معذور بچوں کی ورزشیں اور کھیل


صحت کی اہمیت و افادیت ہر دور میں مسلمہ رہی ہے اور آج بھی صحت کی افادیت سے کوئی فرد انکار نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بہترین ترکیب سے بنایا اور اس کو مختلف قسم کی ان گنت صلاحیتیں ودیعت کیں۔ ان صلاحیتوں اور نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا صحیح اور بہتر استعمال بھی لازمی ہے۔ رب کائنات نے افراد میں انفرادی اختلافات اور تنوع پیدا کرنے کے لیے انہیں ایک دوسرے سے مختلف صلاحیتوں اور نعمتوں سے نوازا۔ کسی کو کوئی چیز کم اور کسی کو زیادہ عطا فرمائی۔

جہاں اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی نعمتیں عطا کرتا ہے وہاں اسے آزماتا بھی ہے۔ اگر ہم کائنات کے کسی گوشے پر غور سے نگاہ اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں اس بات کے بے شمار عملی ثبوت مل جائیں گے۔ ان آزمائشوں میں سے ایک آزمائش بچوں کی جسمانی، ذہنی اور جذباتی معذوری بھی ہے۔ ان معذور بچوں کو اصطلاح میں خصوصی بچے کہتے ہیں اور ایسے بچوں کی تعلیم و تربیت کو خصوصی تعلیم کہتے ہیں۔

خصوصی بچے تین طرح کے ہوتے ہیں۔

( 1 ایسے بچے جو پیدائشی طور پر یا پیدائش کے بعد کسی حادثے کے باعث جسمانی اعضاء کی کمزوری کا شکار ہو جائیں یا کسی عضو سے محروم ہو جائیں جسمانی طور پر معذور بچے کہلاتے ہیں۔

( 2 ایسے بچے جو پیدائشی طور پر یا پیدائش کے بعد ذہنی یا اعصابی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں ذہنی طور پر معذور بچے کہلاتے ہیں۔

( 3 ایسے بچے جو انتہائی درجے کے حساس ہوتے ہیں۔ جب استاد ان کے ساتھ تفاوت کا برتاؤ کرتا ہے یا وہ اپنے سے نالائق بچے کو زیادہ اہمیت ملتی دیکھتے ہیں تو وہ ذہنی طور پر جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ایسے بچوں کو جذباتی طور پر معذور بچے کہا جاتا ہے ۔

جسمانی طور پر معذور بچے کسی عضو کے نہ ہونے یا کمزور ہونے کی وجہ سے عام طور پر احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ جب نارمل بچوں کو ایسے کام کرتے دیکھتے ہیں جن کو وہ جسمانی کمزوری کی بنا پر کرنے سے قاصر ہوتے ہیں تو پریشان ہو جاتے ہیں۔ یہی پریشانی اور کمتری کا احساس ان کی شخصیت کی نمو میں منفی کردار ادا کرتا ہے۔ وہ ارادی اور غیر ارادی طور پر یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ وہ زندگی میں کچھ نہیں کر سکتے۔

ایسے افراد بعض اوقات تقدیر سے بھی شکوہ کناں ہوتے ہیں اور اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار تقدیر کو یا دوسرے افراد کو ٹھہراتے ہیں۔ ایسے بچے انفرادی توجہ کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں اور اگر پیار سے ان کی دیکھ بھال کی جائے تو انہیں بآسانی معاشرے کے نارمل افراد کی طرح زندگی گزارنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔

جسمانی طور پر معذور بچے اکثر ذہنی طور پر تندرست ہوتے ہیں اور اگر ان کی ذہنی صلاحیتوں کی طرف خاطر خواہ توجہ دی جائے تو یہ غیر معمولی نتائج دیتے ہیں۔ اب یہ والدین اور معلم کے اوپر ہے کہ وہ کس طرح سے ان بچوں کے اندر سے کمتری کے احساس کو ختم کر کے انہیں ذہنی طور پر کارآمد بناتے ہیں۔ اس میں ان کو ورزشوں اور کھیلوں کے ذریعے نارمل ہونے کا احساس دلانا بھی ہو سکتا ہے اور کونسلنگ کی مدد سے رہنمائی فراہم کرنا بھی۔ والدین اور اساتذہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ جسمانی طور پر معذور بچے کے طبعی رجحان اور ذہنی سطح کو دیکھتے ہوئے اس کے لیے ایسی سرگرمیوں کا انتخاب کریں کہ جسمانی معذوری ان کی کامیابی کی راہ میں دیوار نہ بننے پائے اور نتیجتاً وہ معاشرے کا کارآمد حصہ بن سکیں۔

جسمانی طور پر معذور بچوں کو مختلف کھیلوں اور ورزشوں کی بدولت معاشرے کے مفید افراد بنایا جا سکتا ہے اور ان کے عذر کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ اگر ان بچوں کو اپنی نگرانی میں مخصوص ورزشیں اور اصلاحی کھیل کروائے جائیں تو جہاں یہ بچے والہانہ ان سرگرمیوں میں حصہ لیں گے اور لطف اندوز ہوں گے وہیں ان کو خود اعتمادی حاصل ہو گی اور اسی خود اعتمادی کے نتیجے میں وہ مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو سکیں گے۔

ذیل میں دی گئی چند ورزشیں اور کھیل ایسے ہیں جن کو اختیار کرنے سے ان خصوصی بچوں کی جسمانی طور پر اصلاح کے ساتھ ساتھ ذہنی تفریح بھی ہوتی ہے اور ان کی جسمانی اہلیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ان ورزشوں کو اختیار کرنے سے ان کو نارمل بچوں کے شانہ بشانہ کھڑا کیا جا سکتا ہے اور مفید شہری بنایا جا سکتا ہے۔ جسمانی سرگرمیوں کو اختیار کرنے سے پہلے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ خصوصی بچوں کو یہ سرگرمیاں اپنی نگرانی میں کروائی جائیں۔

جسمانی طور پر معذور بچوں کی ورزشیں

( 1 بچے کو ویل چیئر پر بٹھایا جائے۔ اس کے سامنے گیند ویل چیئر کے قریب نیچے زمین پر رکھ دی جائے اور بچے کو کہا جائے کہ وہ ہاتھ پاؤں کی مدد سے اس کو اٹھانے کی کوشش کرے۔ اس طرح کرنے سے بچے کے بازوؤں اور ٹانگوں کی ورزش ہو گی۔

( 2 بچے کو ویل چیئر پر بٹھایا جائے اور غبارے میں ہو ابھر کر رسی کے ذریعے سے ویل چیئر سے باندھ دیا جائے۔ بچہ غبارے کو چھونے یا پکڑنے کی کوشش کرے گا تو اس کے ہاتھوں اور پاؤں کی ورزش ہو گی۔

( 3 بچے کو فومی گدے پر لٹا یا جائے اور اس کو کہا جائے کہ وہ اپنے جسم کو پھیلائے اور اکٹھا کرے۔ اس طرح کرنے سے بچے کی پیٹھ اور پیٹ کی ورزش ہو گی۔

( 4 بچے کو سیدھا لٹا یا جائے اور اس کو کہا جائے کہ وہ کہنیوں اور ہاتھوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنا زور لگاتے ہوئے کھڑا ہونے کی کوشش کرے۔ اس سے بچے کے بازوؤں اور کندھوں کی ورزش ہو گی۔

( 5 بچے کو گدے پر لٹایا جائے اور اس کے سامنے رسہ باندھا جائے وہ رسے کو پکڑتے ہوئے ہاتھوں کی مدد سے زور لگا کر جسم کو کھینچنے کی کوشش کرے۔ اس سے بچے کی پیٹھ، چھاتی اور پیٹ کی ورزش ہو گی۔

( 6 بازو اور چھاتی کی ورزش کے لیے بچے کو زینے کے نزدیک لٹا دیا جائے۔ بچہ زینے کو پکڑ کر آہستہ آہستہ اوپر جانے کی کوشش کرے۔

( 7 بچے کو سہارا دے کر رسے کے ساتھ کھڑا کر دیا جائے۔ بچہ توازن بر قرار رکھتے ہوئے ہاتھ اور ٹانگوں کی قوت استعمال کرتے ہوئے کچھ دیر کے لیے اپنے آپ کو کھڑا رکھنے کی کوشش کرے گا۔ جس سے اس کی ٹانگوں، بازوؤں اور توازن کی ورزش ہو سکے گی۔

( 8 لکڑی کے چورس شہتیر پر جس پر فوم رکھا ہوا ہو بچے کو لٹا دیا جائے۔ جو کم از کم زمین سے تین یا چار انچ اونچا ہو۔ یاد رہے کہ بچے کو چھاتی کے بل لٹایا جائے۔ بچہ ہاتھ اور گھٹنوں کی مدد سے آگے کو حرکت کرے۔ یہ عمل بار بار دہرایا جائے اس سے بچے کی پیٹ اور کندھے کی ورزش ہو گی۔

اس کے علاوہ متعدد مزید ورزشیں وقت اور دستیاب سہولیات کے پیش نظر کروائی جا سکتی ہیں۔ معلمین اور اساتذہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ خصوصی بچوں پر نارمل بچوں کی نسبت زیادہ توجہ دیں تاکہ یہ بچے صحیح معنوں میں معاشرے کا حصہ بن سکیں۔

جسمانی طور پر معذور بچوں کے کھیل

کھیل ایک ایسی سرگرمی ہے جس کی بدولت آسانی سے بچوں کو تعمیری کاموں کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے۔ بچے کھیل کو پسند کرتے ہیں اور ارادتاً اس میں شرکت کرتے ہیں جس سے ان کی سیکھنے کی اہلیت بڑھ جاتی ہے۔ ذیل میں دیے گئے چند کھیل بچوں میں جسمانی معذوری کے احساس کو کم کرنے میں ممد ہو سکتے ہیں۔

( 1 ویل چیئر پر بچے کو بٹھایا جائے اور وہ آہستہ آہستہ ہاتھوں کی مدد سے اس کو چلانے کی کوشش کرے۔ اسی طرح دو یا چار کی تعداد میں بچوں کو لائن میں ویل چیئر پر بٹھا یا جائے۔ ایک لائن کی حد مقرر کر دی جائے جہاں بچے ویل چیئر چلا کر جائیں۔ جو بچہ پہلے وہاں تک پہنچے گا وہ جیت جائے گا۔ اس طرح ویل چیئر کو ہاتھوں یا پاؤں کے ذریعے چلا کر بچوں میں مقابلہ کی فضا پیدا کر کے دلچسپ کھیل کروایا جا سکتا ہے۔

( 2 بچے کو ویل چیئر پر بٹھا یا جائے۔ اس کے سامنے ویل چیئر کے ساتھ بال رکھ دی جائے۔ آگے ایک حد مقرر کر دی جائے۔ بچہ بال کو رول کر کے وہاں تک لے جائے۔ یہ کھیل دو ، دو اور چار چار کے گروپوں میں بھی کھیلا جا سکتا ہے۔

( 3 بال یا غبارہ رسی کے ساتھ ویل چیئر کے ساتھ باندھ دیا جائے۔ ویل چیئر پر بیٹھے ہوئے بچہ اس کو ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کرے۔ بار بار کی کوشش سے بچہ لطف اندوز ہو گا جبکہ بال پکڑ لینے کی صورت میں اسے مسرت حاصل ہو گی۔ دوسرا بچہ بیساکھی کے سہارے کھڑا ہو گا۔ اس کے سامنے پول کے ساتھ باندھ کر لٹکتا ہوا بال ہو گا۔ بچہ اپنے ہاتھ سے بال کو مارے گا اور بال وہ جھول کر آگے جائے گا۔ جب واپس آئے گا تو اسے دوبارہ مارے گا۔ اس طرح چیئر پر بیٹھا بچہ پکڑنے کی کوشش کرتا رہے گا جبکہ بیساکھی والا بچہ اسے پہلے بچے کی طرف ٹھوکر لگا تا رہے گا۔ یہ عمل بار بار کیا جائے گا۔

( 4 دیوار پر سامنے نشان لگا دیے جائیں۔ اس کے سامنے بچوں کو ویل چیئر پر بٹھا یا جائے اور ان کے ہاتھوں میں گیند دیے جائیں۔ وہ سامنے گیند کو اس نشان پر مارنے کی کوشش کریں۔ اس طرح بچے آپس میں مقابلہ کریں گے۔ جو بچہ زیادہ گیندیں نشان پر مارے گا وہ جیت جائے گا۔

( 5 ویل چیئر پر بچے کو بٹھایا جائے۔ مدد گار بچہ بیساکھی والا ساتھ ہو۔ گاڑھے ہوئے پول کے ساتھ رسی کے ساتھ باندھا ہوا بال لٹکا دیا جائے۔ اس کے سامنے بھری ہوئی بوتلیں رکھ دی جائیں۔ یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ رسی اتنی لمبی ہو کہ بال جھول کر ان بوتلوں کو چھو سکے۔ بچے باری باری بال کو جھلا کر بوتلوں کو چھونے کی کوشش کریں۔ جو بچہ زیادہ تعداد میں بوتلیں چھولے گا وہ جیت جائے گا۔

( 6 بچے دو اور تین کے گروپوں میں ویل چیئرز پر بیٹھیں۔ اس گروپ کے درمیان میں پول گاڑھا جائے، جس کے ساتھ رسی سے باندھا ہوا گیند اس کے ساتھ لٹکا دیا جائے۔ اس کی رسی اتنی لمبی ہو کہ وہ جھلاتے ہوئے ان بچوں تک پہنچ جانی چاہیے۔ بچے بال کو جھلا کر ایک دوسرے کو پاس دیں۔ بال ہر ایک بچے کے پاس جھول کر جانا چاہیے اس طرح یہ بچے بال کو پکڑنے ا ور پاس دینے کی مشق کرتے رہیں۔

اس کے علاوہ مزید متعدد کھیل ضرورت کے پیش نظر ترتیب دیے جا سکتے ہیں۔ کھیل کے دوران معلم اس بات پر فوکس کرے کہ بچے کھیل کے دوران دشواری کا شکار نہ ہو اور نہ ہی اسے محرومی کا احساس ہو نے پائے۔ معلم نگرانی کے لیے کھیل کے دوران موجود رہے اور بچوں کے لیے تحسین بھرے فقرے اور رہنمائی کا سامان کرتا رہے۔ اگر والدین اور اساتذہ تھوڑی سی توجہ ان جسمانی معذور بچوں پر کر دیں تو یقیناً ان بچوں کی زندگیوں میں بہار لائی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments