یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور: ڈگری کا حصول اور ڈگری سیل کی انتظامی کوتاہیاں



یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور (UHS، LAHORE) ، صوبہ پنجاب کی سب سے بڑی میڈیکل یونیورسٹی ہے۔ صوبہ بھر کے 90 فیصد سے زائد پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میڈیکل کالجز اسی یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔ اتنی بڑی یونیورسٹی ہونے کے ناتے، یونیورسٹی کی انتظامیہ پر سخت ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، جس میں کافی کوتاہیاں نظر آتی ہیں۔

مثال کے طور پر، یونیورسٹی سے ڈگری لینا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ لاہور جا کر اپلائی کرنا پڑتا تھا۔ آپ کی درخواست کی کب شنوائی ہو گی، کسی کو کوئی علم نہیں ہوتا تھا، ڈگری تیار ہو گئی ہو تو یونیورسٹی بتاتی بھی نہیں تھی، ڈگری ویریفائی کروانے کے لیے یونیورسٹی کے بار بار چکر لگانے پڑتے تھے۔

یونیورسٹی نے جون 2021 کے وسط میں اعلان کیا کہ یکم اگست 2021 سے ڈگری کے لیے آپ کو یونیورسٹی نہیں آنا پڑے گا، بلکہ ”uhs ڈگری سیل“ نے ”on۔ line degree issuance“ پورٹل بنایا ہے، جس پر آپ گھر میں بیٹھے ہی آنلائن اپلائی کریں گے، مینوئل طریقہ ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ خبر سن کر ہمت بندھی کہ آخرکار یونیورسٹی کچھ بہتر کرنے جا رہی ہے، لیکن بلی کو چھیچھڑوں کے خواب والا محاورہ یونیورسٹی نے صحیح ثابت کر دیا۔

اب جب آپ ڈگری کے کیے آنلائن اپلائی کریں گے، لیکن فیس کو ڈیبٹ کارڈ سے نہیں جمع کروا سکتے، بلکہ آپ کو نیشنل بنک کی کسی بھی برانچ میں فیس جمع کروانی ہو گی۔ اب یہ کہاں کا آن لائن سسٹم ہے کہ درخواست آن لائن، لیکن فیس آف لائن بنک میں جمع کروانی ہو گی۔ کہانی یہی پر ختم نہیں ہوتی!

آن لائن درخواست کے اختتام پر، جو بینک چالان نکلتا ہے، وہ اتنا پیچیدہ ہے کہ، NBP کے 90 % سے زائد برانچز کو اس چالان کا پتا ہی نہیں، تو انہوں نے اس چالان پر فیس جمع کرنے سے منع کر دیا۔ بجائے کہ یونیورسٹی اس چالان کے مسئلے کا حل نکالتی، یونیورسٹی کے ڈگری سیل نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ، آپ درخواست گھر بیٹھے دیں، لیکن ڈگری کی فیس 5000 روپے آپ کو NBP، شیخ زید ہسپتال لاہور برانچ میں ہی جمع کروانی ہو گی۔

یعنی کہ ایک طالب علم جو رحیم یار خان، صادق آباد، آزاد کشمیر سے ہے، وہ درخواست تو اپنے گھر سے دے گا، لیکن فیس جمع کروانے کے لیے اسے لاہور آنا ہی پڑے گا۔ اب اگر فیس لاہور میں ہی جمع کروانی ہے تو آپ نے آنلائن سسٹم کیوں شروع کیا ہے؟ کیا اس سے زیادہ کوئی مضحکہ خیز بات ہو سکتی ہے؟ یعنی ایک بندا پہلے 5000 / 6000 کرایہ لگا کر لاہور آئے، 5000 روپے فیس جمع کروائے اور پھر واپس جائے، یہ کیسا مذاق ہے؟

کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، اگر آپ کی قسمت اچھی ہے کہ، آپ نے آن لائن اپلائی کر دیا، آپ کی ڈگری تیار ہو گئی، تو یونیورسٹی آپ کو وہ ڈگری ڈاک کے ذریعے نہیں بھیجے گی، بلکہ آپ کو ڈگری لینے لے دوبارہ لاہور آنا پڑے گا۔ یعنی پہلے فیس جمع کروانے لاہور آؤ، پھر ڈگری لینے کے لیے دوبارہ لاہور آؤ۔ کوئی ان افلاطونوں کو سمجھائے کہ بھائی اگر 5000 لے رہے ہو تو، 500 مزید لیکر، اسے کسی رجسٹرڈ کورئیر کمپنی سے گھر بھجوا دو، لیکن نہیں! آپ کو لاہور آنا ہی آنا ہے۔

یہ بھی ہو گیا، آپ کو لاہور کے دو چکر لگانے کے بعد ڈگری مل گئی۔ جب ایک بندا ڈگری موصول کرنے کے لیے یونیورسٹی آئے گا، اگر وہ کہے کہ ابھی ڈگری ویریفائی بھی کر دیں، تو آگے سے جواب نفی میں آئے گا۔ اس کے لیے آپ کو پھر آن لائن اپلائی کرنا ہو گا۔ اس کی فیس کا جو چالان ہو گا کیا وہ بھی صرف لاہور میں ہی جمع ہو گا؟ (اس کا مجھے ابھی علم نہیں، کیونکہ میں نے ابھی ڈگری ویریفائی کے مشکل مرحلے سے گزرنا ہے ) ۔ لیکن ایک دو دوست اس مرحلے سے گزرے ہیں اور انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگائے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ دشمنوں کا بھی اس یونیورسٹی کے ڈگری سیل سے واسطہ نا پڑے۔

یہ تھا، صوبہ پنجاب کی سب سے بڑی میڈیکل یونیورسٹی سے ڈگری لینے کا آسان سا طریقہ کار۔ یاد رہے، یونیورسٹی ہر طالب علم سے داخلے کے ٹائم پر رجسٹریشن فیس لیتی ہے، امتحانات کی فیس علیحدہ، ہر سال مختلف چارجز کے نام پر یونیورسٹی آپ سے پیسے لیتی ہے، لیکن دکھ تب ہوتا ہے، اتنی بھاری فیسیں حاصل کرنے کے باوجود یونیورسٹی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتی۔ چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے آپ کو ذلیل کیا جاتا ہے، آپ کے کام بلاوجہ لٹکائے جاتے ہیں، لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔

یونیورسٹی سے ایک ڈگری کے حصول کے لیے، ایک طالب علم کو جن مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے، وہ آپ کے سامنے ہے، اب آپ خود اندازہ کر لیں کہ ایک اسٹیٹ آف دی آرٹ یونیورسٹی کا یہ حال ہے، باقی یونیورسٹیوں کا پھر اللہ ہی حافظ ہے۔

میری چانسلر، وائس چانسلر آف Uhs لاہور سے درخواست ہے کہ خدارا یونیورسٹی کے انتظامی امور پر توجہ دیں، یہ چھوٹی چھوٹی غیر ذمہ داریاں، بہت سے لوگوں کے لیے اذیت کا باعث ہیں۔

کم از کم، سب سے پہلے، ڈگری فیس کی ادائیگی کو ڈبیٹ کارڈ سے ممکن بنایا جائے اور ڈگری کو ڈاک کے ذریعے متعلقہ افراد کے گھر یا ادارے میں بھیجا جائے تاکہ وسائل اور وقت دونوں نا ضائع ہوں، شاید کہ ”کسی“ کے دل میں اتر جائے میری بات!

(نوٹ! ڈگری کے سلسلے میں، جب راقم NBP گیا، چالان دیکھ کر کیشیر بولا، میں نے یہ چالان دیکھا ہی پہلی مرتبہ ہے۔ خیر وہاں سے منیجر آف آپریشنز کے پاس گیا۔ اس نے کوئی 5۔ 10 منٹ لگا کر، اس پیچیدہ چالان کو جمع کر لیا اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ لاہور کا ایک چکر تو بچ گیا۔ میرے کولیگز اس معاملے میں اتنا خوش قسمت ثابت نہیں ہوئے۔ چالان کے معاملے میں انہوں نے ڈگری سیل کی ہیلپ لائن پر فون کیا۔ آگے سے جواب ملا کہ بنک جا کر، متعلقہ حکام سے ہماری بات کروائیں۔ کچھ کا مسئلہ حل ہوا، کچھ کا نہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments