چلغوزے کے باغات کے مالک نصیب خان افغانستان کے گلانو مہاجر کیمپ میں کیوں رہ رہے ہیں؟

عزیز اللہ خان - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور


وزیرستان
’وزیرستان میں اپنے چلغوزے کے باغات ہیں، اپنے پہاڑ ہیں، مکانات بناتا تھا، زندگی اچھی تھی، یہاں افغانستان میں تو غربت ہے، لوگوں سے قرضے لے رکھا ہے اور اب تک آٹھ سے دس لاکھ روپے تک مقروض ہو چکا ہوں۔‘

یہ گفتگو کرتے ہوئے ملک نصیب خان کی آواز بھر آئی لیکن وہ گفتگو جاری رکھے یہی کہتے رہے کہ کچھ راستہ بن جائے کہ اپنے آبائی علاقے وزیرستان واپس چلے جائیں۔

ملک نصیب اور ان کی طرح کے ہزاروں افراد افغانستان میں پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان میں بیشتر کا تعلق شمالی وزیرستان سے ہے۔ یہ لوگ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی وجہ سے افغانستان کی جانب نقل مکانی کر گئے تھے۔

پاکستانی حکومت کی جانب سے ایک مرتبہ پھر افغانستان میں پناہ حاصل کرنے والے پاکستانیوں کو واپس وطن لانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں جو وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے وجہ سے نقل مکانی کر گئے تھے۔

مقامی افراد کے مطابق اس وقت کوئی پانچ سے سات ہزار تک پاکستانی خاندان افغانستان میں پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں ان میں بیشتر افغانستان کے شہر خوست کے گلانو مہاجر کیمپ میں مقیم ہیں۔

اب شمالی وزیرستان کی انتظامیہ نے ان کی واپسی کے لیے ایک ٹیم افغانستان بھیجی ہے جو ان متاثرہ خاندانوں کی تفصیل معلوم کریں گے اور ایک ماہ کے اندر ان کی واپسی ممکن ہو سکے گی۔

اس کے لیے افغانستان کے کیمپ میں تحصیلدار فارم لے کر گئے ہیں جہاں ان پناہ گزینوں سے کہا گیا ہے کہ وہ یہ فارم مکمل کر کے پانچ دنوں کے اندر اندر واپس کر دیں تاکہ اس کے بعد پاک افغان سرحد غلام خان کے راستے ان کی واپسی کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔

وزیرستان کے قبائلی رہنما ملک خان مرجان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی واپسی کے لیے قبائلی رہنماؤں نے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کی تھیں جس میں حکام نے یقین دہانی کرائی تھی۔

آپریشن ضرب عضب کا آغاز

شمالی وزیرستان میں سال 2014 میں فوجی آپریشن شروع ہونے کو تھا کہ لوگوں سے کہا گیا کہ یہ علاقہ خالی کر دیں، فوج علاقے میں آپریشن شروع کر رہی ہے، اس اعلان کے ساتھ ہی سب لوگ پریشانی کے عالم میں گھر بار چھوڑ کر روانہ ہوئے۔

کسی کو پنی منزل کا علم نہیں تھا کہ کس طرف جانا ہے۔ صرف اعلان تھا، سب لوگ سوچنے لگے کس طرف جائیں۔ اتنے میں پاک افغان سرحد کے قریب علاقے دتہ خیل کے خاندانوں نے افغانستان جانے کو ترجیح دی۔

اس فیصلے کی ایک وجہ یہ تھی کہ افغانستان کا علاقہ ان کے لیے قریب پڑتا تھا، اپنی قوم کے لوگ وہاں آباد تھے اور اکثر لوگوں کا کاروبار بھی اس علاقے سے وابستہ تھا۔

ملک نصیب نے بھی اپنی اہلیہ اور پانچ بیٹوں کے ہمراہ یہی فیصلہ کیا کہ افغانستان کی جانب جاتے ہیں۔ انہی نے بتایا کہ ’وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع ہو گیا تھا، فضا میں طیارے اڑان بھر رہے تھے کچھ علاقوں سے بمباری کی اطلاعات بھی آ رہی تھیں، سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کریں۔‘

ملک نصیب نے بتایا کہ وہ بے سروسامانی کی حالت میں روانہ ہوئے منزل کا علم نہیں تھا پھر قریبی آباد لوگوں نے افغانستان جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے یہ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ ہم سرحد عبور کر چکے ہیں یا ابھی وزیرستان میں ہی ہیں۔

’ان راستوں سے ہوتے ہوئے پہلے افغانستان کے پکتیا صوبے میں پہنچے لیکن وہاں زندگی گزارنے میں مشکل پیش آ رہی تھی اس لیے پھر خوست کے علاقے میں گلانو کیمپ پہنچے تھے۔‘

کون کیسے زندگی گزار رہا ہے؟

ملک نصیب کی طرح ہزاروں پاکستانی گذشتہ سات برسوں سے افغانستان میں پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کی باقاعدہ کوئی تعداد کا علم نہیں ہے لیکن شمالی وزیرستان کے مقامی لوگوں کے مطابق کوئی سات ہزار خاندان ایسے ہیں جو افغانستان میں پناہ گزین ہیں۔

گلانو کیمپ سے ملک نصیب نے بتایا کہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں بڑی تعداد میں وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے افراد مقیم ہیں کچھ کیمپوں میں ہیں اور کچھ شہروں میں زندگی گزار رہے ہیں۔

ملک نصیب نے بتایا کہ وزیرستان میں چلغوزے سے اچھی خاصی آمدن ہو جاتی تھی دن اچھے گزر رہے تھے لیکن یہاں تو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب تک وہ کوئی آٹھ لاکھ روپے سے زیادہ کا قرض لے چکے ہیں۔ ان سے جب پوچھا کہ یہ قرض واپس کیسے کریں گے تو ان کا کہنا تھا کہ جب واپس وزیرستان پہنچ جاؤں گا تب ہی یہ قرض اتار سکوں گا۔

شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے لگ بھگ دس لاکھ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے ان میں بیشتر خیبر پختونخوا کے قریبی اضلاع بنوں، لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان اور پشاور پہنچے تھے۔ ان علاقوں کے مکین جو افغانستان کی سرحد کے قریب واقع تھے ان میں بیشتر افغانستان چلے گئے تھے۔

ان میں ایک 15 سالہ لڑکا شاہدین بھی شامل تھا جو اب 22 سال کا جوان ہے۔ شاہدین نے افغانستان میں ہی اپنے رشتہ داروں میں شادی کی اور اب اس کے تین بچے ہیں۔ انھوں نے ٹیلیفون پر بی بی سی سے بات چیت کی تو ان کا پشتو بولنے کا لہجہ افغانستان میں بولی جانے والی پشتو کی طرح تھا ان کی باتوں سے ایسا نہیں لگتا تھا کہ وہ وزیرستان یا پاکستان کے کسی پشتون علاقے کی زبان بول رہے ہیں۔

شاہدین نے بتایا کہ افغانستان میں ان کی زندگی بہت مشکل ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین، یو این ایچ سی آر کی جانب سے کبھی کبھار مدد کی جاتی ہے لیکن روز مرہ کے معمولات کے لیے انھیں مزدوری کرنا پڑتی ہے۔ کبھی کام مل جاتا ہے کبھی تو ہفتوں تک کام نہیں ملتا اگر بیماری آ جائے تو علاقے کے لوگوں سے منت سماجت کر کے قرض لینا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا یہاں رہنے والے بیشتر لوگ مقروض ہو چکے ہیں۔

شاہدین نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ طالبان کے آنے کے بعد ان کے لیے بظاہر تو کوئی مشکل پیدا نہیں ہوئی اور طالبان نے انھیں کچھ نہیں کہا بس مشکل یہ ہوئی کہ اب روزگار کے مواقع بالکل ختم ہو چکے ہیں۔

یہاں تو اب افغان شہریوں کے لیے مسائل بڑھ گئے ہیں ان لوگوں کے لیے بھی کچھ نہیں ہے ایسے میں ہم پناہ گزینوں کو کیا ملے گا۔ اس کیمپ میں پانی کا انتظام ہے اور بچوں کے لیے تعلیم کا نظام بھی ہے باقی کچھ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر وقت یہی سوچ ہوتی تھی، خواتین اور بچے آپس میں یہی بات کرتے تھے کہ اپنے وطن چلے جائیں تو بہت اچھا ہو گا۔ اپنے وطن میں ہم چلغوزے کے کام کرتے تھے، ایک درخت سے 50 کلو چلغوزہ نکلتا تھا جس کی قیمت لگ بھگ دو لاکھ روپے بنتی ہے تو ہمیں تو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں تھی اپنا ہی اتنا کام ہو گا کہ ہمیں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان آنے والے افغان شہری ’پناہ گزین‘ کیوں نہیں ہیں؟

پناہ گزین کیمپوں کی زندگی کیمرے کی نظر سے

پاکستان آنے والے افغان پناہ گزین: ’طالبان خوفناک لوگ ہیں۔۔۔ ان کے سینوں میں دل نہیں‘

افغان پناہ گزینوں کے پاکستانی ثقافت پر گہرے نقوش

کس قبائلی علاقے کے کتنے پناہ گزین بے گھر

یہ نہیں کہ صرف افغانستان میں پاکستانی بے گھر ہیں بلکہ اب تک پاکستان میں بھی ہزاروں خاندان اپنے علاقوں کو واپس نہیں جا سکے۔

قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے پی ڈی ایم اے کے ترجمان احسان داوڑ نے بتایا کہ افغانستان میں لگ بھگ پانچ ہزار سے سات ہزار متاثرہ افراد میں مقیم ہیں اور ان کی باعزت واپسی کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت شمالی وزیرستان کے پاکستان کے اندر 15229 رجسٹرڈ خاندان بے گھر ہیں یہ لوگ اپنے وطن واپس نہیں جا سکے ہیں۔ اس کے علاوہ ضلع خیبر کے 1108 خاندان اب تک واپس نہیں جا سکے اور ان میں بیشتر کا تعلق تیرہ کے علاقے سے ہے۔

یہ تعداد ان رجسٹرڈ خاندانوں کی ہے جو پی ڈی ایم اے کے پاس فہرست میں موجود ہیں لیکن ایسے بھی خاندان ہیں جن کی رجسٹریشن نہیں ہے ان کی تعداد واضح نہیں ہے۔

ترجمان نے بتایا کہ ان رجسٹرڈ متاثرین کو ماہانہ الاؤنس دیے جا رہے ہیں اور یہ کی ان کی باعزت واپسی کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32509 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments