عطائے غیب نہیں، تحفِہ کج اندیشی


پنجاب کےہمارے ایک دوست بھٹی صاحب اکثر کہا کرتے ہیں کہ”بھئی ہماری قوم ہے شغلی مزاج کی اس لیے اسے آئے دن کسی شغل کی طلب رہتی ہےاس لئے حزب مخالف ہو یا حکمران ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی شغل لگائے ہوئے ہوتے ہیں”۔  یہ کسی حد تک ٹھیک بھی ہے ۔ مگر قابل توجہ امر یہ ہے کہ اس شغل میلے میں پس پردہ ایسے اوامر سرانجام دیئے جا چکے ہوتے ہیں جن کا پتا کبھی برسوں بعد چلتا ہے اور کبھی تو پتہ ہی نہیں چلتا ۔

ہماری من حیث القوم اس شغل مزاجی نےہمارے بالا مقتدرین کو ماہر مداری جبکہ اس ملک کو حضرت غالب کے الفاظ میں اگرکہا جائے تو ایک کھیل کا میدان بنا دیا ہے اور عوام الناس کو بیک وقت بندر اور تماشائی۔ نتیجتاً عوام ستر سال سے زائد عرصے سے اضطراب میں قلابازیاں کھانیں، خوشی میں تالیاں بجانیں اورجوش میں نعرے لگانے کے علاوہ کچھ نہیں کرپائی۔

البتہ وقت کے ساتھ بدلے اطوار نے اب تماش بینوں کو بھی حقِ فیصلہ دے دیا ہےاور ایسے کھیل کو اب رئلٹی شو کہا جاتا ہے۔ رئلٹی شوز کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اسکرپٹڈ ہونے کے باوجود اپنے تماش بیوں کو حقیقت سجھائی دیتا ہے۔ اور یہ واحد ایسا مقام ہے جہاں لوگ ووٹنگ لائین کھلنے کے بعد اپنے پسندیدہ کنٹیسٹنٹ کو جتنی بار چاہیں ووٹ کر سکتے ہیں ، اب اس سے ان کا پسندیدہ کنٹیسٹنٹ جیتے یا ہارے پر پروڈکشن ہائوس کی اچھی خاصی آمدن ہو جاتی ہے۔ کل ملا کے فائدہ پروڈکشن ہائوس کا ہی ہوتا ہے اور عوام وہی بندر اور تماشبین بن کے قلابازیاں کھاتی ہےاور تالیاں بجاتی ہے اور نعرے مارتی ہے۔

پر اب یہ تماشہ بذات خود مداریوں کے لئے بھی تشویش ناک ہوتا جا رہا ہے۔ کیونکہ تماشائی اب اپنی طےشدہ حدود سے مطمئن نہیں ۔ وہ تالیاں بجانے اور نعرے مارنے سے آگے بڑھتے ہوئے نہ صرف باالواسطہ کھیل کا حصہ بننا چاہتے ہیں بلکہ اس کے نتائج پر اثر انداز بھی ہونا چاہتے ہیں ۔ سمجھو اب بندر کی ہاتھ ماچس آگئی ہو جیسے اور مداری کو بندر پڑگیا ہو ۔اب بندرنےناصرف مداری کا ہی مہ نوچنا شروع کردیا ہے بلکہ جہاں اس کا جی کرتا ہے وہاں تیلی لگا دیتا ہے۔ اور مداری بجائے تماشا لگانے کے اور اس تماشے کو بنائے رکھنے کے خود ایک تماشہ بن گیا ہے۔

اس سے بھی ہولناک بات تب ہوئی جب تماشوں کی پیشکش مذہبی اشتراک اور افرادی تعاون سے رچائی جانےلگی۔ اور کھیل کے اصول وہی ٹھہرے جو تماشائیوں نے خود طے کئے۔ پہلے پہل تو ایک خاص سوچ کے لوگوں تماشے کے لئےتیارکیاگیا اور جہاد کے نام پر الگ الگ برینڈ کے چھوٹے بڑے گروپ تماشے کا حصہ بنتے رہے۔ پر جب تماشائیوں نے کھیل کو سمجھ لیا اور مداری کو چھوڑ اپنے اصول بنائے تاکہ کھیل کے نتائج پر اثرانداز ہوسکیں تو مداری کی لاٹھی حرکت میں آئی تاکہ کھیل ہی ختم کیا جائے ۔پر تب تک دیر ہوچکی تھی اور بندر کسی طور مداری کے اشارے پہ اب کھیل دکھانے کو راضی نہیں۔

پر قوم کی شغل مزاجی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک نئے تماشے کے لئے ماحول بنایا گیا تاکہ پچھلی غلطیوں سے دھیان ہٹایا جاسکے۔اب کہ تماشائیوں کے ہاتھ میں ہتھیار نہیں تھمائے گئے بلکہ نفرت کا بارود ان کے ذہن میں اس طرح بھرا گیا کے اب تماشائیوں کو نفرت میں روحانیت ، اور عصبیت میں عشق دکھائی دینے لگا جبکہ رواداری ڈھکوسلہ اور اعتدال پسندی بزدلی سجھائی دی۔

 بس پھر کیا ۔ روحانیت جلوہ گر ہوئی اور عشق نے آستینیں چڑھائیں پھر وہ جو اب تک محض تماشائی تھے اب کہ منصف بھی ہوئےخود تو جلاد بھی خود۔آہ و زاری کا سماء بندھا ، بربریت کا بازارگرم ہوا اور روحانیت میں لپٹی حیوانیت جھوم اٹھی ۔ اور ایک ہجوم ِ بے حس کوچہ و بازار میں دندناتے ہوئے کبھی لوگوں کے چہرے مسخ کرنے لگا تو کبھی اگر ان کومارکے بھی شاد نہ ہوا تو ان کے مضروب و مجروح اجساد کو نذرآتش کرکے اپنی روحانیت کو اوج کمال تک پہنچانے کی سعی میں جٹا رہا اور پھر اس بے حسی سے بھرپور خود ساختہ روحانیت کو تبرکاً اس بارگاہ اقدس میں ہدیہ کیا جن(ﷺ) کو ان کے خالق نے عالمین کے لئے رحمت بناکے بھیجا تھا۔ سوچتا ہوں کیا واقعی اس ہدیہ پرطیش پر سید ثقلین (ﷺ) شاد ہوئے ہونگے؟ اور ان کو جنت کی بشارت دینگے؟

المیہ یہ ہے کہ ان سارے تماشوں کے بیچ ایک ہمارے دانش کدوں میں جو ذہیں تھے اب بت بن چکے ہیں جن پرعوام باشعور ہونے کا گمان کرتے تھے اور ان پر ناز کرتے تھے اور شاید اب بھی کرتے ہیں، کیونکہ ان بتوں سے کبھی کبھار سنو سمجھو سنو سمجھو کی آوازیں آتی ہیں۔ کچھ دھیمی ، کچھ کرخت، کچھ اونچی تو کچھ پرجوش، پر اب یہ کچھ دیر ہی شور مچاتی ہیں اور تماشائی بھی کسی حد تک ان آوازوں کی طرف منقلب ہوتے دکھائی دیتے ہیں پر پھر اچانک خاموشی چھاجاتی ہے اور ایک نیا تماشہ سجنے کو تیار ہوتا ہے۔

سنا ہے کبھی ان بتوں میں جان ہوا کرتی تھی اور یہ محض آوازیں نہیں نکالتے تھے بلکہ سینا تان کے معاشرے میں پنپتی کج فہمی کے سامنے ڈٹ جاتے تھے اور وقت آنے پر مداری کی لاٹھی کو بھی اپنے ہاتھوں پر لیتے تھے ۔ اورمزید کچھ نہ بھی کرپاتے تو کم از کم مداری کی لاٹھی کی چوٹ اپنے ہاتھوں پہ لیتے تھے تاکہ بندر بنی عوام کسی حد تک اپنی عزت نفس سے روشناس ہو سکے اور وہ خود ہی تماشہ اور تماشائی بننے کہ بجائے اپنا خود مختار انسانی پہلو بھی دیکھ اور سمجھ پائیں۔ اور اپنی نسلوں میں اس عزت نفس کو جلا بخش سکیں تاکہ وہ آنے والے وقتوں میں بندر بننے سے بچ جائیں۔

پر ایسا تب تک ممکن نہیں جب تک دانش کدوں میں پڑے بتوں میں جان نہیں آتی ۔ اور عوام الناس اپنے خودمختار انسانی پہلو کو محسوس کرتے ہوے اسے زمانے کو باور نہیں کرواتے۔ جب ہمارے گرد مسلسل چلتے ہوئے تماشے ہم سے الگ نہیں تو ان کو ختم کرنے کے لئے بھی کوئی نجات دہندہ آسمان سے نازل نہیں ہوگا ۔ ہمیں سمجھنا پڑے گا کہ جو درپیش ہے وہ غیب سے نازل نہیں ہوا اور نا ہی کوئی معجزہ اس کو ٹھیک کرےگا ۔ یہ ہمیں ہی مل کر کرنا پڑے گا نہیں تو دوسری صورت میں آنے والے وقتوں میں اور اس سے آگے تک بھی ہم ہی تماشہ بنیں گے اور تماش بین بھی ۔ پھر وہی بندر کہ جو لاٹھیاں کھائے گا اور اسی کی کمائی پر مداری مالک بن کے بیٹھا رہے گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments