میرے دیس کے طلباء زندہ ہیں


گزشتہ دنوں لاہور کا تاریخی مال روڈ ایک بار پھر انقلاب زندہ باد اور ایشیاء سرخ ہو گا کے نعروں سے گونج اٹھا، یہ انقلابی نعرے لگانے والے کوئی جعلی کرپٹ سیاستدان نہیں تھے، نہ ہی یہ سرمایہ دار اور جاگیردار تھے بلکہ یہ تو طلباء تھے جنہوں نے ایک بار پھر طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔

انہی یونینز کو بحال کرنے کا مطالبہ جس پر آج سے ٹھیک 37 سال قبل 9 فروری 1984 کو فوجی آمر صدر جنرل ضیا الحق نے اختلاف رائے دبانے کے لئے پابندی لگا دی تھی۔ یوں تو پابندی کا جواز طلبہ یونینز میں تشدد کا بڑھتا ہوا رجحان بتایا گیا لیکن جنرل ضیا الحق کو بھی معلوم تھا کہ اگر طلبہ کی آواز کو نہ دبایا گیا تو یہ طلبہ آمریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے، بالکل ویسے ہی جیسے ایوب خان کے خلاف یہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس پابندی کا اطلاق سب سے پہلے پنجاب میں ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں یہ پابندی لگادی گئی۔

غلام جیلانی، جو اس وقت گورنر پنجاب اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے، نے مارشل لا آرڈر نمبر 1371 جاری کر کے اس پابندی کا نفاذ کیا اور ساتھ میں تمام یونینز کے دفاتر بند اور بینکوں میں ان یونینز کے کھاتے منجمد کر دیے گئے۔ جبکہ حکم نامے کی خلاف ورزی پر پانچ سال قید و جرمانہ کی سزا کا بھی اعلان کیا گیا۔

طلبہ سے اتنا خوف؟ جی بالکل اتنا ہی خوف اور شاید یہ خوف جائز بھی تھا کیونکہ اگر طلبہ یونینز پر پابندی کا اطلاق نہ کیا جاتا تو یہ طلبہ صدر جنرل ضیاالحق کی حکومت کا تختہ الٹ دیتے اور ایسا ہونا بھی تھا، صدر ضیا الحق کو خوب یاد ہو گا کہ کیسے طلبہ نے فوجی آمر ایوب خان کی آمریت کے خلاف زبردست اور فیصلہ کن تحریک چلائی تھی۔

پاکستان میں 1947 ء کے قیام کے بعد سے لے کر 1984 تک، تعلیمی اداروں میں بائیں بازو کی طلبہ یونین کی سوچ حاوی رہی۔ یہ طلبہ ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے بنگلہ دیش نا منظور کا نعرہ لگایا اور فوجی حکومتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔

طلبہ یونینز پر پابندی یوں تو فوجی آمر نے لگائی لیکن یہ پابندی چار دہائیوں سے ختم نہ ہو سکی، کئی جمہوری حکومتیں آئی لیکن کسی نے بھی پابندی ہٹانے میں خاطر خواہ کام نہ کیا۔ یہاں یہ بات قابل نوٹ ہے کہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے 1989 میں اپنے پہلے دور حکومت میں یہ پابندی ختم کردی تھی تاہم سپریم کورٹ نے 1993 میں اس پر دوبارہ پابندی عائد کردی جو کہ آج تک قائم ہے۔ یہ پابندی ہٹانے میں موروثی سیاستدان بھی فوجی آمروں کے نقش قدم پر چلتے رہے کیونکہ یہ تمام سیاستدان سرمایہ دار اور جاگیردار ہیں جن کا عوام اور عوامی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔

2 سال قبل، جب میں جامع پنجاب سے صحافت کی ڈگری حاصل کر رہا تھا تب دوسرے سمیسٹر میں ڈاکٹر مہدی حسن صاحب نے بتایا کہ 2008 میں جب یوسف رضا گیلانی ملک کے وزیراعظم بنے تو قوم سے پہلے خطاب سے قبل مجھے فون کال کر کے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب کون سے اہم اعلانات کروں۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمیں بتایا کہ میں نے جتنے بھی انہیں مشورے دیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ طلبہ یونین پر پابندی ہٹانے کا اعلان کردو۔ اور یوسف رضا گیلانی صاحب نے ایسا کیا بھی لیکن افسوس وہ وعدہ پھر وفا نہ ہوسکا بالکل باقی دوسرے وعدوں کی طرح جو یہ سیاستدان ہم سے کر تو لیتے ہیں مگر پھر اسے کبھی پورا نہیں کرتے۔

طلبہ یونینز پر پابندی کا نقصان یہ ہوا کہ طلبہ جو کہ ایک زمانے میں ملکی سیاست میں باقاعدہ دلچسپی لیتے تھے، انہوں نے بحث و مباحثہ، مکالمہ، کرنٹ افیئر پر باقاعدہ سیمینار منعقد کرنا چھوڑ دیا اور بہت سے دوسرے برے کاموں میں پڑ گئے جیسا کہ نشہ وغیرہ۔

اب ایک بار پھر طلباء کی جانب سے اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جسے حکومت وقت کو فوری طور پر مان لینا چاہیے کیونکہ طلبہ کے مسائل، طلبہ سے زیادہ بہتر کوئی بھی نہیں جان سکتا اور ہم طلباء اپنے مسائل خود حل کر سکتے ہیں۔

طلبہ یونینز کی بحالی نہ صرف اس لیے ضروری ہے کہ طلبہ فیسوں میں کمی، ٹرانسپورٹ کے مسائل حل اور دیگر جائز مطالبات منوانے میں کامیاب ہوجائیں گے بلکہ یہ تو اس لیے بھی ضروری ہے کہ طلبہ جو کہ اس ملک کا مستقبل بھی ہیں، وہ انہی یونینز کی بدولت اپنے پیارے وطن کو لیڈرشپ سے نوازیں گے، ایسی لیڈرشپ جو نہ صرف روشن خیال ہوگی بلکہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گی، اور یوں ہماری سوہنی دھرتی سے موروثی سیاست کا خاتمہ ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments