پروفیسر ڈاکٹر پریا تابیتا: عصر حاضر کی تابندہ شخصیت


Dr Shahid M shahid

علم و ادب سے وابستہ اثر آفریں شخصیت پروفیسر ڈاکٹر پریا تابیتا کا لکھا ہوا مقالہ ”یونس ادیب حیات و فن“ گوشہ ادب میں اسلوب نگارش سے مزین ہے۔ اسی مناسبت سے ان کی فن و شخصیت کا از سر نو جائزہ اس حقیقت کے پس منظر میں کہ مقالہ نگاری میں اسلوب نگارش کا کیا کردار ہے۔ میرے لیے یہ بڑے استحقاق کی بات ہے کہ مجھے پروفیسر ڈاکٹر پریا تابیتا کی کتاب مقالہ بنام ”یونس ادیب حیات و فن“ کی ورق گردانی کا موقع ملا، تخلیق کار کے لئے یہ بات ثانی درجہ رکھتی ہے کہ اسے تخلیق کا فن خدا کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے، کیونکہ عرش بریں سے برسا من رگ و ریشہ میں قوت مدافعت پیدا کر کے تخلیق کار کی ہمت اور قوت بڑھا دیتا ہے۔

یہ ایک وصفی عمل ہے اور ان لوگوں کو بطور انعام ملتا ہے جن سے قدرت کاملہ نے زمانے میں کچھ کام لینا ہوتا ہے، تاکہ سخن آرائی زمانے کی حدوں، رتوں، نظاروں اور بہاروں میں آکسیجن بن کر انسانوں کے نتھنوں میں دم پھونکے اور انسان معاشرتی پہچان اور کردار میں فطری جذبوں کا ترجمان نظر آئے۔ بے شک تخلیق اس سوچ اور جوہر کا نام ہے جو قاری کے حواس خمسہ پر اثر انداز ہو کر اسے سوچ کی غزا مہیا کرے اور قاری پر ادب کی ضرب کاری اس شدت سے اثر انداز ہو کہ اس کی شعوری حسیں خدا کی لا متناہی محبت سے جاگ جائیں تاکہ اثر پذیری سے اثر آفریں شخصیت کا تشخص اجاگر ہو اسی فطری تشخص اور ادب کے میدان میں پروفیسر ڈاکٹر پریا تابیتا کا خوبصورت نام ہے جس نے فن و شخصیت کے دائرے میں داخل ہو کر ان بلندیوں پر پرواز کی ہے جہاں انہیں ادب کے گوشے قوس قزح بن کر دکھائی دیتے اور حیرت ہے کہ جب ان کے جذبات اور احساسات تاثراتی خلوص سے مزین ہو کر قلم کے سپرد ہوتے ہیں تو وہ مزید تجسس بڑھا دیتے ہیں۔ اصناف ادب کی بے شمار اقسام ہیں جن کا چناؤ فطری صلاحیتوں کی مرہون منت ہوتا ہے جو ایک تخلیق کار کو فرش سے عرش پر بٹھا دیتا ہے۔

اگرچہ ادب کا میدان وسیع و عریض اور حدود اربع پیمائشی آلات سے مبرا ہے۔

عصر حاضر میں پروفیسر ڈاکٹر پریا تابیتا بھی نہ صرف بلند پایہ مقالہ نگار ہیں بلکہ وہ عظیم شاعرہ، نقاد، استاد اور محقق بھی ہیں ان کے تخلیقی فن پارے اس بات کا من و عن ثبوت ہیں کہ معلمہ عالمانہ اور محققانہ عروج سے زریں افکار کو سمیٹے ہوئے ہے۔ انہوں نے مقالہ نگاری میں ان تمام اصول و ضوابط کی پاسداری کی ہے جسے لکھنے کی فنی چابک دستی کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے مقالہ بنام یونس ادیب حیات و فن میں ان تمام باتوں کو ملحوظ خاطر رکھا ہے جس کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مقالہ میں ٹھوس حقائق، علمی مسائل، اور فلسفہ مسائل جاذبیت کے عناصر سے بھرپور ہے۔

اور کسی بھی زبان کو اس وقت تک ترقی نہیں ملتی جب تک اس میں وسعتی عناصر شامل نہ ہوں۔ ہمارے ہاں عموماً مقالہ نگاری اور مضمون نگاری کو گڈ مڈ کر دیا جاتا ہے

لیکن مقالہ نگار نے اس فرق کو فنی چابکدستی سے ثابت کر کے دکھایا ہے کہ مقالہ کس انداز میں لکھا جاتا ہے؟

بلکہ انہوں نے شرائط کی پابندی کر کے اکتسابی صورت میں لاتے ہوئے اعجاز و اختصار کی بجائے تفصیل و تحقیق کی خورد بین سے جانچ پڑتال کی ہے۔ میں بحیثیت کالم نگار ہوتے ہوئے محترمہ پروفیسر ڈاکٹر پریا تابیتا کی مقالہ نگاری کے حوالے سے ان کے اس ادبی گوشے کو جو تحریر و تحقیق میں نمایاں مقام رکھتا ہے جن کا اسلوب نگارش شروع سے آخر تک یکسانیت کے لبادے میں لپٹا نظر آتا ہے۔ اس پیش رفت سے ان کے فن اور شخصیت کو جو چار چاند لگ گئے ہیں اس میں ان کی ذاتی محنت دلچسپی اور ریاضت کا عمل دخل شامل ہے۔ ان کی مقالہ نگاری میں طرز تحریر میں روانی، شعوری کیفیتیں، ماحول اور عہد سازی کو شامل کر کے اسے جاذبیت کی تسبیح میں پرو دیا ہے۔

انہوں نے مقالہ نگاری میں خارجی اسباب کو بھی مد نظر رکھا اور اپنے باطنی احساسات، شخصیت اور حقیقت کو بھی کم نہیں ہونے دیا۔ یہ وہ امور ہیں یہاں ان کی لیاقت، تجربہ، مشاہدہ، ریسرچ، احساس، تخیل کی بلندی اور جذبے کی عکاسی ہوتی ہے۔ ان کے مقالہ میں اس بات کا جذبہ کشید ہوتا ہے کہ ان کی تحقیق محض ڈگری کے حصول کے لیے نہیں تھی بلکہ قلم قبیلہ کے شجرہ نسب کی لاج رکھنا بھی شامل تھی۔ کسی بات کو کہہ دینا کتنا آسان ہوتا ہے البتہ اسے عملی شکل دینے کے لئے کتنی محنت درکار ہوتی ہے اس بات کا اندازہ ایک غوطہ خور ہی کر سکتا ہے کے اسے سمندر سے قیمتی موتی تلاش کرنے کے لئے کتنے ہاتھ پاؤں مارنے پڑتے ہیں معلمہ طویل عرصے سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں اس لئے ان کی فطرت میں تخلیقی عناصر کی موجودگی پائی جاتی ہے۔

لہذا انہوں نے اپنے آباء و اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کتب لکھنے کی روایت بھی قائم کی۔ وہ چار کتب لکھ چکی ہیں ان کی پہلی کتاب ”اردو ناول کے منفی کردار“ آغاز تا قیام پاکستان تحقیق و تنقید دوسری کتاب ”ہمیشہ روٹھ جاتے ہو“ تیسری کتاب ”کلیات انجیلی“ اور چوتھی کتاب یونس ادیب حیات و فن ہے۔ زیر طبع کتب میں ”من و تو“ ”سچ کہو“ اور ”عالمی دن“ بہت جلد قارئین کے ہاتھوں میں ہوں گی۔ ان کی کتب میں تخلیقی، فطری، جذباتی، وجدانی اور نفسیاتی عوامل شامل ہیں جو قارئین کے تجسس میں اضافہ کرتے ہیں وہ ایک جمالیاتی شاعرہ بھی ہیں، یہاں زبان و ادب کی گرفت اور دلکش خواب، فطری عناصر، تہذیب و تمدن، اقدار و روایات، ثقیل الفاظ اور ادب کی نئی کونپلیں اس بات کا احساس فراہم کرتی ہیں کہ جو کوئی فطرت کے جتنا قریب ہو گا وہ اپنے افکار و نظریات کو اتنے ہی خوبصورت لب و لہجہ میں بیان کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments