سانحہ سیالکوٹ کے دو اہم پہلو


کالم لکھ چکا تو سانحہ سیالکوٹ کی اطلاع ملی۔ اطلاعات ہیں کہ سیالکوٹ کی ایک مشہور فیکٹری میں سری لنکا سے تعلق رکھنے والے ایک غیر مسلم کو مبینہ توہین رسالت کے ارتکاب پر قتل کر کے اس کی نعش کو آگ لگا دی گئی، بلکہ جو ویڈیوز موصول ہوئیں اس میں جلائے جانے کے بعد بھی مقتول کے منہ پر لوگوں کو ٹھڈے مارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ دل نے مجبور کیا کہ اس حساس مسئلے پر قلم اٹھایا جائے، حالانکہ کسی واقعہ پر اس وقت تک ایک جاندار کالم لکھنا ممکن ہے اور نہ ہی مناسب جب تک اس واقعہ سے متعلقہ تمام کڑیاں باہم مربوط اور مکمل شواہد تک دسترس نہ ہو، لہٰذا میں تو کسی قسم کا فیصلہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں اور نہ ہی میرا یہ کام ہے البتہ حکومت، محققین، علماء اور عوام کی توجہ اس واقعہ کے دو اہم پہلوؤں کی جانب مبذول کرانا چاہوں گا۔

پہلا پہلو: اسے علماء سے ایک سوال بھی سمجھ لیں اور وہ یہ کہ کیا کسی متعلقہ جرم پر کسی لاعلم انسان پر حد لاگو ہو سکتی ہے؟ دور رسالت میں توہین رسالت پر جن حضرات کو قتل کیا گیا کیا وہ لاعلم تھے؟ نہیں! بلکہ انہیں اس مسئلے کی حساسیت کا مکمل ادراک اور شعور تھا۔ نبی کریم ﷺ وہیں مبعوث ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی رسالت کا اعلان کیا۔ ان کی زبان عربی تھی اور ان کے اولین مخاطب بھی عرب تھے۔ جن لوگوں کو قتل کیا گیا ان کی زبان بھی عربی تھی۔

پھر یہود کے پاس سابقہ کتابوں کا علم بھی تھا، جس میں نبی پاکﷺ کی رسالت کی بشارتیں موجود تھیں۔ قریش مکہ ان سے بھی پوچھتے تھے اور عرب ہونے کی وجہ سے خود بھی قرآن سمجھنے پر قادر تھے، یعنی وہ ہر حوالے ناموس رسالت اور اس کی حساسیت سے آگاہ تھے۔ پھر جب ان سے یہ جرم ہوا تو انہیں قتل کیا گیا۔ کیا علماء کوئی ایک نظیر بھی پیش کر سکتے ہیں کہ کسی پر کسی ایسے جرم کی حد نافذ کی گئی ہو، جس کا اسے پتا ہی نہ ہو کہ آیا یہ جرم بھی ہے یا نہیں؟

میرا مقصود یہ ہے کہ کیا علم کے بغیر انجانے میں کسی خطا کا سرزد ہونا سزا کو مستلزم ہے؟ اسلام میں تو اس بات کی رعایت بھی ہے کہ بھولے سے کھانے اور پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ دل نہیں مانتا کہ اسلام نے کسی انسان کو اس جرم کی سزا دینے کا کہا ہو، جس کے متعلق اسے علم ہی نہ ہو کہ وہ جرم بھی ہے یا نہیں؟ یہاں قتل ہونے والا ایک غیر مسلم ہے جسے توہین رسالت کے مسئلے کا علم ہی نہیں تھا، لہٰذا مناسب تھا کہ اگر واقعی اس نے ایسا کیا تھا تو اسے سمجھایا جاتا جیسا کہ نبی کریمﷺ نے مسجد میں پیشاب کرنے والے بدو پر حد نہیں لگائی تھی، بلکہ اسے قولا ً اور فعلاً سمجھایا تھا کہ ریڈ ایریا ہے، جہاں پر اس طرح کی قبیح حرکت نہیں کرنی چاہیے۔ لہٰذا میری حکومت اور ان مالکان سے التجا ہے، جن کے یاں کوئی غیر مسلم کام کرتا ہو کہ وہ انہیں کم از کم ان ریڈ ایریاز کا ضرور بتا دیں تا کہ کسی قسم کا کوئی سنگین مسئلہ درپیش نہ آئے۔

سانحہ سیالکوٹ کا دوسرا پہلو بھی درحقیقت علماء سے سوال ہی ہے اور وہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ پہلو زبان سے متعلق ہے۔ شنید ہے کہ قتل ہونے والے منیجر پر الزام لگایا ہے کہ اس نے ایک اشتہار پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں ڈالا جس پر مقدس نام، کلمات اور روضہ انور کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ یہاں ایک انتہائی اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس منیجر کو پتا تھا کہ اس اشتہار میں کیا لکھا ہے؟ میرا ذاتی خیال یہ ہے جو کہ ایک اصولی بات بھی ہے کہ اگر وہ لمبے عرصے سے پاکستان میں رہ رہا تھا تو یہ تو ممکن ہے کہ وہ اردو سمجھ سکتا ہو، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ٹوٹی پھوٹی اردو بول بھی سکتا ہو، لیکن یہ ممکن نہیں کہ اسے اردو کی کوئی عبارت پڑھنی بھی آتی ہو۔

بولنا اور سمجھنا ماحول پر مدار کرتا ہے لیکن ریڈنگ سکلز کا تعلق ماحول سے نہیں، بلکہ باقاعدہ تعلم سے ہے۔ لہٰذا اگر اس نے واقعی اشتہار پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینکا تھا تو جب اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ اس میں کیا لکھا ہے تو اسے کیونکر قصوروار قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس نے اسے ایک عام مشہوری والا پوسٹر سمجھ کر معاملہ کیا ہو گا۔ رہی بات نبی اکرم ﷺ کے روضہ انور کی تصویر مبارک کی تو یہاں بھی بنیادی سوال علم اور جان پہچان کا ہے کہ آیا اسے یہ پہچان تھی کہ یہ تصویر کس ہستی کے مزار کی ہے اور اس کا اسلام میں کیا مقام ہے؟ عمداً او خطاً اسلام کا ایک بنیادی فلسفہ ہے جسے ہر حال میں ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے اور اس پر اسلام کے اہم فیصلوں کا مدار ہوتا ہے۔

البتہ یہ سوال تو کرنا ہی فضول ہے کہ آیا سزا دینے کے تمام تر ضابطے پورے کیے گئے تھے یا نہیں، کیونکہ اس سے پہلے یہ سوال آتا ہے کہ کسی بھی انسان کو سزا دینے کا اختیار عوام کو کس نے دیا ہے اور انسان بھی وہ جس کے مجرم ہونے کا ابھی تعین بھی نہ ہو سکا ہو اور مزید یہ ہے کہ عدالتیں لگانا عوام کا کام ہے یا قاضیوں کا؟ آخر میں علماء اور حکومت سے گزارش ہے کہ اس مسئلے کی حساسیت کے پیش نظر عوام میں اس کا درست ابلاغ انتہائی ضروری ہے تا کہ نہ تو کوئی قانون ہاتھ میں لے، نہ ہی ناحق کسی کی جان ماری جائے اور نہ ہی ایسے مشتعل لوگوں کی وجہ سے اسلام اور ملک پاکستان کی بدنامی ہو۔ خلاصہ کلام یہی ہے کہ کیا انجانے اور لاعلمی میں کیے گئے کسی جرم اور کسی چیز کی شناخت نہ ہونے کی وجہ سے سہواً اس کی بے ادبی پر سزا بنتی ہے؟

پس نوشت: یہ دونوں پہلو اس لحاظ سے ذکر کیے گئے ہیں جب مقتول نے واقعی ایسا کیا ہو جیسا بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ دونوں پہلو میرا ذاتی نقطہ نظر اور تحقیق ہے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہوئے ان کو سپرد قلم کیا ہے۔ اگر علماء اور محققین رائے دینا چاہیں تو ایمیل پر ان کا پیشگی خیر مقدم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments