حق کے لیے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتا


حکومت اپنے پانچ سال پورے کرنے کے لیے تین سال گزار چکی اور اپوزیشن بھی حکومت گراتے گراتے اتنا ہے عرصہ اپنے ہاتھ سے نکال دینے کے بعد گو مگو کا شکار ہے کہ وہ مزید دو سال حکومت گرانے میں صرف کرے یا اگلے الیکشن کی صف بندی کرے جبکہ عوام دونوں فریقین کی جانب سے وعدوں امیدوں اور خوش گمانیوں کے سہارے تین سال بعد بھی اچھے وقت کا انتظار کر رہے ہیں وطن عزیز کے ہر فرد کی فی کس امدنی کم اور اخراجات بڑھ رہے ہیں اور اسی جمع تفریق میں ہر فرد قرضوں کے بوجھ تلے دب کر سانسوں کو رواں رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

حالات کچھ ایسے ہیں کہ جو اس بوجھ سے نکلنا چاہتا ہے وہ کورونا وائرس اس کے سانس لینے میں رکاوٹ بنتا ہے اور اگر اس سے بچ کر کھلی فضا میں جانے کی کوشش کریں تو سموگ کے ساتھ ڈینگی مچھر حملے کے لیے تیار رہتا ہے اس لیے عوام ہی اس دور میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں حکمران اور اپوزیشن تو موسمی سیاست کر رہے ہیں۔ یہ موسمی پھل پکتے ہی کھا پی کر غائب ہو جایں گے اور عوام ان کا کچرا اٹھاتے ان کا پھر سے اگلے موسم میں انتظار کریں گے اب تو دل میں یہ خواہش ہی نہیں ابھرتی کہ سات دہائیوں سے عوام کے حقوق سلب ہونے کی بات کریں کیونکہ جنہوں نے یہ حقوق دینے ہیں وہ ماضی سے سبق حاصل نہیں کرنا چاہتے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کی اشرافیہ ڈیلی ویجر ہے یہ صرف ایک دن کا سوچتے ہیں کہ آج کا دن کیسے گزرنا ہے اس نام نہاد طبقے اور ایک دیہاڑی دار مزدور کی سوچ میں کوئی فرق نہیں وہ بھی ہر نئے دن اس امید کے ساتھ گھر سے نکلتا ہے کہ شام کو گھر آنے سے پہلے بھوکے پیاسے بچوں کے لیے کیا لانا ہے اور ہم پر مسلط طبقہ روزانہ یہ منصوبہ بنا کر نمودار ہوتا ہے کہ عوام میں جینے کی رمق کس طرح ختم ہوگی۔

کوئی تو ان سے اس بات کا جواب لے دیے کہ ملک کو اس حال پر پہنچانے کا ذمے دار کیا عوام ہیں جو ہر صبح کی پہلی کرن ہی ان پر اگ برسا دی جاتی ہے اور کہا یہ ہی جاتا ہے کہ سہتے جاؤ بولنا نہیں حقوق مانگو گے تو کچل دیے جاؤ گئے۔ حکمرانوں کی اپنی خوشامد میں لکھوائی ہوئی تحریروں کو پڑھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم جنت سے بھی کسی اوپر والے مقام میں رہ رہے ہیں اور جب ان ہی شخصیات کا اصل روپ سامنے آتا ہے تو روح صرف کانپتی نہیں مجروح بھی ہو جاتی ہے یہی صورتحال عوام کی ہو چکی ہے ان کی روح ٹوٹ پھوٹ چکی ہے کچھ ماضی کی روحیں ہیں جو اہ و بکا کر رہی ہیں کچھ حال میں تڑپ رہی ہیں اور باقی اپنے مستقبل سے آنکھیں چرا رہی ہیں لیکن ماضی حال اور مستقبل کی روحوں کا شعور زندہ ہے اور نیم مردہ جسموں میں پکار رہا ہے کہ اٹھو اپنا حق مانگو اپنے حق کے لیے لڑو اپنے حق کے لیے گھر نہیں میدان کا انتخاب کرو اپنے حق کے لیے باغی بھی بن جاؤ گے تو غدار نہیں ہیرو بن جاؤ گے۔

یہ سب کچھ نہ کر پائے تو خاک ہو جاؤ گئے اور کوئی نام تک نہ ہو گا۔ عوام کو حق مانگنے کے لیے نہ تو سڑکوں پر آنے کی ضرورت ہے اور نہ کسی تحریک یا دھرنے جیسے عمل کو دہرانے کی کوشش کا حصہ بننا چاہیے عوام اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے سڑکوں پر کس کے لیے آئیں سب رہنماؤں نے تو عوام کو استعمال کیا اور پھر چینلز کی بھر مار نے جس طرح سیاسی رہنماؤں کی کوریج کی ہے وہ ان کے حق میں جانے کی بجائے ان سیاسی زعما کے خلاف ثابت ہوئی یہ لوگ چینلز پر تواتر سے آ کر اپنی اہمیت کھو چکے اور اس کی وجہ بہت سادہ سی ہے کہ ان کے پاس کسی قومی مسئلے کا نہ پارلیمنٹ اور نہ میدانوں میں حل موجود ہے جیسا کہ پہلے بھی کہا کہ یہ بھی ایک عام مزدور کی طرح گھر سے صرف دیہاڑی لگانے نکلتے ہیں مزدور تو پھر بھی محنت کر کے اپنے خون پسینے سے حلال کی روزی کما کر اپنا کنبہ پالنے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ عوامی نمائندے اسمبلی میں جعلی حاضریاں میڈیکل بل ٹی اے ڈی اے سفری واؤچر حکومتی خزانے سے لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں یہ اتنے ایماندار ہیں کہ اپنے فنڈز پر بھی کمشن حاصل کرتے ہیں۔

کیا ایسے ہوتے ہیں قوموں کے رہنما کیا ایسے ہوتے ہیں رہبر جی نہیں یہ نہ تو ہمارے رہنما ہیں اور نہ ہی رہبر۔ شاعر نے ایسے ہی رہنماؤں پر کہا ہے۔ سر آنکھوں پر اس کو بٹھا لیتے ہیں اکثر۔ جس کے کسی وعدے میں صداقت نہیں ہوتی۔ عوام کو اب فیصلہ کر لینا چاہیے اگر یہ طبقہ اب الیکشن کی تیاری کر رہا ہے تو عوام کو بھی بھر پور تیاری کرنی چاہیے آنے والے الیکشن میں عوام اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں جب یہ حکومت پانچ سال پورے کرے گی تو عوام کو ایک ایسا موقع ملے گا جس میں وہ اپنی قسمت کو بدلنے کے لیے بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں قوم نے گزشتہ چند سالوں میں ملکی لیڈر شپ کو قریب سے دیکھ لیا احتجاج دھرنوں مظاہروں سڑکوں کو بند کر کے تقدیر نہیں بدل سکی اور نہ ہی اپوزیشن کے احتجاج میں تاریخی بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باوجود عوام احتجاج میں شامل ہوئے۔

عوام کا احتجاج میں شامل نہ ہونا سیاسی جماعتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے عوام کی عدم شرکت صرف اپوزیشن کے ساتھ نہیں اس سے حکومتی پارٹی بھی متاثر ہے اور اس بات کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ حکومتی جلسوں میں ان کے ہی مخالف نعرے لگتے ہیں۔ عوام وعدوں امیدوں کے سہانے خوابوں سے بیزار ہو چکے ہیں لیکن کوئی ایسا راستہ نہیں مل رہا کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کر سکیں۔ عوام کو اپنا حق لینے سڑکوں پر آنے کی بجائے اپنے اظہار کے طریقے کو تبدیل کرتے ہوئے سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات میں مقامی سطح پر ایسے نمائندوں کو منتخب کرنا چاہیے جو ان کے مسائل کو سمجھتے ہوں اگر عوام بلدیاتی انتخابات میں درست فیصلہ کر پائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ دو سال بعد عوامی حمایت سے نئی قیادت سامنے آئے گی عوام کو ملک کے وسیع تر مفاد میں کسی سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر ابھی سے احتجاجی تحریک چلانے کی بجائے روایتی سوچ میں تبدیلی کی تحریک چلانی چاہیے۔

عوام کو تھانے کچری کی سیاست سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے حق کے لیے میدان میں آنے کی ضرورت ہے عوام فیصلہ کر لیں کہ کسی ایسے شخص کو وہ ایک بھی موقع نہیں دیں گے جو عوام کے علاوہ کسی اور کے مفاد کے لیے کام کرے گا۔ عوام ایسا تبھی کر سکیں گے کہ وہ نئی قیادت لا کر اپنی منفی سرگرمیوں کو پانچ سال کے لیے ختم کر کے صرف اور صرف ملک کی ترقی کے لیے پوری طاقت سے زور لگا دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کا حق نہ مل سکے۔ بس شاعر کے اس خیال کی طرح ایک جستجو ضرور کرنی چاہیے۔ ہر شخص کفن سر پہ باندھ کر نکلے۔ حق کے لیے لڑنا بغاوت نہیں ہوتی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments