نعرہ لگ چکا ہے، اعلان ہو چکا ہے، لوگ نکل پڑے ہیں، پیچھے ہٹ جاؤ، بیچ بچاؤ بے سود ہے، اب کچھ نہیں ہو سکتا، اف۔ کبھی جون کا مصرعہ ’سب کو سبھی سے خطرہ ہے‘ یاد آتا ہے اور کبھی عرفان خان کا ڈائیلاگ ’مرنا تو پڑے گا بھئی‘

پتہ نہیں سیالکوٹ کے ہجوم بلاخیز میں کوئی ’ترکھاناں دا منڈا‘ تھا یا نہیں، کون ’گلاں کردا رہیا‘ اور ’کون بازی لے گیا‘ کون کیس لڑے گا، اور کون بازی ہار گیا اس کا فیصلہ تو جانے ہو نہ ہو، فی الوقت تو وہ شخص جان سے گیا جسے اردو آتی تھی نہ عربی، انگریزی میں ہی معافیاں مانگتا رہا اور ضعیف ماں نے کل ہی ہڈیوں اور راکھ سے بھرا تابوت وصول کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اتنے لوگوں میں کوئی بھی نہیں تھا جو ہجوم سے ہٹ کر بات اور ایکٹ کرتا، یقیناً ایک دو تھے، جن کو میڈیا پر لایا جا چکا ہے، تاہم سوال یہ بھی ہے کہ سینکڑوں میں صرف ایک دو، آخر وجہ کیا ہے، وجہ ہے اور پھر اس وجہ کی وجوہات بھی۔

مائن فیلڈ اس مخصوص ایریا کو کہتے ہیں جہاں بارودی سرنگیں بچھائی گئی ہوں۔ ایسا زیادہ تر جنگی مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے اور ہدف دشمن ہوتا ہے۔ عام طور پر جنگ ختم ہونے کے بعد اس ایریا کو صاف کر دیا جاتا ہے اور جب تک ایسا نہیں ہو جاتا، تار اور انتباہی بورڈز لگا دیے جاتے ہیں۔

زمین سے بارودی سرنگ تو کیا ہر اس چیز کو اکھاڑا جا سکتا ہے جسے بویا جائے، مگر ذہن میں کچھ بو دیا جائے تو نکلنا مشکل، آس پاس سے ’گوڈی‘ ہوتی رہے تو پھر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ بارودی سرنگ کی دبتی پن بن جاتا ہے، جس کا بھی پیر آئے گا، اڑے گا جبکہ کوئی انتباہی بورڈ ہے، نہ صفائی کا کوئی انتظام۔

یہ ایک لمبی کہانی ہے کہ ذہنوں میں ایسی پنز کیسے لگیں اور انہوں نے دبنا کب ہے، تاہم یہ سوال بھی اہم ہے کہ یہ پنیں کس نے لگائیں اور پنپائیں، تو اس کی پنیری کے بارے میں تو سب کو پتہ ہی ہے فی الوقت واقعے سے چند سال قبل اور بعد کی بات کریں گے کہ اس دوران کس نے اس میں حصہ ڈالا اور کس نے مائنڈز کو مائنز میں بدلا؟

دل دہلا دینے کا مقام ہے کہ اس دلخراش واقعے کے بعد بھی سرنگیں بچھنے کا سلسلہ نہیں تھما، جس میں سب جانے انجانے حصہ ڈال رہے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ارادتاً مقصد یہی ہو، تاہم مطلب کچھ ایسا ہی نکل رہا ہوتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے سی سی پی او نے موٹر وے سانحے کے بعد کہا تھا خاتون اکیلی نکلی ہی کیوں۔

چونکہ، چنانچہ، اگر، مگر ظالم الفاظ ہیں جو جملے کی دھار اور سوچ کا دھارا بدل دیتے ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کس نے ایسا کیا اور بات کیا سے کیا ہوئی؟
اس وقت خود کو جمہوریت کی سب سے بڑی علامت سمجھنے والے مولانا فضل الرحمان بھی انہی میں سے ہیں۔

انہوں نے ٹویٹ کرتے لکھا ’سیالکوٹ میں پیش آنے والا واقعہ قابل مذمت ہے، تحقیقات ہونی چاہیے، ریاست اگر توہین کے ملزمان کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی تو اس قسم کے واقعات تو ہوں گے۔ ‘

یعنی انہوں نے ساتھ ہی جواز بھی فراہم کر دیا کہ چونکہ ایسا ہوا، اس لیے یہ ہوا اور آخر میں انہوں نے حملہ آوروں کو اچھا خاصا عذر بھی عطا کر دیا۔

جبکہ وزیر دفاع پرویز خٹک نے تو ایسے پنز چھڑکی ہیں جیسے کھیت میں کھاد۔ ان کے یہ الفاظ کہ ’چونکہ جوانی میں جوش ہوتا ہے تو ایسے اقدام ہو جاتے ہیں۔ ‘ بھی پن ہی ہیں۔

ان کو یقیناً یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اگر یہ ’جوش‘ سٹیج پر ٹھمکے لگانے تک محدود ہو تو قابل قبول ہو سکتا ہے لیکن کسی کی جان لے لینا؟

انہوں نے بھی بلوائیوں کی طرف جواز کا پروانہ اچھالا ہے۔

اسی طرح جنون اس وقت ہمارا پسندیدہ لفظ ہے، جس کا سب سے زیادہ استعمال وزیراعظم کرتے ہیں حالانکہ اس کے معنی پاگل پن اور عقل کھو دینے کے ہیں۔

ایک بہت بڑے مفتی نے مذہب کے نام پر ہونے والے قتل کے بعد قاتل کے بارے میں کہا تھا کہ اگرچہ اس نے غلط کیا لیکن نیت بہرحال غلط نہیں تھی۔ وہی پن

نیت جانچنے کا آلہ کسی کے پاس موجود ہو تو مجھے بھی مطلع کر دے۔

واقعے کے بعد ایک مولوی صاحب رو رو کر کہہ رہے تھے کہ سیالکوٹ والوں نے بڑا ظلم کیا، اگر اس نے گستاخی کی تھی تو مار دیا، جلانے کی کیا ضرورت تھی، یعنی ایک اور دو موئی بلکہ کثیر پہلو پن۔

ایسا کوئی مسلمان نہیں کر سکتا، بھی دلچسپ جملہ ہے حالانکہ جو ایسا کرتے ہیں وہ خود کو سب سے بہتر مسلمان سمجھ رہے ہوتے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی شاید انجانے میں ایسی بات کر جاتے ہیں جو ایسے اقدامات کو جواز بخشتی ہیں۔

مثال کے طور پر کینیڈا میں مقیم ایک سینیئر صحافی جو لبرل ازم کے داعی ہیں، نے پوسٹ کی کہ سیالکوٹ میں مارنے والوں سے نماز سنی جائے اور ٹی وی پر نشر کی جائے۔

انہوں نے طنزاً کہا تھا کہ ان کو نماز بھی نہیں آتی ہو گی جبکہ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ جس کو نماز آتی ہے وہ ایسا کر سکتا ہے۔

اسی طرح یہ جملہ کہ گستاخی نہیں کی تھی یعنی بے گناہ تھا، بھی ایک لحاظ سے یہ کہنا ہے کہ اگر کسی نے کر دی، تو پھر ٹھیک ہے۔

ایسے کسی اقدام پر انڈیا کی مثالیں لانے والے کہ وہاں پر بھی تو مذہب کے نام پر مسلمان قتل ہوئے، بھی دوسرے الفاظ میں یہی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یہاں ہو گیا، تو کیا ہو گیا۔ حالانکہ غلط کام انڈیا میں ہو، نیوزی لینڈ میں یا پھر کہیں اور، درست نہیں ہو سکتا۔

کوئی مانے یا نہ مانے ایک آدھ پن تو وہ بھی گاڑ دیتے ہیں جو کہتے ہیں ایسا کوئی انسان نہیں کر سکتا حالانکہ کرتے ایسا انسان ہی ہیں۔

اسی طرح درندوں کو بدنام کرنا بھی چھوڑ دیجیے وہ ایسا نہیں کرتے، وہ ایک قدرتی نظام کے تحت شکار کرتے ہیں اور ان کے لیے یہ ایسے ہی ہے جیسے ہمارے لیے کام کر کے پیسے کمانا۔

اپنے ارد گرد دیکھیے آپ کو بس میں، تھڑے پر، آفس میں اور سب سے بڑی بات ٹی وی سکرینز پر ایسے لوگ ملیں گے، جو بارودی سرنگوں کی پنز اچھالتے نظر آئیں گے۔

ایک نظر خود پر بھی ڈالیے کہ کہیں آپ بھی تو ایسا نہیں کر رہے؟

انتخابی بینرز پر مختلف جذباتی مذہبی ’خطابات‘ لکھوانے والے کچھ اور کر رہے ہیں اور نہ سیاسی مقاصد کے لیے خاموشی اختیار کرنے والے، اور نہ وہ اینکرز جن بے چاروں کی نہ کوئی رائے ہوتی ہے نہ اتنی جرات کہ سیاسی وابستگیوں اور سکرپٹ سے ہٹ کر بول سکیں۔

پہاڑوں میں اور سڑکوں پر شدت پسندی کے مظاہرے کرنے والوں کے ساتھ حکومت مذاکرات و معاہدے کرے گی تو بھی شدت پسندانہ خیالات کو مہمیز لگتی ہے۔

کاش کہ یہ جملہ بولا جا سکتا کہ اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا، وقت بھنچی مٹھی سے سرکتی ریت کی طرح نکل چکا ہے، شاید چند ذرے شاید باقی ہوں۔

آہ۔ ہم شکستہ پاؤں بارودی سرنگوں کے درمیان چل رہے ہیں، جو پن دبنے پر ہی نہیں الفاظ سے بھی پھٹ سکتی ہیں، اس لیے تول تول کر بولیے، پھونک پھونک کر قدم رکھیے اور سوچ سوچ کر اٹھائیے تاکہ بچت ہو بے وقت ’اٹھنے‘ سے، ورنہ مرنا تو پڑے گا بھئی