کورونا وائرس کے خلاف کون سی دوائیں سب سے مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں؟

جیمز گیلاگر - نامہ نگار سائنس و صحت


کورونا وائرس، کووڈ، کووڈ علاج، کووڈ دوا، کووڈ ویکسین
ویکسینز نے عالمی وبا کے خلاف اہم کردار ادا کیا ہے مگر اب بھی کووڈ کا علاج کر پانے والی دواؤں کی ضرورت ہے۔

ویکسینز سے حاصل ہونے والی قوتِ مدافعت وقت کے ساتھ گھٹ سکتی ہے اور ویکسینز تک رسائی اب بھی دنیا بھر میں ایک مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ کووڈ کی نئی اقسام سے نمٹنے کے لیے ممکنہ طور پر ویکسینز کی بھی نئی اقسام کی ضرورت ہو گی۔

کون کون سی دوائیں دستیاب ہیں؟

ایسی بہت سی دوائیں ہیں جو مختلف انداز میں وائرس اور ہمارے جسم پر اثرانداز ہوتی ہیں

  • سوزش روکنے والی دوائیں ہمارے نظامِ مدافعت کو حد سے زیادہ کام کرنے سے روکتی ہیں ورنہ اس کے جان لیوا نتائج ہو سکتے ہیں۔
  • وائرس کش دوائیں ہمارے جسم کے اندر کورونا وائرس کو اس کی نقل تیار کرنے سے روکتی ہیں
  • اینٹی باڈی دوائیں اس وائرس پر حملہ کرنے کے لیے ہمارے اپنے مدافعتی نظام کی طرح ہی کام کرتی ہیں

انفیکشنز کی مختلف سطحوں پر ان کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ نہایت سستی بھی ہو سکتی ہیں تو بے انتہا مہنگی بھی۔ کچھ دوائیں دوسری دواؤں کے مقابلے میں نئی اقسام کے خلاف زیادہ مزاحم ہوتی ہیں۔

سوزش کش یا اینٹی انفلیمیٹری دوائیں

جب آپ کووڈ سے متاثر ہوتے ہیں تو آپ کا جسم آپ پر ہونے والے اس حملے سے خبردار کرنے کے لیے مخصوص مادے خارج کرتا ہے۔ اس کیمیائی وارننگ کو انفلیمیشن یا سوزش کہا جاتا ہے اور یہی کووڈ (یا کسی بھی بیماری) کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے جسم کے مدافعتی نظام کو متحرک کرتا ہے۔

پر اگر آپ فوری طور پر اس وائرس سے چھٹکارہ نہ پائیں تو سوزش بے قابو ہو کر آپ کے اہم اعضا مثلاً پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اور یہی وہ اضافی سوزش ہے جو جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔

ڈیکسامیتھاسون نامی سوزش کش سٹیرائیڈ دوائی کووڈ سے پہلے بھی موجود تھی اور یہ کووڈ متاثرین کی جان بچانے والی پہلی دوا ثابت ہوئی تھی۔

یہ سانس کی دشواری کے شکار افراد کو دی جاتی ہے اور اس سے آکسیجن پر موجود مریضوں کی موت کا خطرہ 20 فیصد اور وینٹیلیٹر پر موجود لوگوں کی موت کا خطرہ 33 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔

یہ اتنی سستی ہے کہ برازیل سے لے کر چین تک دنیا بھر میں ہر جگہ استعمال ہو رہی ہے۔

اس کے علاوہ دیگر ادویات کو بھی مؤثر پایا گیا ہے جن میں ہائیڈروکورٹیسون نامی سٹیرائیڈ شامل ہے۔

پھر ٹوسیلیزومیب اور سیریلومیب جیسی جدید سوزش کش دوائیں بھی ہیں جو چین، انڈیا اور آسٹریلیا سمیت کئی ممالک کے ہسپتالوں میں استعمال ہو رہی ہیں۔

مؤثر یہ بھی ہیں مگر یہ ڈیکسامیتھاسون سے 100 گنا زیادہ مہنگی ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کا استعمال محدود ہے مگر یہ پھر بھی انتہائی نگہداشت وارڈ کے بستر سے سستی ہیں۔

ایسی دوائیں مرض لاحق ہونے کے کچھ عرصے بعد مؤثر ہوتی ہیں مگر دمے کی ایک دوا بوڈیسونائیڈ کے بارے میں پایا گیا ہے کہ یہ کووڈ کی ابتدائی علامات کے حامل افراد کو گھر پر ہی فوراً ٹھیک کر دیتی ہے۔

کورونا وائرس، کووڈ، کووڈ علاج، کووڈ دوا، کووڈ ویکسین

Science Photo Library

وائرس کش یا اینٹی وائرل دوائیں

اینٹی وائرل دوائیں کورونا وائرس کی ہمارے جسم کے اندر نقول تیار کرنے کی صلاحیت پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ ایسی دوائیں جسم میں وائرس کی سطح کو کم سے کم رکھتی ہیں تاکہ آپ کا مدافعتی نظام اس سے نمٹ سکے۔

  • پیکسلووِڈ پانچ دن کے لیے روزانہ دو مرتبہ کھائی جاتی ہے اور اس کی تیار کنندہ کمپنی فائزر کے مطابق یہ خطرے کے شکار بالغ افراد میں ہسپتال داخلے یا موت کے خطرے کو 89 فیصد تک کم کر دیتی ہے۔
  • مولنوپائراوائر بھی وائرس کو اس کی نقول تیار کرنے سے روکتی ہے اور اس کی تیار کنندہ کمپنی مرک کے مطابق یہ ہسپتال داخلے یا موت کے خطرے کو نصف کر دیتی ہے۔

پیکسلووِڈ اور مولنوپائراوائر دونوں ہی علامات ظاہر ہونے کے فوراً بعد لی جاتی ہیں۔ فائزر کو توقع ہے کہ وہ سنہ 2022 کے اواخر تک پیکسلووِڈ کے آٹھ کروڑ کورس بنا سکے گی۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ کم آمدنی والے 95 ممالک میں جنیرک دوا سازوں کو یہ دوا کم قیمت پر تیار اور فروخت کرنے کی اجازت دے گی۔

اس کے علاوہ مرک بھی انڈیا کے جنیرک دوا سازوں کو کم اور متوسط آمدنی والے 100 ممالک کے لیے مولنوپائراوائر بنانے کی اجازت دے رہی ہے۔

کورونا وائرس، کووڈ، کووڈ علاج، کووڈ دوا، کووڈ ویکسین

دواؤں سے کووڈ کا علاج سوڈان جیسے غریب ممالک میں کارآمد ہو سکتا ہے جہاں اب بھی ویکسینز کی دستیابی ایک مسئلہ ہے

اینٹی باڈی علاج

تیسرا طریقہ لوگوں کو اینٹی باڈیز یعنی مدافعتی ذرات کی خوراک لگانا ہوتا ہے تاکہ یہ ذرات وائرس پر حملہ آور ہو سکیں۔ یہ ذرات خود کو کورونا وائرس کی سطح پر چپکا لیتے ہیں جس سے جسم کے مدافعتی نظام کے لیے وائرس کو تلاش کر کے تباہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

جب جسم پر کورونا وائرس کا حملہ ہوتا ہے تو جسم اپنی اینٹی باڈیز خود بھی بناتا ہے۔ ان میں سے سب سے مؤثر وہ ہیں جن کا لیبارٹریوں میں مطالعہ کیا گیا، وہاں ہی ان کی نشو و نما کی گئی اور مریضوں کو دی گئیں۔ اسے مونوکلونل اینٹی باڈی تھیراپی کہا جاتا ہے۔

یہ علاج اکثر اُن انتہائی بیمار مریضوں کے لیے مختص رکھا جاتا ہے جن کا جسم اپنی اینٹی باڈیز تیار نہیں کر رہا ہوتا۔

  • دوا ساز کمپنیوں ریجینیرون اور روش کی بنائی گئی روناپریو دوا ہسپتال میں گزاری گئی مدت اور موت کی شرح گھٹا دیتی ہے
  • گلیکسو سمتھ کلائن کی بنائی گئی سوٹروویمیب بلند خطرے کی زد میں موجود بالغوں میں ہسپتال داخلے اور موت کا خطرہ 79 فیصد تک کم دیتی ہے

یہ دوائیں جتنی جلدی دی جائیں کامیابی کا امکان اتنا زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ ممالک میں ایک اور اینٹی وائرل دوا ریمڈیسیور بھی استعمال کی جا رہی ہے مگر عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ اس کا ’کووڈ سے ہسپتال داخلے پر نہ ہونے کے برابر‘ فرق پڑتا ہے۔

کیا یہ دوائیں کووڈ کی نئی اقسام کے خلاف مؤثر ہوں گی؟

سوزش کش دوائیں وائرس کے بجائے ہمارے اپنے جسم پر اثرانداز ہوتی ہیں اس لیے انھیں تمام اقسام کے خلاف کام کرنا چاہیے۔

اس حوالے سے خدشات ہیں کہ کیا مونوکلونل اینٹی باڈیز نئی اقسام کے خلاف مؤثر ہوں گی یا نہیں، کیونکہ ان کا انحصار وائرس سے مشابہت پر ہوتا ہے۔ اگر وائرس کی نئی قسم بہت زیادہ تبدیل ہو چکی ہو تو یہ دوائیں کمزور ثابت ہو سکتی ہیں۔

کورونا وائرس، کووڈ، کووڈ علاج، کووڈ دوا، کووڈ ویکسین

مگر جی ایس کے کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے ذریعے علاج کو اومیکرون قسم کے خلاف لیبارٹری آزمائش میں کامیاب پایا گیا ہے۔

وائرس کش دواؤں کے اب تک کی اقسام کے خلاف مؤثر ہونے کی توقع ہے۔ اومیکرون قسم میں موجود کوئی تبدیلی ان دواؤں کے اثرات پر اثرانداز نہیں ہونی چاہیے لیکن اگر یہ دوائیں بہت زیادہ استعمال کی گئیں تو امکان ہے کہ وائرس ان دواؤں کے خلاف مزاحمت پیدا کر لے گا۔

دیگر کون سی دوائیں دستیاب ہیں؟

کئی دواؤں کو کووڈ کے لیے ممکنہ علاج قرار دیا گیا ہے بھلے ہی کچھ دواؤں کے مؤثر ہونے کی کوئی علامات موجود نہیں ہیں۔

آئیورمیکٹن کی دنیا کے کئی حصوں میں تشہیر کی گئی ہے حالانکہ اس کے مؤثر ہونے کے ثبوت موجود نہیں ہیں۔

کورونا کو شکست دینے والے افراد کے خون سے اینٹی باڈیز لینے (کونویلیسینٹ پلازما تھیراپی) کو بھی علاج قرار دیا گیا مگر اس سے اموات کی شرح کم نہیں ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ یہ بھی پیش گوئی کی جا رہی تھی کہ ایچ آئی وی اور ملیریا کا علاج کرنے والی دوائیں شاید مؤثر ثابت ہوں مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔


یہ مضمون صرف معلومات کے لیے ہے اور کسی بھی علاج کے لیے ڈاکٹر کا مشورہ ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments