واعظوں میں یہ تکبر کہ الہی توبہ


ہم چاہے ایک غریب قوم سہی، مگر ہم زندہ قوم ہیں۔ ہم ایک امن پسند قوم ہیں۔ ہم انصاف پسند قوم ہیں۔ ہم ایک رحم دل قوم ہیں۔ عاجزی ہماری پہچان ہے اور اب تو ہم اول درجے کی ”مہمان نواز“ قوم بھی بن گئے ہیں۔ مگر بد قسمتی سے یہ ساری خصوصیات ہماری تقریروں، نظموں، ملی نغموں اور خاص کر وعظوں میں پائی جاتی ہیں۔ علامہ اقبال نے اسی لیے فرمایا تھا کہ

”واعظوں میں یہ تکبر کہ الہی توبہ“

بے شک ہم ایک امن پسند قوم ہیں مگر ہمیں امن وہاں چاہیے جہاں ہم طاقت سے محروم ہیں۔ بے شک ہمیں سکون چاہیے مگر ہمارے اندر کا درندہ وہاں سکوت چاہتا ہے جہاں اس سے بھی زیادہ دھاڑنے والے، چنگھاڑنے والے اور بھونکنے والے اس کی گردن پر پاؤں رکھے ہوئے ہیں۔ بے شک ہم انصاف پسند قوم ہیں مگر ہم تب تک انصاف پسند رہتے ہیں جب تک ہماری ظلم اور شدت پسند طبیعت وہ مقام حاصل نہیں کر لیتی جہاں ہم اپنی مرضی کے انصاف کی مے کشید کر کے ظلم کا نشہ کر سکیں۔

ہمیں دولت والوں کے بے رحمانہ رویے سے بے پناہ نفرت ہے جبکہ دولت حاصل کرنے کا جنون اس قدر کہ دوسروں کے حصے کا بھی چھین لینا اپنا حق سمجھتے ہیں، ہمارے دل میں رحم تو ہے مگر صرف اتنا کہ صرف خود پہ ہی ترس آتا ہے۔ ہمارے لہجے میں مکاری بھری عاجزی ہماری کمزوری کی وہ خصوصیت ہے جو ہمیں منافقت کی معراج بخشتی ہے۔ خود کو کئی پردوں میں چھپا لینے کا فن ہی ہمیں معاشروں میں عزت و احترام بخشتا ہے۔ ہم اپنے مذہبی عقائد کو وہاں امن کا مرکز ثابت کرتے ہیں جہاں امن مذہبی عقائد کا مرکز ہوتا ہے۔ ہم اپنے حواس خمسہ کے غلام، آزادی کا مطلب جانے بغیر آزادی کی خواہش کی تکمیل کے لیے روزانہ انگنت بوجھ اٹھائے موت کی راہوں پر گامزن، دوسروں کے سچ کو جھوٹ اور اپنے جھوٹ کو سچ جانے صرف طاقت کو ہی دلیل سمجھتے ہیں اور جہاں طاقت دلیل ہو وہاں کمزور امن پسند ہوتا ہے۔

پہلے لگتا تھا کہ ہم خود پسندی کا شکار ہیں لیکن اب یہ جانا کہ ہم خود پسندی کا نہیں بلکہ ایک بیماری کا شکار ہیں۔ ایک ایسی بیماری جس میں دو ٹانگوں والے حیوان خود کو انسان سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس بیماری کی سب سے واضح علامات میں سے ایک علامت اپنے سوا سب کو حیوان بلکہ موذی حیوان سمجھنا ہے۔ اس بیماری میں شدت تب آتی ہے جب خود کو انسان سمجھنے والا حیوان سب کو یا تو پالتو بنا کر اپنے عقائد یا نظریات کا پٹہ اس کے گلے میں ڈال کر رکھنا چاہتا ہے یا جو پالتو نہ بن سکے اسے ذبح کر کے اپنے عقائد کی حقانیت کو ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اس بیماری کا مبدا معلوم نہیں ہو سکا مگر احتمال ہے کہ ازل سے کسی نہ کسی صورت میں یہ بیماری موجود رہی ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی ہوئی ارتقاء کے کئی مراحل طے کرنے کے بعد آج کی بدترین شکل میں موجود ہے۔

ایک محاورہ استعمال ہوتا ہے جنگل کا قانون۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں تو جنگل کا قانون بھی نافذ نہیں۔ زہرا نگاہ نے کیا خوب کہا کہ

” سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے۔

مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments