صلاحیت اور صالحیت کا فرق


کسی بڑے سے بڑے آدمی سے کہیے کہ اس کا جوتا ٹوٹ گیا، چار ٹانکے لگا دیں، وہ فوراً کہہ دے گا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں، جوتا موچی کے پاس لے جائیے۔ کسی قابل سے قابل آدمی سے کہیے کہ پیٹ میں درد ہو رہا ہے، وہ کہے گا کہ مجھ سے کیا پوچھتے ہو، ڈاکٹر سے مشورہ کرو۔ کسی لائق سے لائق انسان سے پوچھئے کہ تقسیم جائیداد کا جھگڑا ہے میں کیا کروں، وہ کہہ دے گا کہ کسی قانون دان کے پاس جاؤ، غرض کہ دنیا میں کوئی کام ایسا نہیں جس کے متعلق کوئی یہ نہ کہہ دے کہ میں اس کا اہل نہیں، لیکن اقتدار کی کرسی کسی بھی فرد کو پیش کر دیجیے، کوئی یہ نہیں کہتا کہ میں اس کا اہل نہیں، اس کے لئے کسی ایسے شخص کی تلاش کیجیے جو اس کی قابلیت رکھتا ہو، یعنی دنیا میں جوتا گانٹھنے تک کے لئے کسی قابلیت کی ضرورت ہے، لیکن حکومت کے لئے کسی اہلیت کی ضرورت ہے نہ قابلیت کی، نہ استعداد شرط ہے نہ موزونیت۔

یہ وہ کرسی ہے جس پر بیٹھنے کے لئے ہر کوئی تیار ہے اور تیار ہی نہیں بلکہ کرسی پر بیٹھنے کے بعد سمجھتا ہے کہ اس سے زیادہ اس کے لئے کوئی اور موزوں ہی نہیں۔ حالاں کہ دنیا میں سب سے زیادہ مشکل کام حکومت ہے، کسی انسان کا، دوسرے انسانوں کے معاملات میں حکم ہونا اور ان کے اختیار و ارادہ پر پابندیاں عائد کرنا۔

حکومت کا محسوس ہونا کیا معنی رکھتا ہے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

رات کا سناٹا، دن بھر کا تھکا ماندہ گھوڑا قدم قدم چل رہا تھا، گاڑی بان بھی اونگھ رہا تھا، فضا کے سکوت کو توڑتے ہوئے یوں ہی گاڑی بان سے پوچھا، کہو میاں! اب تو تمہاری حالت بہتر ہو گئی ہوگی۔ گاڑی بان چونکا اور عجیب بے رخی سے بولا، بابو صاحب، محض تم لوگوں کے یہاں آ جانے سے ہماری حالت میں کیا فرق پڑے گا، پہلے بھی مزدوری کرتے تھے جو اب ہے، سنا تھا کہ عنقریب اپنی حکومت آ جائے گی اور ہماری حالت میں فرق آ جائے گا، لیکن معلوم نہیں وہ حکومت کب تک آئے گی، بس سنتے ہی آرہے ہیں، جب اسے بتایا کہ حکومت تو آ چکی، تمہیں خبر ہی نہیں۔ اس نے حیرت سے مڑ کر دیکھا اور کہا، بابو جی کیا کہا، ہماری حکومت آ چکی ہے؟ یہاں تو وہی لائسنس کلرک ہے، وہی جھڑکیاں اور وہی اس کے تقاضے، وہی پولیس ہے اور ان کی بیگار اور گالیاں، وہی تیل کی مصیبت، دہی دانے اور گھاس کی دقت، ہماری اپنی حکومت ہوتی تو یہ حالت کیسے رہتی؟

اس کا جواب کسی کے پاس نہیں اور اس کا جواب دے بھی کون سکتا تھا۔ اسے وہ کہ جن کی زبانوں پر ہزار مرتبہ جمہوریت آنے کے باوجود ان کا دل ایک بار بھی گواہی نہیں دے سکا، اسے دل کے کانوں سے سن رکھیں کہ یہ لفظ کبھی شرمندہ معنی نہ ہو گا جب تک ایک مزدور تک بھی یہ محسوس نہ کرنے لگے کہ اس کی حالت میں فی الواقع فرق پیدا ہو گیا ہے۔ اور یاد رکھیے، یہ تبدیلی احوال نہ اس وثیقہ سے ہوگی جو ارباب اختیار کے کہنے سے مل جاتا ہے اور نہ ان قوانین و ضوابط سے جو مشین کی طرح نافذ کرنا چاہتے ہیں، بلکہ یہ تبدیلی اس وقت تک پیدا نہ ہوگی جب تک ہمارے اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ ہو جائے۔

اس امر کو سمجھنے کے لئے اس طرح سمجھنا ہو گا کہ:

ارے! یہ تم کیا کر رہے ہو، کشتی میں چھید کیوں کرتے ہو، کشتی میں چھید کیوں کرتا ہے؟ پچاس دفعہ ملاح سے کہا کہ تم نے بادبان غلط باندھا ہے، کشتی، سمت ساحل نہیں جا رہی، اس کا رخ سیدھا کرو، لیکن یہ سنتا ہی نہیں، اب جو کشتی بیکار ہوگی تو پتا چلے گا۔ ارے پاگل! کشتی میں چھید کرو گے تو کشتی کے ساتھ خود بھی ڈوبو گے، اب سمجھنا یہ ہے کہ بار بار سمجھانے اور تنبیہ کے باوجود ملاح نہیں مانتا تو اگر تم میں سے کوئی نا خدائی جانتا ہے تو ملاح کے ہاتھ سے چپو چھین لو اور کشتی کا رخ سیدھا کردو، لیکن کشتی کو سلامت رکھو کہ اس کی سلامتی میں خود تمہاری سلامتی ہے۔

پاکستان کے اراکین ایوان بالا و زیریں اور عنان حکومت کی فکر کرنے والوں کو ہر وقت یاد رکھنا چاہیے کہ وہ کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھیں جو خود مملکت کی کمزوری کا باعث بن جائے کہ اس کشتی کے (خدا نہ کردہ) ڈوبنے سے ہم سب غرق قعر مذلت ہوجائیں گے۔ عوام کی مشکلات عملی ہیں، ان کا حل بھی عملی طور پر ہی ہو سکے گا، بھوک کا علاج روٹی کے سوا کچھ نہیں، عوام آپ کی ان مذہب کے نام پر اپیلوں سے زیادہ متاثر نہیں ہو رہے اور یہ عین فطری چیز ہے، وہ اپنے مصائب کا حل چاہتے ہیں، اگر آپ اس کا حل اب بھی پیش نہ کرسکے تو جو شخص بھی انہیں ان کا حل بتائے گا وہ اس کی طرف چلے جائیں گے۔

یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل، اگر کوئی عمل دفتر میں ہے

اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ بعض کوتاہیاں ہوئیں اور اس کے بعد جن مصیبتوں کا شکار ہوئے ان کی زیادہ وجہ خود اپنی خامیاں اور مال اندیشیاں تھیں، اس اعتراف حقیقت سے فائدہ یہ ہو گا کہ ہم آئندہ کے لئے محتاط ہوجائیں اور اپنی کمزوریوں اور خام کاریوں کو رفع کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن ہمارے ارباب حل و عقد غالباً اس ڈر سے کہ اس اعتراف سے کہیں وہ قصوروار نہ ٹھہرا دیے جائیں، قوم کو جھوٹا اطمینان دلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، جو کسی کے حق میں بہتر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments