ریاست کی ساکھ اور پراکسیز


پاکستان نا صرف کہ عالم اسلام کا بڑا اور اہم ملک ہے بلکہ دنیا کے دیگر ممالک چاہے وہ بڑی طاقتیں ہی کیوں نہ ہو ہمارے حالات سے لاتعلق نہیں رہ سکتی ہے۔ اور گرتی معیشت اور اس کو عارضی سہارے دینے کے عمل نے دنیا کی تشویش کو روز بروز زیادہ سے زیادہ کر دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں تھا تو ایک جی سیون کے رکن ملک کے سفیر نے گفتگو میں کہا کے سفارت کار پاکستان میں اس غرض سے تبادلہ پسند کرتے تھے کہ یہاں پر اشیاء کم قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں اور بچت ہو جاتی ہے مگر اب یہ سہولت بھی واپس لے لی گئی ہے اور سمجھ نہیں آتی کہ اتنے بڑے ملک کے معاشی حالات کی بہتری کی جانب توجہ نہیں دی جا رہی ہے اور اگر یہاں پر مسائل اس حساب سے بڑھتے چلے گئے تو اس صورت میں دنیا اس کے اثرات سے لا تعلق نہیں رہ سکتی ہے۔

مگر یہاں صورتحال یہ ہے کہ جو پہلے قرضہ لینے پر بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے کہ قرضہ لینے کے بجائے میں یہ کر دوں گا میں وہ کروں گا اب سعودی عرب سے ملنے والے صرف ڈپازٹ پر کامیابی کی نوید سناتے پھر رہے ہیں۔ حالاں کہ ناقابل استعمال رقم جو صرف رکھی رہے گی اور جس پر سود کی ادائیگی علیحدہ سے ہوگی اور جب چاہے اس کو فوری طور پر واپس بھی مانگا جا سکتا ہے کہ بس واپس کر دو اور پھر بس واپس کر دینا ہو گا مگر اس کو معاشی سدھار کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے سعودی عرب نے بھی ماضی کی نسبت سے اتنے پر ہی اکتفا کیا حالانکہ یہ کوئی زمانہ قدیم کا قصہ نہیں جب نواز شریف دور حکومت میں سعودی عرب نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کی رقم بطور تحفہ دے دی تھی۔

یقینی طور پر اس میں شخصیت کا بھی اثر موجود تھا کہ پاکستان میں کون برسراقتدار ہے جو کہ اب موجود نہیں ہے لیکن اس کے باوجود سعودی عرب سے گفتگو میں مناسب انداز اختیار کیا جاتا تو اس سے بہتر بلکہ بہت بہتر نتائج کا حصول ممکن تھا اور ہے کیونکہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ سعودی عرب پاکستان میں اپنی ساکھ کو ایک رفتار سے اس سطح پر برقرار نہیں رکھ پا رہا ہے کہ جس سطح پر وہ کچھ عرصے قبل تک موجود تھی۔

ویسے ہی وطن عزیز میں پراکسیز کھڑی کرنے سے سعودی عرب اور ایران کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور اب یہ معاملہ سعودیہ کے سامنے موجود ہے۔ ایسی صورتحال میں سعودی عرب کو بھی درکار ہے کہ عالم اسلام کی اتنی بڑی طاقت کیے معاشی مسائل کے حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اور عجمی طاقت بھی ایسی جس کے عرب دنیا سے کسی قسم کے مسائل موجود نہیں ہے کیونکہ ترکی اور ایران بڑی طاقتیں ضرور ہیں لیکن ان کو عرب دنیا سے اور عرب دنیا کو ان سے مسائل ہیں۔ ویسے تو سعودی عرب اور ایران کی یہ بھی ضرورت ہے کہ یہ دونوں ممالک اپنے باہمی تنازعات کو مل بیٹھ کر حل کر لیں کیونکہ وقت رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے اس وقت تو ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای ایران میں بہت طاقتور شخصیت کے طور پر موجود ہیں مگر ان کے بعد اتنی طاقتور شخصیت کی دوبارہ موجودگی ممکن نظر نہیں آ رہی ہے جبکہ سعودی عرب میں بھی شاہ سلمان کے بعد اس تسلسل میں تبدیلی آ جائے گی جو کہ بہرحال کمزوری کی نشانی ہو گی اس لئے اس وقت یہ موقع موجود ہے کہ دونوں طرف کی بزرگ قیادت جو طاقتور بھی ہے موجود ہے، تنازعات بھی ان کے سامنے اٹھے اور ان کے نقصانات سے بھی آگاہ ہے، لہذا یہی وقت ہے کہ دونوں اطراف بزرگ قیادت کی موجودگی سے فائدہ اٹھا لے اور تنازعات حل کر لے۔ اگر داخل ہی کمزور ہو جائے تو پھر خارجہ امور میں بڑے فیصلے کا امکان معدومیت کی طرف گامزن ہو جائے گا۔

اس بات کو دیگر عرب ممالک محسوس بھی کر رہے ہیں اسی غرض سے یو اے ای کا اعلی سطح کا وفد ترکی کی سرزمین پر موجود ہو کر یہ بھی پیغام دے رہا تھا کہ پالیسی میں بنیادی شفٹ ناگزیر ہو چکا ہے اگر بقا کو برقرار رکھنا ہے۔ اب عربی عجمی کو ایک دوسرے سے ماضی کی تاریخ کے سب سے شاکی رہنے کے رویہ سے جان چھڑانا ہوگی کیونکہ مذہبی تقدس مذہبی مقامات کے ہونے کے سبب حاصل ہوتا ہے لیکن قوموں میں مثبت تاثر بھی قومی مفادات کے حصول کے لئے بنیادی ضرورت ہے۔ ترکی اس ضرورت کو سمجھتے ہوئے پاکستان میں اپنے مثبت تاثر کو قائم کرنے کی غرض سے اقدامات اٹھا رہا ہے۔ لاہور میں ترک قونصلیٹ کی عمارت کی تعمیر کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا گیا کہ عمارت میں لاہور کا فن تعمیر اور ثقافت کی جھلک موجود ہو تاکہ اپنائیت کا احساس ہو۔

ترکی کے لاہور میں متعین قونصل جنرل بھی اس حوالے سے بہت متحرک ہیں۔ گوجرانوالہ فیصل آباد سیالکوٹ میں بھی قونصل خدمات کو بڑھا دیا گیا ہے تاکہ پاکستانی عوام میں بہت بہتر ساکھ قائم کی جا سکیں۔ ہمارے دیگر برادر اسلامی ممالک کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے کہ بہتر ساکھ بہتر رویہ سے قائم ہوتی ہے جبکہ پراکسیز صرف تنازعات بڑھانے کا سبب بنتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments