پاکستان نے جرمنی کو کتنا قرض دیا؟


1945 میں جب انڈو پاک کے مسلمان اپنے جداگانہ تشخص اور بقا کی جنگ لڑ رہے تھے، دوسرے لفظوں میں پاکستان عدم سے وجود میں آنے کے لئے پر تول رہا تھا، اس وقت دنیا کے نقشے پر کئی تبدیلیاں وقوع پذیر ہونے جا رہی تھیں۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہو چکی تھی، امریکن اور برٹش مشترکہ بلاک اپنی مرضی کی کانٹ چھانٹ میں لگا ہواء تھا، ہٹلر نے خود کشی کر لی تھی، جرمنی اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہا تھا، جرمن فوج ختم ہو چکی تھی، جرمن قوم کو دیوار سے لگا دیا گیا تھا، ملک کو مشرقی اور مغربی جرمنی میں تقسیم کر دیا گیا تھا، درمیان میں دیوار برلن تعمیر کر دی گئی تھی، کوشش کی گئی کہ جس طرح قوم کے حصے بخرے کیے گئے اسی طرح دلوں کے درمیان بھی دیوار کھینچ دی جائے۔

جنگ سے لے کر ملک کی تقسیم کی کشاکش میں 75 لاکھ شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ جرمنی کے 114 چھوٹے بڑے شہروں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا گیا تھا، ملک کی تقریباً 20 % عمارتیں مکمل طور پر خاک کا ڈھیر ہو چکی تھیں، جبکہ کئی زیادہ جزوی طور پر تباہ و برباد ہو چکی تھیں، زراعت کی بدحالی بھی نمایاں تھی، 65 % زراعت کو نابود کر دیا گیا تھا، کارپٹ بمبنگ کی بدولت کھڑی فصلیں تباہ ہو کر رہ گئیں۔ بجلی بند تھی، سڑکیں تباہ و برباد ہو چکی تھیں، بندرگاہیں یا تو نا قابل استعمال تھیں یا بمباری سے پشتے ٹوٹ پھوٹ چکے تھے، انڈسٹری کو تباہ و برباد کر دیا گیا تھا، ملک کی کرنسی ختم ہو چکی تھی دوسرے لفظوں میں کرنسی کے بدلے ایک ڈبل روٹی بھی نہیں ملتی تھی، لوگ اپنے گھروں کی اشیاء کو بیچ ضروریات زندگی کا حصول ممکن بناتے تھے یعنی دوسرے لفظوں میں بارٹر سسٹم رائج تھا۔

حالات اس حد تک خراب اور بدحالی اس درجہ اتم کو پہنچ گئی تھی کہ 1945 ء سے لے کر 1955 ء تک جرمنی کے تقریباً ایک کروڑ اور چالیس لاکھ افراد تقریباً دس سال تک کیمپوں میں پناہ گزین رہے، ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا، ان کی روز مرہ ضروریات اور گزر بسر کا دار و مدار بیرونی امداد پر تھا، 1962 ء تک جرمنی امریکی امداد پر چلنے والا سب سے بڑا ملک تھا، جبکہ دیگر 14 ممالک بھی جرمنی کو امداد دیتے تھے، اور ایک بہت حیران کن امر یہ کہ ان امداد دینے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل تھی۔

پاکستان کے صدر مملکت ایوب خان کے دور میں جرمنی نے پاکستان سے جب مدد کی اپیل کی تو صدر پاکستان نے 20 سال کے لئے جرمنی کو 12 کروڑ روپیے قرض دیا تھا، جرمنی نے اس امداد کے بدلے حکومت پاکستان کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا، جس کا ثبوت یعنی شکر گزاری کا خط آج بھی پاکستان کی وزارت خارجہ کے آرکائیوز میں محفوظ ہے (اس بارے میں امتیاز احمد صاحب نے جرمن حکومت سے دستاویزات لے کر درست تصویر پیش کی ہے جس کے مطابق پاکستان نے ایسا کوئی قرضہ نہیں دیا تھا: مدیر)۔ 60 ء کی دہائی میں جرمنی کی یہ حالت تھی کہ جرمنی نے حکومت پاکستان سے درخواست کی کہ ہم کو تقریباً 10 ہزار ہنر مند دیے جایں تاکہ انفراسٹرکچر میں قدرے بہتری کا کچھ ہو سکے، مگر حکومت پاکستان نے اپنے کار آمد ہنر مندوں کو باہر بھیجنے سے انکار کر دیا، اور جواب یہ دیا گیا کہ ہنر مند افراد قوم کا فخر اور اثاثہ ہیں اس لئے دوسروں کو نہیں دیے جا سکتے۔

سوچیں ہاں ہاں یہ ہی پاکستان تھا اور پاکستان کی حکومت کا جواب ہی آپ کو بتایا گیا ہے۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں جرمن حکومت نے حکومت ترکی سے درخواست کی حکومت ترکی کو رحم آ گیا اس نے اپنے ہنر مند افراد جرمنی کو دیے۔ آج تقریباً 30 لاکھ سے زیادہ ترک شہری جرمنی میں باعزت روزگار کے لئے مقیم ہیں۔ میں نے آپ کو ایک پہلو یہ دکھایا یہ 50 سال قبل کے حالات تھے۔ اب ذرا موجودہ صورتحال کا بھی جائزہ لیا جائے۔ آج جرمنی دنیا کی چوتھی بڑی اور مضبوط معیشت ہے، جبکہ پاکستان دنیا میں معاشی لحاظ سے 41 نمبر پر ہے۔

جرمنی کا جی ڈی پی 3400 بلین ڈالر ہے، جبکہ پاکستان کا جی ڈی پی صرف 271 بلین ڈالر ہے۔ آپ کو پتا ہے کسی ملک کی برآمدات ملکی ترقی و خوشحالی میں کتنا اہم کردار ادا کرتی ہیں، جرمنی کی سالانہ برآمدات 2100 ارب ڈالر ہے، جبکہ ہماری برآمدات صرف 29 ارب ڈالر ہے، جرمنی کے زرمبادلہ کے ذخائر 203 بلین ڈالر ہیں، جبکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 21 بلین ڈالر یا اس سے زیادہ ہیں۔ جرمنی کی فی کس آمدنی 41178 ڈالر ہے، جبکہ ہماری کم و بیش فی کس آمدنی 1434 ڈالر ہے، آپ سوچیئے کہ 50 سال پہلے ہم نے جرمنی کو 12 کروڑ کا قرضہ دیا تھا، جبکہ آج جرمنی روزانہ کی بنیاد پر تقریباٰ 12 کروڑ کی پیپرز پن بناتا ہے، وہ خاک سے افلاک پر پہنچ گئے جبکہ ہم دعوے تو کرتے رہے مگر ترقی معکوس کی طرف زیادہ رجحان رہا، میں اس کی سب سے اہم وجہ جرمنی کے حکمرانوں کی سادگی کو قرار دوں گا، جرمنی میں بٹلرز اور سٹاف کی فوج ظفر موج نہیں ہوتی، جرمن چانسلر اپنے پیش رو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے لئے اور اپنے ملک میں آنے والے کسی ملک کے صدر یا وزیراعظم کو کافی خود بنا کر پیش کرتی ہے، پارلیمنٹ کو اپنی مرضی کی قانون سازی کے لئے ڈکٹیٹ نہیں کیا جاتا، قومیں رویے کی تبدیلی اور حکمرانوں کی سادگی سے معاشی طور پر طاقتور جرمنی بن جاتی ہیں اور حکمران اگر شاہ خرچیوں کو وتیرہ بنا لیں اور سرکاری خزانے کو امانت کی بجائے صوابدیدی اختیار سمجھ کر بے دریغ لٹانے لگ جائیں تو قائد کا پاکستان آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا مقروض ہو کر رہ جاتا ہے

پاکستان کے جرمنی کو قرضہ دینے کی کہانی تاریخ کی روشنی میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments