زندگی اور موت کے درمیان ادھوری تحریر


خواہشیں ختم بھی ہو جائیں تو باقی رہتی ہیں۔ سوچ کے کسی کونے کھدرے میں سسکتی ہوئی بظاہر نہ دِکھنے والی خواہشیں۔ جیسے میں چاہتا ہوں کہ جب میرا وقت آئے تو زیادہ دیر نہ لگے۔ اذیت کے یا بےخودی کے لمحے طویل نہ ہوں۔ حالانکہ میں خواہشات سے اوپر نکل آیا ہوں، اب میری نہ کوئی خواہش باقی ہے نہ کوئی آرزو۔ یہ جو میں زندہ ہوں تو خواہش کے تحت نہیں بلکہ مجبوری سے، موت نہ آنے کی مجبوری۔ پھر بھی میں گھسٹنا نہیں چاہتا۔ جان لیوا بیماری کے ہاتھوں بے دست و پا نہیں ہونا چاہتا۔ یہ بھی تو خواہش ہی ہے۔ چلو خواہش ہی سہی مگر میں جلد مرنا چاہتا ہوں۔ ایک دم اور یک بہ یک بھی نہیں کہ صاحبانِ نظر نے اچانک موت سے پناہ مانگی ہے۔ اتنا وقفہ تو ہو جتنا دروازے پر دستک اور اندر بستر میں گھسے شخص کا اٹھ کے دروازہ کھولنے کے بیچ ہوتا ہے۔ انتظار نہ ہو بس، موت کا انتظار۔ یہ مرحلہ اگر طویل ہوجائے تو بہت کٹھن ہوجاتا ہے۔ میں تو بس لکھتے لکھتے گزر جانا چاہتا ہوں۔ کیا خوب ہو کہ کسی روز میں لکھ رہا ہوں اور میرے کمرے کے سال خوردہ دروازے پر دستک ہو۔ میں قلم رکھ کر دروازے تک پہنچ کے اندر سے پوچھوں “کون؟”
جواب آئے “سمن تعمیل کروانے ہیں۔”
دروازے کا پَٹ کھولوں تو ہرکارہ کہے”میاں تمہاری طلبی ہے، اپنا کاغذ قلم سمیٹ لو۔ کوئی ایک آدھ جملہ رہتا ہے تو تحریر مکمل کرلو، تمہیں ساتھ ہی لے کر آنے کا حکم ہوا ہے”۔
میں کہوں “تحریر کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ اگر ایسی دس زندگیاں اور بھی مل جائیں، تب بھی کوئی تحریر مکمل نہیں کرپاؤں گا۔ بس مجھے اپنا”قلم بند” کرنے کی ذرا سی مہلت دو”۔
تحریر بھی کبھی مکمل ہوئی ہے بھلا؟ کیسا ہی کھوج کے اور تحقیق میں کیسی ہی جان مار کے لکھی ہوئی تحریر ہو، آنے والے زمانے کے انکشافات اس پر نامکمل کی مہر ثبت کیا کرتے ہیں۔ پھر پتہ نہیں کیوں لوگ اپنی ادھوری تحریروں پر اِتراتے ہیں۔
یہ کمرہ جہاں میری چٹائی بچھی ہے اور جس کے بالیں میل سے سیاہ پڑتے دو تکئے ہیں۔ اس چٹائی کے گردا گرد کتابیں ہی کتابیں ہیں اور کاغذ ہی کاغذ۔ لکھے، ان لکھے کاغذ۔ تنگ اور کھلی لائنوں والے، کچھ بغیر لائنوں کے خالی کاغذ ہیں۔کاغذ سفید ہیں مگر ان پر گرد اور وقت کہ تہہ چڑھ چکی ہے اور ان میں پیلاہٹ سی بھر آئی ہے۔ یہ ویسی ہی سفیدی بھری پیلاہٹ ہے جو مرنے کے بعد میرے چہرے اور ہاتھوں اور پیروں کی جلد پر بھی چڑھ آئے گی۔ میں بھی وقت کی مار کھایا ہوا کاغذ بن جاؤں گا۔
کتابوں، پنسلوں اور کاغذوں کے علاوہ اس کمرے کا کل اثاثہ یہ چٹائی، دو تکیے اور بوسیدہ ہوچکی لکڑی کی الماری ہے جس میں جالیاں لگی ہیں اور چند برتن پڑے ہیں۔ اس کی لکڑی پر کبھی پالش کی گئی ہوگی، اب تو یہ میرے ہاتھوں کی مَیل لگ لگ کر سیاہ پڑ چکی ہے۔ اس کے اندر لکڑی ہی کے تختے شیلفوں کے طور پر لگے ہیں۔ سب سے اوپر والے تختے پر نیلے رنگ کے بہت سے لفافے ایک پوٹلی کی صورت بندھے رکھے ہیں۔یہ اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ میں بھی کبھی کسی کے التفات کا مرکز تھا۔ یہ خط ہیں میرے دوستوں کے، عزیزوں کے اور ان کے جن کو آگے بڑھانے کو میں نے خود کا خیال نہ کیا۔
ایک وقت تھا وہ مجھے خط لکھتے تھے، کبھی کبھار ٹیلی فون بھی کر لیتے تھے۔ اب تو مدت سے کسی نے خبر نہیں لی۔ اس کوٹھری کے آگے اک تنگ داماں سا صحن ہے جس کی ایک نکڑ میں غسل خانہ ہے اور دوسری میں ایک چھپر تلے دھرا چولہا، توا، ہانڈی اور مٹی کے کچھ دیگر برتن۔ میں ہمیشہ سے اس تنگ مکان کا مکین نہیں تھا مگر ہمیشہ سے یہیں رہ رہا ہوں۔یہ دیواریں، یہ صحن اور بیرونی دروازے کے بائیں جانب موتئے کا وہ پودا میرے ساتھ ہی پیدا ہوئے تھے اور ہم سب کو ایک ساتھ ہی موت آئے گی۔ موتئے کا یہ پودا اس مکان کا واحد سبزہ ہے اور واحد خوشبو۔ وگرنہ یہاں ہر طرف ایک پیلی سفیدی کا راج ہے اور اس پیلاہٹ سے موت کی تاریکی اٹھتی ہے۔ میں سوچتا ہوں موتیے کا یہ ننھا سا پودا کب تک زندگی کے موہوم رنگ اور خوشبو کے ساتھ موت کی بےرنگی کا مقابلہ کرے گا۔آخر موت کو ایک روز جیت جانا ہے۔کیسی بھی جدوجہد کر لے، زندگی کو کبھی نہ کبھی ہتھیار ڈالنے ہی ہیں۔ پھر میرے کلبہ احزاں میں تو زندگی یوں بھی بہت کمزور ہے۔ اپنے ہونے کی جنگ لڑتی ہوئی زندگی۔
مجھے اب کوئی خواہش نہیں، کوئی امید نہیں۔ اتنی مرتبہ امید ٹوٹی ہے کہ اب امید کا ذائقہ ہی بھول چکا ہوں۔ تاہم یہ جو وقت کی مار کھائے ہوئے پیلے پیلے کاغذ میرے ارد گرد پھیلے ہیں، ان سب پر لکھنا چاہتا ہوں۔انہیں اپنے قلم کی سیاہی سے روشنائی دینا چاہتا ہوں۔ ان پر سارا حال کہنا چاہتا ہوں۔ ادھورا حال، ادھوری تحریریں۔ جتنا سچ میں نے پایا اتنا ہی آدھ ادھورا سچ اور باقی سارا جھوٹ۔ وہ جھوٹ جو ہوسکتا ہے کل کا سچ ہو اور آج کا سچ جو ممکن ہے کل کو جھوٹ ثابت ہو۔ سب لکھنا ہے مجھے۔ مدتوں سے خالی پڑے یہ پیلے کاغذ لکھ لکھ کے کالے کرنا چاہتا ہوں۔
جب میں مر جاؤں گا تو کسی کو پتہ نہیں چلے گا۔یہاں کون آتا ہے جو کسی کو پتہ چلے۔ ہوسکتا ہے کسی دن جیرے دودھ دہی والے کو خیال آئے کہ بہت دن سے وہ بابا چائے کے لیے چھٹانک بھر جو دودھ لے جاتا تھا، نہیں آیا۔ یا پھر شاید گامے پرچون والے کا دھیان میری غیر حاضری پر چلا جائے۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ سب مصروف لوگ ہیں، ان کو کیا پڑی کہ میرے بارے سوچیں۔ میرے مرنے کا پتہ میری بو سے لگے گا۔ جب موت پوری طرح طاری ہوچکے گی تو اس کی تیز بو موتئے کی خوشبو کو روندتی ہوئی باہر نکلے گی اور میرے مرنے کی خبر دے گی۔
خواہشات ختم ہوچکنے کے باوجود میری خواہش ہے کہ اس خبر کے پھیلنے سے پہلے پہلے اپنی ادھوری تحریریں لکھ رکھوں تاکہ میری بو پا کر آنے والوں کو پتہ چل سکے کہ میں کن حالات میں مرا تھا۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments