جسٹس اطہر من ﷲ کا حُسن آرزو



گزشتہ دنوں عاصمہ جہانگیر کی یاد میں ہونے والی کانفرنس اچانک سیاسی رنگ اختیار کر گئی۔ اِس تبدیلی کے محرک عدلیہ بحالی کی تحریک میں فعال کردار ادا کرنے والے‘ ایک وکیل علی احمد کُرد تھے۔ اُن کے پُر جوش مگر متنازع خطاب نے شرکاء کی تقریروں کا رُخ تبدیل کر دیا۔ مقررین میں چیف جسٹس اسلام ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ بھی تھے۔ اُنہوں نے اپنی گفتگو میں پاکستان کی عدالتی تاریخ کے اہم موڑ یاد دلائے۔ ذکر کیا کہ جب وہ 2000 میں وکیل تھے‘ پرویز مشرف نے نئے آئینی انتظام کے تحت ججوں کو حلف لینے پر مجبور کیا۔ اعلیٰ عدلیہ میں پٹیشن دائر کی گئی۔ استدعا تھی کہ آئین کے تحت حلف اُٹھانے کے بعد نیا حلف‘ پہلے حلف کی خلاف ورزی تصور ہو گا۔

اُن کی تقریر کے دوران‘ وکلا ہیجانی انداز میں عدلیہ کی آزادی اور غیر آئینی اقدامات کی مخالفت میں نعرے لگا رہے تھے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے شرکا سے اُن ججوں کے نام پوچھے جنہوں نے حلف اُٹھانے سے انکار کیا تھا مگر شاید اِس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ کانفرنس میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان کی عدالتی تاریخ کے اُن مشہور فیصلوں کا ذکر کیا جو ہمارے ملک کے مستقبل پر اثر انداز ہوئے مگر دونوں کے خطاب میں ایک فرق تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ ہر فیصلے کا تذکرہ کرتے ہوئے وکلاء سے سوال کرتے رہے۔ مثال کے طور پر اُنہوں نے 1954میں گورنر جنرل غلام محمد کے فیصلے کا حوالہ دیا جس کے ذریعے اُنہوں نے قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیا تھا۔ اِس کے خلاف اسپیکرمولوی تمیزالدین نے سندھ چیف کورٹ سے رجوع کیا۔ گورنر جنرل کا فیصلہ کالعدم قرار پایا۔ حکومت نے اپیل کی اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس منیر نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو رد کر دیا۔ اُنہوں نے وکلا سے پوچھاکہ کیا آپ سندھ چیف کورٹ کے اُن ججوں کے نام گنوا سکتے ہیں جنہوں نے مولوی تمیزالدین کے حق میں فیصلہ کیا تھا۔ شرکاء ایک دفعہ پھر خاموش رہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کے سوال بہت پہلو دار تھے۔ اُنہوں نے آئینہ دکھایا کہ وکلاء عدلیہ کی آزادی کے طلبگار تو ہیں مگر جابر سلطا ن کے سامنے کلمۂ حق کہنے والوں کا نام تک یاد نہیں رکھتے۔ خواہش ہے کہ جج پی سی او کے تحت حلف نہ لیں مگر جنہوں نے غیر آئینی اقدام سے انکار کرتے ہوئے اپنا منصب قربان کردیاوہ بہت آسانی سے بھُلا دیے گئے۔ کانفرنس کے دوران پُرسش تو وکلاء سے ہوئی‘ مگر اُن سوالوں نے عمومی طور پر تمام پاکستانیوں اور خصوصی طور پر دانشوروں کو دعوتِ فکر بھی دی۔

جسٹس اطہر من اللہ کے سوالوں سے اُن کا حسن آرزو ظاہر ہوا۔ میری ناقص سمجھ کے مطابق‘ وہ توقع کرتے ہیں کہ کلمۂ حق کہنے والوں کے فیصلوں اور منصب کی قربانی دینے والوں کی مثال‘ ہمارے سماج اور عدالتی پیشہ سے منسلک افراد کے لئے مشعل راہ ثابت ہو‘ ورنہ عدلیہ کی آزادی کے حق میںوکلاء کے نعرے کھوکھلے اور بے جان تصور کئے جائیں گے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِس آرزو کی تکمیل کے لئے ادارے اور عوام کیا کر سکتے ہیں؟ حکومت کے ہاتھ عام طور پر بندھے ہوتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کبھی کسی حکومت نے درسی کتب میں عدلیہ کے درخشاں فیصلوں کا ذکر مناسب نہیں سمجھا۔ حکومت ہر سال 14اگست کو اعلیٰ کارکردگی پر ایوارڈ کا اعلان کرتی ہے۔ مختلف شعبوں میں حسنِ کارکردگی اور کارناموں پر انعامات کی نوازش ہوتی ہے۔ گلے میں تمغے ڈالے جاتے ہیں مگر آج تک کبھی کسی ریٹائرڈ جج کی جرأت انکار کو لائقِ تحسین تو درکنار‘ قابلِ توجہ بھی نہیں سمجھا گیا۔ جسٹس اطہر من اللہ ایک طرف تو سول سوسائٹی سے شکوہ کناں ہیں کہ غیر آئینی انتظام کو خاموشی سے قبول کیا جاتا ہے‘ دُوسری طرف اُن کے حسن آرزو کا تقاضا ہے کہ قوم جبر کے سامنے سر جھکانے والوں کی بجائے‘ کلمۂ حق کہنے والوں کی راہ اپنائے۔

اِس ضمن میں مجھے ’’ہال آف فیم‘‘ Hall of Fameیاد آیا جس کے ذریعے قوم اپنے محسنوں کو یاد رکھنے کی سبیل کر سکتی ہے۔ ہال آف فیم کا اجرا پہلی دفعہ 1890میں نیو یارک یونیورسٹی سے ہوا۔ اُن کھلاڑیوں کی تصویریں لگائی گئیں جن کی کارکردگی نے یونیورسٹی کی شہرت میں اضافہ کیا۔ بعد ازاں کچھ اور درسگاہوں میں اعلیٰ کارکردگی کے حامل اساتذہ کو بھی ہال آف فیم میں شامل کیا گیا۔ 1986میں موسیقی سے جُڑی شخصیتوں نے بھی متعلقہ اداروں کے ہال آف فیم میں جگہ پائی۔ کرکٹ ایک مقبول عام کھیل ہے۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے اپنے دبئی ہیڈ کوارٹر میں 2جنوری 2009ء کو ہال آف فیم قائم کیا۔ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم‘ عمران خان کے علاوہ جاوید میاں داد‘ حنیف محمد‘ وقار یونس‘ ظہیر عباس اور وسیم اکرم اپنی اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر ہال آف فیم میں شامل کئے گئے۔ پاکستان میں ہر ایوانِ عدل کے ساتھ وکلاء کے بار روم بھی موجود ہیں۔ کیا کبھی وکلاء کی آزاد منش تنظیموں نے غور کیا ہے کہ قابل فخر منصفین کی تصاویر سے آراستہ ایک ہال آف فیم یا کوچۂ شہرت قائم کیا جائے۔

عالمی سطح پر مختلف ممالک اور اداروں میں جہاں ہال آف فیم بنائے گئے ہیں وہاں کئی جگہ ’’ہال آف شیم‘‘ بھی قائم ہیں۔ اِس مخصوص جگہ میں اِن شخصیات اور تخلیقات کا ذکر ہوتا ہے جو باعثِ ندامت سمجھی جائیں۔ میں نے احتیاطاً ہال آف شیم یا کوچۂ رُسوائی قائم کرنے کا ذکر نہیں کیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کی تقریر میں جنوری 2000کی تقریب کا ذکر تھا۔ ساتھ ہی لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کی حلف برداری کا انتظام بھی ہوا۔ بطور صوبائی سیکرٹری‘ میں گورنر ہائوس لاہور کی تقریب میں شامل تھا۔ پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے کے بعد ایک معزز جج صاحب میرے پاس آئے۔ میری اُن سے پرانی شناسائی تھی۔ اُنہوں نے فرمایا کہ وہ چھُٹی پر نیویارک میں تھے۔ رُخصت میں ابھی کچھ دن باقی تھے ‘مگر تین دن پہلے رات کے وقت اچانک یہ خیال آیا کہ اگر اُن کی عدم موجودگی میں پی سی او کے تحت دوبارہ حلف لینے کے لئے بلایا گیا تو عدم موجودگی سے نقصان کا احتمال ہے۔ شاید بعد میں موقع نہ دیا جائے۔ یہ خیال آتے ہی وہ ایئر پورٹ پہنچے اور اُن کے مطابق ’’اللہ کا خاص کرم تھا کہ فوری فلائٹ کی ٹکٹ مل گئی‘‘۔ وہ حلف اُٹھانے کے لئے بروقت پاکستان پہنچ گئے۔

اُن کی بات سُن کر دل سے بےاختیار یہ دُعا نکلی کہ اللہ ہم کمزور بندوں کو آزمائش سے محفوظ رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments