سعودی عرب اور فرانس میں تجارتی معاہدے اور ہمارا سیالکوٹ


 قوی امکان ہے کہ گزشتہ کئی مہینوں سے پاکستانی معیشت اور قوم مہنگائی کے جس طوفان کا سامنا کر رہی ہے وہ آنے والے مہینوں میں زیادہ قیامت خیز ہو گا۔ کیوں کہ کورونا وبا کی وجہ سے بند کاروبار کھلا تو عالمی منڈی میں تیل کی ڈیمانڈ میں اضافہ کی وجہ سے اسکی قیمت میں اضافہ ہونا شروع ہوا تو ہمارا تجارتی خسارہ بھی تیزی سے بڑھنے لگا، جس کو مستقل طور پر کم کرنے کے لئے دو ہی آپشنز  ہیں۔ یا تو درآمدات میں کمی کی جاۓ جس سے درآمد کردہ چیزوں کی قیمت میں اضافہ فطری ہے، یا پھر برآمدات میں بھرپور اضافہ کیا جاۓ۔
جہاں تک برآمدات کا تعلق ہے تو اول ہمارے پاس دنیا کو برآمد کرنے کے لئے کچھ ایسا نہیں ہے جس میں ہمیں کلی یا کم از کم تقابلی برتری حاصل ہو، دوسرا یہاں سستی لیبر کے باوجود چیزیں بنانے کے لاگت پیدائش باقی ملکوں مثلاً  بنگلہ دیش، ترکی، ویتنام، تائیوان اور بھارت کے مقابلے میں زیادہ ہے جس کی وجہ سے بیرونی منڈی میں مقابلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ صرف لاگت پیدائش ہی نہیں، ٹیکنالوجی کا استعمال کم  ہونے کی وجہ سے ہماری اشیا کا میعار بھی ایسا نہیں کہ مقابلہ کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف درآمدی بل کم نہیں ہوپاتا تو دوسری طرف برآمدی بل اوپر جانے کا نام نہیں لیتا۔ ایسے میں بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات ہی واحد سہارا رہ جاتی ہیں یا بیرونی قرضہ یا پھر امداد۔ حال ہی میں سعودی عرب سے 4 فیصد شرح سود پر ڈیپازٹ کے لئے 3 ارب ڈالرز کا انتظام ہوا ہے۔ اگر برآمدات میں اضافہ نہ ہوا تو یہ سود ادا کرنے کے لیے بھی مزید قرضہ لینا ہو گا۔
ہماری قوم کو سوچنا چاہیے کہ برآمدات میں اضافہ کے لئے شہر اقبال جو کوشش کر رہا تھا وہ سری لنکن مینیجر  کے بے رحمانہ قتل کے بعد کہیں بہت پیچھے رہ جاۓگی اور  برآمدات میں اضافہ کا یہ خواب ادھورا رہ جانے سے تجارتی خسارہ میں کمی تقریباً ناممکن ہی ہو گی۔ اسلئے درآمدات پر مزید ٹیکسز لگانا ناگزیر ہو جائیگا، جن میں خام تیل، چاۓ، ادویات اور خوردنی تیل سرفہرست ہیں۔ سیالکوٹ کے اس واقعہ کے بعد بیرونی سرمایہ کاری اور بیرون ملک پاکستانیوں کے اعتماد  میں جو کمی ہو گی، FATF کی گرے لسٹ سے نکل سکیں گے یا نہیں، یہ سب ایک الگ کہانی ہے۔
ایک جانب پاکستان میں یہ سب ہو رہا ہے تو دوسری طرف خبر یہ ہے کہ فرانس کے صدر اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ سعودی عرب کے دورہ پر ہیں جس کے دوران کئی بلين ڈالرز کے تجارتی معاہدے ہو رہے ہیں، یعنی جو مسلم امہ کی لیڈرشپ کے دعویدار ہیں وہ جس وقت مغربی ملکوں کے ساتھ معاشی لین دین میں مصروف ہیں تو معاشی مشکلات میں گھرے پاکستانی اپنے برآمدی سنٹر سیالکوٹ میں جنونیت کا جشن منا رہے ہیں، جسکا معاشی نقصان لمبے عرصہ تک ہم سب کو برداشت کرنا ہو گا۔ ابھی بھی نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments