس کپتان کی فتوحات کا ذکر تھا، اس کی مدح سرائی تھی اور اسے مزید ہیرو بنانے کی بھرپور کاوشیں تھیں اور رہی سہی کسر خود کپتان پوری کیے جا رہا تھا۔ حمزہ یوسف بھی کپتان کی طرح خود پسند، پھڑ باز، شوخا اور موقع شناس سا لگ رہا تھا۔ اس نے انٹرویو کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے کالج کا متعدد بار ذکر کر کے اس کی پروجیکشن کا موقع۔ ہاتھ سے نہ جانے دیا، بہرحال اس کی شخصیت پر پھر کبھی بات کریں گے فی الحال حمزہ یوسف سے کی گئی کپتان کی اس شکوے کا جائزہ لیتے ہیں کہ

”میرے طاقتور مخالفین نے 20 سال میری کردار کشی کی“

حمزہ یوسف نے انٹرویو کے دوران کپتان کی یہ بات بڑے آرام سے ہضم کر کے اگلا سوال کر ڈالا، وہ ایک اسلامی اسکالر ہیں اور پاکستانی کے زمینی حقائق و معاملات سے یکسر نا آشنا ہیں ورنہ وہ یہ ضرور پوچھتے کہ

جناب وزیراعظم! آپ نے میر شکیل الرحمن کے اخبار جنگ اور ٹی وی چینل جیو پر بھارتی فنڈنگ سے چلنے کے الزامات لگائے تھے، میر شکیل عدالت چلے گئے لیکن آپ وہاں کسی بھی قسم کا ثبوت فراہم نہ کرسکے تو آپ نے کیا میر شکیل کی کردار کشی نہ کی تھی؟

حمزہ یوسف پوچھ سکتے تھے کہ

جناب وزیراعظم! آپ نے نجم سیٹھی پر 35 پنکچرز کے الزامات لگائے اور جب نجم سیٹھی نے عدالت کا رخ کیا تو آپ ثبوت مانگنے پر آپ نے بھری عدالت میں کہا کہ
” 35 پنکچرز والا میرا سیاسی بیان تھا“

حمزہ یوسف پوچھ سکتے تھے کہ

جناب وزیراعظم! آپ نے شہباز شریف پر دھرنا ختم کرنے کے لیے رشوت کی پیش کش کا الزام لگایا اور ثبوت مانگنے پر عدالت میں لکھ کر دے دیا کہ
”یہ سیاسی معاملہ ہے، اس لیے اس کیس کو ختم کیا جائے“

حمزہ یوسف پوچھ سکتے تھے کہ

جناب وزیراعظم! آپ کے دور میں اپوزیشن کے ایک اہم رہنما رانا ثنا اللہ پر ڈرگ کیس ڈالا گیا اور آپ کے منسٹر شہریار آفریدی ساری دنیا کے کیمروں کے سامنے اللہ کو جان دینے کی بات کر کے رانا ثنا اللہ کے خلاف ثبوت ہونے کا دعوی کرتے دیکھے گئے لیکن ایک سال کے قریب رانا ثنا اللہ کو جیل میں رکھنے کے باوجود اس کے خلاف کوئی آڈیو یا وڈیو ثبوت نہ دیا جا سکا تو کیوں؟

حمزہ یوسف پوچھ سکتے تھے کہ
”جناب وزیراعظم! آپ نے“ وسیع تر دھاندلی ”کا الزام لگایا لیکن عدالت میں ثبوت مانگنے پر کہا
”ثبوت دینا میرا کام نہیں، بطور اپوزیشن لیڈر میرا کام الزام لگانا ہے“
اور اس پھر بھری عدالت میں قہقہے بھی لگے تھے۔
کیا بس الزام لگانا ہی آپ کا کام ہے؟

حمزہ یوسف پوچھ سکتے تھے کہ
جناب وزیراعظم! آپ نے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری پر الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگایا تھا، ثبوت کیا تھا؟

حمزہ یوسف پوچھ سکتے تھے کہ
جناب وزیراعظم! آپ کی سگی بہن نے لاہور میں ایک بار ایک قافلے کی گاڑیوں کو اپنی کار کو تیزرفتاری سے کاٹنے پر گورنر ہاؤس میں گھسنے پر مریم نواز کے خلاف دھڑ سے بیان داغ دیا تھا کہ
”قافلہ مریم نواز کا تھا“

اور عین اس وقت کپتان کراچی میں تھا اور اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراً ہی مریم نواز شریف کے خلاف بیان داغ دیا اور اس وقت کپتان کی زبان مریم نواز کو طنزاً ”شہزادی صاحبہ“ کہتے ہوئے شعلے اگل رہی تھی۔

اور تھوڑی ہی دیر بعد ٹی وی کیمروں کے سامنے مریم نواز اسلام آباد کھڑی اپنے لاہور نہ ہونے کا ثبوت دے رہی تھی اور تب کپتان کی بہن نے کردار کا مظاہرہ کیا اور مریم نواز شریف کو خط لکھ کر اپنے غلط الزام پر معذرت مانگی لیکن کپتان نے آج تک اس الزام تراشی پر مریم نواز شریف سے معافی نہ مانگی ہے۔

حمزہ یوسف یہ سارے سوال پوچھ سکتے تھے لیکن انہوں نے ان میں سے ایک بھی سوال نہ پوچھا بلکہ سارے وہ سوال پوچھے جس سے کپتان کی ”امیج بلڈنگ“ ہو سکتی تھی، جس سے یہ تاثر مل رہا کہ یہ انٹرویو باقاعدہ ایک پلاننگ کے تحت کیا گیا تھا؟ لیکن کیا اس سے کپتان کا پاکستانی عوام کی نظروں میں مقام بلند ہوا ہو گا؟ جی نہیں یہ انٹرویو صرف اوورسیز کے لیے تھا جن میں ایسے لوگ شامل ہیں جو سمجھتے ہیں کہ کپتان کے آنے کے بعد عوام برانڈڈ کپڑے پہن رہے ہیں، جن کے نزدیک 22 کروڑ عوام ہائی فائی زندگی کے مزے انجوائے کر رہے ہیں، جو پوچھتے پھرتے ہیں کہ

”پاکستان میں مہنگائی کہاں ہے“ ؟

حمزہ یوسف کو علم ہونا چاہیے کہ اگر 20 سال کپتان کی کردارکشی ہوتی رہی تھی تو اپنے اقتدار کے 3 سالوں میں کپتان نے سود سمیت حساب چکتا دیا ہے اور کپتان نے کسی کی عزت نہ رہنے دی ہے سب سے بدلہ لیا ہے اور جی بھر کے لیا ہے اور ابھی مزید 2 سال باقی ہیں اور کپتان ڈٹا کھڑا ہے اور اس کے سیاسی مخالفین اپنی عزتیں بچاتے پھر رہے ہیں۔

آخر میں حمزہ یوسف صاحب سے بھی کہنا بنتا ہے کہ اگر وہ واقعی کوئی اسلامی اسکالر ہیں تو کسی شخص خاص کر کسی طاقتور کے ہاتھوں جانے انجانے میں استعمال ہو کر اس کی غلط امیج بلڈنگ بنانے سے پہلے اس کے اپنے کردار اور قول و فعل کا بھی جائزہ لے لیا کریں۔
وما علینا الا البلاغ المبین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments