فضل الرحمن صاحب، آپ بھی توہین مذہب کے الزام سے محفوظ نہیں ہیں


مجھے سائنسی کانفرنسوں میں شرکت کے لئے مختلف ممالک میں جانے کا موقع ملا ہے۔ آج سے تقریبا دس گیارہ برس سری لنکا میں ہونے والی ایک کانفرنس میں بھی شرکت کا موقع ملا۔ میرے لئے یہ ایک منفرد تجربہ تھا۔ اس وقت سری لنکا میں تازہ تازہ خانہ جنگی ختم ہوئی تھی اور پاکستان نے اس جد و جہد میں سری لنکا کی مدد کی تھی ۔ دنیا کے اکثر ممالک میں تو سبز پاسپورٹ دیکھتے ہی شک و شبہ کی نظریں آپ کا تعاقب کرتی ہیں لیکن سری لنکا میں بالکل برعکس معاملہ تھا۔ یہ سنتے ہی کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں آئو بھگت کے سلوک کا سلسلہ شروع ہوجاتا ۔ ایک سڑک پر پولیس چیکنگ کے لئے ٹریفک رکی ہوئی تھی ۔ ایک پولیس کے کارکن نے ہم سے پوچھا کہ آپ کس ملک سے آئے ہیں اور یہ سن کر کہ ہمارا تعلق پاکستان سے ان صاحب نے ایک طرف سے راستہ بنا کر ہمیں نکال دیا تاکہ پاکستان سے آئے ہوئے مہمان کو تکلیف نہ ہو۔ ڈالر کو مقامی کرنسی میں تبدیل کرانے کے لئے پاسپورٹ دکھانا پڑتا تھا ۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ جب ہماری جیب سے سبز پاسپورٹ نکلا تو کائونٹر پر بیٹھے ہوئے شخص کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی اور اس نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔

ان یادوں کی وجہ سے میں اکثر سوچتا تھا کہ پھر کبھی سری لنکا جائوں گا۔ لیکن جب سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا تو یہ ارادہ متزلزل ہوگیا ۔ اور چند روز قبل جس طرح سری لنکا کے ایک شخص کو سڑک پر وحشیانہ انداز میں قتل کیا گیا ہے ، اب میرے دل میں دوبارہ سری لنکا جانے کی خواہش مکمل طور پر دم توڑ چکی ہے ۔ اب ہم دنیا کے کسی ملک میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ بلکہ اب شاید ہم آئینہ دیکھنے کے قابل بھی نہیں رہے۔

آپ جانتے ہیں کہ جذام میں اعضا کیوں ختم ہوجاتے ہیں؟ انگلیاں کیوں جھڑ جاتی ہیں؟ کیونکہ اس بیماری میں ان اعضا میں درد کی حس ختم ہو جاتی ہے۔ اور اس وجہ سے پہلے یہ اعضا زخموں کا شکار ہوتے ہیں اور پھر ختم ہوتے جاتے ہیں ۔ اسی طرح بعض معاشرے بھی جذام کا شکار ہوجاتے ہیں ان میں درد کی حس ختم ہو جاتی ہے اور خواہ کیسی ہی قیامت کیوں نہ آ جائے اس معاشرے کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔

اس واقعہ پر بہت سی اہم شخصیات کا رد عمل اسی معاشرتی جذام کا عکاس ہے۔ اس کی دو مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ وزیر دفاع سے جب سوال ہوا کہ آپ کی حکومت نے تحریک لبیک پر سے پابندی اُٹھائی اور پھر سیالکوٹ کا حادثہ ہوا۔ کیا یہ تجویز زیر غور ہے کہ اس قسم کی تنظیموں پر موثر پابندی لگائی جائے ورنہ یہ سلسلہ تو چلتا جائے گا۔ اس پر خٹک صاحب نے کمال خندہ پیشانی سے یہ جواب مرحمت عطا فرمایا کہ وجوہات آپ کو بھی پتہ ہیں، بچے ہیں، بڑے ہوتے ہیں، اسلامی دین ہے، سوچ زیادہ ہے، جوش میں آ جاتے ہیں، جذبے میں کام کر جاتے ہیں۔ کام ہو گیا اچانک۔ میں جذبے میں آئوں گا تو غلط کام کر سکتا ہوں۔ پھر یہ بھی اعتراف کیا کہ جب ہم جوان تھے تو پاگل ہوتے تھے اور کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے تھے۔

پرویز خٹک صاحب کے فلسفہ کے مطابق اس قسم کے شرمناک قتل دینی سوچ کے نتیجہ میں کئے جاتے ہیں اور اگر سوچ زیادہ ہو تو اس کے نتیجہ میں اس قسم کے بھیانک جرائم ہوتے ہیں۔ اس لئے ان پر زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور جب دنیا میں یہ خبر پھیلے گی کہ جس ملک کے پاس ایٹم بم موجود ہیں اس کا وزیر دفاع خود اعتراف کر رہا ہے کہ وہ جوانی میں مذہبی جذبات کی شدت میں پاگل ہوا کرتا تھا اور ان واقعات کو مذہبی جذبات کی آ ڑ میں جائز ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو وہ پاکستان کے متعلق کیا رائے قائم کی جائے گی۔

اب فضل الرحمن صاحب کی جاری کردہ ٹویٹ کا جائزہ لیتے ہیں ۔ انہوں نے ٹویٹ کیا کہ ریاست اگر توہین رسالت اور توہین ختم نبوت کے ملزمان کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی ۔ تو اس قسم کے واقعات تو ہوں گے۔ اس ٹویٹ سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ فضل الرحمن صاحب ملزم اور مجرم میں فرق سمجھ نہیں پا رہے۔ ملزم صرف اس شخص کو کہتے ہیں جس پر ایک الزام لگایا گیا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص پر ایک الزام لگایا گیا ہے اور وہ الزام غلط ہے ۔ ایسا شخص نہ صرف معصوم بلکہ مظلوم بھی ہے جس پر ناحق ایک غلط الزام لگایا گیا ہے۔ اس لئے دنیا کی کوئی بھی ریاست صرف ملزم ہونے کی بنا پر کسی شخص کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی ۔ یہ پرلے درجہ کی نا انصافی ہو گی ۔ اگر کوئی ریاست ہر الزام پر ملزم کے خلاف کارروائی کرنے لگے تو دنیا بھر کا امن درہم برہم ہو جائے۔ اور اگر اس بنا پر کہ ریاست اس شخص کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کر رہی سڑکوں پر قتل کرنے کا سلسلہ شروع ہو جائے تو وہ فساد برپا ہو گا کہ دنیا روانڈا کے قتل عام کو بھول جائے گی۔

فضل الرحمن صاحب کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ اس قسم کے الزامات اس مسلک پر بھی لگائے جاتے رہے ہیں جس سے وہ خود وابستہ ہیں ۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ فضل الرحمن صاحب اور جمیعت العلماء اسلام کے احباب دیوبندی مسلک سے وابستہ ہیں۔ اور تحریک لبیک کا گروہ بریلوی مسلک سے وابستہ ہے۔ سو سال سے اب تک بریلوی علما دیوبندی احباب پر توہین اور گستاخی کے الزامات لگاتے آئے ہیں۔ گو کہ میرے نزدیک یہ الزامات بالکل بے بنیاد ہیں۔ بریلوی مسلک کے قائد احمد رضا خان صاحب بریلوی نے جن مسالک کا نام لے کر یہ فتوی دیا تھا کہ یہ لوگ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیتے ہیں ان میں دیوبندی احباب کو بھی شامل کیا تھا۔ اور شیعہ احباب کے متعلق یہ کہا تھا کہ

“ان کی گستاخیوں کا اصل مطمح نظر حضرات انبیاء کرام اور خود حضور پر نور شافع یوم نشور ہیں صلی اللہ علیہ وسلم “

[فتاوی رضویہ جلد 14 ص 403]

اور یہ الزام اس دور میں بھی لگایا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر جب 2009 میں احمد رضا خان صاحب بریلوی کی کتاب حسام الحرمین شائع ہوئی تو اس کے پیش لفظ میں عبد الحکیم شرف قادری صاحب صدر مدرس جامعہ نظامیہ لاہور نے دیوبندی احباب کی بعض تحریروں کے بارے میں یہ فتوی دیا

“بنائے اختلاف وہ عبارات ہیں جن میں بارگاہ رسالت علی صاحب الصلوۃ والسلام میں کھلم کھلا گستاخی اور توہین کی گئی ہے۔ “

[حسام الحرمین اردو تالیف احمد رضا خان صاحب بریلوی اردو ترجمہ اقبال احمد فاروقی ناشر مکتبہ نبویۃ لاہور 2009ص4]

اور اسی کتاب کے صفحہ 20 پر احمد رضا خان صاحب بریلوی نے دیوبندی احباب کے قائد محترم مولانا قاسم نانوتوی صاحب کو ختم نبوت کا منکر قرار دے دیا ۔ اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے علماء سے دیوبندی احباب اور کئی دوسرے فرقوں کے خلاف فتوے حاصل کئے۔ اسی طرح دیوبندی احباب نے بریلوی احباب کے خلاف جو کتب شائع کیں ان میں انہیں اور ان کے قائدین کو مشرک تک قرار دے دیا ۔ [مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں بریلوی مذہب کا علمی محاسبہ جلد اول مصنفہ سعید احمد قادری ] دونوں طرف سے ان فتووں میں اتنی سخت زبان استعمال کی گئِی ہے کہ اسے نہ ہی دہرانا مناسب ہوگا۔

فضل الرحمن صاحب کی عمر علمی دنیا کی بجائے سیاست کے میدان میں گذری ہے لیکن وہ یقینی طور پر ان سینکڑوں فتووں سے واقف ہوں گے جس میں خود ان کے مسلک کو بھی گستاخ اور توہین کرنے والا قرار دیا گیا ہے۔ اس پس منظر میں اگر فضل الرحمن صاحب کا یہ نظریہ قبول کیا جائے کہ اگر ریاست اس شخص کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی جس پر ابھی صرف توہین رسالت یا توہین ختم نبوت کا الزام ہے اور ثابت نہیں کیا گیا تو سڑکوں پر مار مار کر لوگوں کو قتل کرنے اور ان کی لاش کو جلانے کے واقعات تو ہوں گے تو اس کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ خاکم بدہن پاکستان کی سڑکوں پر مختلف مسالک کے لوگ ایک دوسرے کا قتل عام شروع کردیں گے۔ اور یہ یاد رکھیں کہ اس ملک میں ہزاروں مدرسوں کے لاکھوں طلبا موجود ہیں جو ان فتووں سے بخوبی واقف ہیں۔ اس کے بعد ملک میں جو خانہ جنگی اور خون خرابہ شروع ہوگا اس کی زد سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا اور… فضل الرحمن صاحب بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments