مشرقی پاکستان، تین جرنیل اور بین الاقوامی پٹواری


پاکستان ایک ایسی چراگاہ ہے۔ جس میں مقدس گائے کھلم کھلا چرتی اور آرام سے جگالی کرتی ہے۔ اس کے علاؤہ یہاں اللہ میاں کی گائے بھی موجود ہیں۔ جن کو ضرورت پڑنے پر قربانی کے بکرے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں کسی نامعلوم جنگ کے دوران ستر ہزار کی بکروں کی طرح قربان دی گئی۔

مقدس گائے تعداد میں کم اور اللہ میاں کی گائیں تعداد میں زیادہ ہیں۔ اس لئے مقدس گائے کی حفاظت کیلئے تقدیس کا ایک ہالہ ہمہ وقت اسکے چاروں طرف موجود ہوتا ہے۔ جس کو اللہ میاں کی گائے دیکھ کر اپنی کم مائیگی کی وجہ سے جگالی کرنا بھول جاتی ہیں بلکہ بعض تو راتوں کو برے برے خواب بھی دیکھتی ہیں۔

مقدس گائے صرف عسکری ادارے عدلیہ یا پارلیمنٹ یا ان اداروں میں بیٹھے تقدس مآب ہستیاں ہی نہیں بلکہ قومی سانحات، حادثات، واقعات، انکوائریاں، کمیٹیاں اور ان کے مرتب کردہ رپورٹس بھی ہیں۔ جن سے اللہ میاں کی گائے ان کی اپنی حفاظت کی خاطر دور رکھی جاتی ہیں۔ خود اللہ میاں کی گایوں کو بھی یقین ہے کہ ایسے معاملات سے جتنا دور رہا جائے عظیم تر قومی مفاد کیلئے اتنا بہتر ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان اس کے حقیقی کردار اور اس کی انکوائری رپورٹس بھی اس وجہ سے ایک مقدس گائے بنی ہوئی ہیں۔ اس لیے پاکستان میں اس کے بارے میں کم لکھنا کم جاننا کم بحث کرنا خود تحقیق نہ کرنا اور سرکار کے مہیا کردہ چارے پر جگالی کرنا بہترین حکمت عملی ہے۔ سولہ دسمبر تب سے لاش جیسا ٹھنڈا اور دھند میں لپٹا ہوا گذرتا ہے۔ ورنہ یہ دن جتنا اے پی ایس کے معصوم بچوں کے خون سے تر بتر ہے اتنا عشروں پہلے مشرقی پاکستان کے گلی کوچوں ندی نالوں دریاؤں اور سمندر میں پڑی پھولی ہوئی لاوارث لاشوں سے بھی اٹا ہوا ہے۔ سرکار نے سرکاری منشی (بقول جنرل نیازی) یعنی صدیق سالک کے ذریعے قوم کو سمجھایا کہ جنرل نیازی شراب اور عورتوں کا رسیا تھا جنگ لڑنے سے زیادہ پان کی سمگلنگ میں مہارت رکھتا تھا۔ بین الاقوامی اخباری رپورٹروں کے سامنے “اوور مائی ڈیڈ باڈی” کی شیخی مارتا اور واپس آکر زنانیوں کی طرح روتا۔ فرمائشی سرکاری منشی کے بعد حمود الرحمن کمیشن بنا کر رپورٹ تیار کی گئی، اسے بھی مقدس گائے بنا کر اللہ میاں کی گایوں سے دور رکھی گئی۔ جبکہ یہ رپورٹ انہی کیلئے تھی۔ (پاکستان میں ہر سانحے کی رپورٹ عوامی مطالبے پر تیار کی جاتی ہے لیکن تیاری کے بعد عوام کیلئے نہیں ہوتی)۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ بیرون ملک سے عوام تک تب پہنچی جب عوام بھول گیا تھا کہ پاکستان ایک نہیں دو تھے۔ اس رپورٹ میں بھی وہی شراب و شباب کی کہانی درج تھی۔ یہ رپورٹس پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے انڈین آرمی طارق جمیل کے ساتھ ‘اللہ کی راہ میں’ چالیس دن گزارنے کے بعد میدان جنگ میں آئی تھی۔

قید سے واپس آنے کے بعد چنتخب ولن جنرل نیازی کو اپنی بات قوم کے سامنے کہنے سے روکنے کی خاطر پریس سے دور رکھا گیا۔ اسکی خواہش کے برعکس اس پر مقدمہ چلا کر کورٹ مارشل کیا گیا نہ اس سے اس کی کہانی سنی گئی۔ جبکہ ہر ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے کی اجازت دی جاتی ہے تب فیصلہ سنایا جاتا ہے۔

جنرل نیازی نے اپنی کتاب میں ان سارے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے جواب دیا ہے جو بقول ان کے سرکاری منشی نے فرمائشی کتاب میں اس کے خلاف لگائے ہیں۔ وہ جواب میں صدیق سالک کی دوسری کتاب ہمہ یارانِ دوزخ کو حوالے کے طور پر پیش کرتا ہے، جس میں سالک نے جنرل نیازی کے بارے میں کچھ اور لکھا ہے۔

جنرل نیازی لکھتا ہے، کہ ٹائیگر نیازی کا تمغہ اس نے آرمی کینٹین سے خرید کر سینے پر نہیں سجایا تھا بلکہ یہ اسکی بے خوفی بہادری اور کامیاب عسکری کیریئر کی وجہ سے اسے اس کے سینئر انگریز افسر نے دیا تھا۔ اس نے اپنے تمغوں اور تعارفی اسناد کا ذکر کرتے ہوئے ان پاکستانی عسکری افسروں کی نشاندھی بھی کی ہے جنہوں نے دوران جنگ لڑنے کی بجائے فوج سے استعفیٰ دیئے۔ انکا ذکر بھی کیا ہے جنہوں نے اس کے جانے سے پہلے مشرقی پاکستان کے عوام پر دشمن کی طرح ظلم کے پہاڑ توڑے جس کی وجہ سے مصالحت کے تمام راستے مسدود ہوگئے تھے۔ اس نے لکھا ہے کہ جب کوئی بھی افسر مشرقی محاذ پر جانے پر تیار نہیں تھا تو اس نے بغیر بحث و تمحیص کے مشرقی محاذ پر فی الفور جاکر ڈیوٹی جائین کی اور کم ترین اور ناکارہ آلات حرب اور تھکے ہوئے سپاہیوں کے ذریعے جن کے پاس مناسب طبی سہولیات بھی نہیں تھیں، نو مہینے تک ملک کے چپے چپے کا دفاع کیا۔ جب انڈین افواج سرحدات پر جمع ہو رہی تھیں تو اسے ان کے خلاف گوریلہ کاروائیاں کرنے سے منع کیا گیا۔ اس کے منع کرنے کے باوجود مغربی محاذ پر جنگ شروع کی گئی جس کی وجہ سے انڈین فوج کھلم کھلا مشرقی پاکستان میں گھس آئی۔ جب ‘مغربی محاذ سے مشرقی محاذ کی دفاع’ کا منصوبہ بنایا گیا تھا تو پھر تیرہ دن انتظار کیوں کیا گیا؟ اور جب حملہ کیا گیا تو وہاں پر کونسی فتح حاصل کی گئی؟ وہ لکھتا ہے میں تو بدترین حالات، کم ترین اور ناکارہ آلات حرب، تھکے ماندے لاوارث اور زخمی سپاہیوں کے ساتھ گھر سے ہزاروں میل دور چاروں طرف سے دشمن کے نرغے میں نو مہینے تک لڑتا رہا اور کمانڈر انچیف کے حکم پر ہتھیار ڈالے، لیکن مغربی محاذ پر سب کچھ میسر ہونے کے باوجود چار ہزار مربع کلومیٹر علاقہ دشمن کے حوالے کرنے والے کون تھے؟ ان کو کیا سزا ملی؟

فوجی افسران کی مجرمانہ غفلت اور سازشوں کے علاؤہ اس نے جنرل گل حسن اور ‘بچر’ ٹکا خان کے ساتھ ساتھ بھٹو کو بھی برابر کا سازشی قرار دیا ہے۔

انڈین سائڈ سے جنرل جیکب اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہم نے سرنڈر سے ایک ہفتہ پہلے مشرقی پاکستان کے گورنر ہاؤس میں پاکستان کے سول اور عسکری افسران سے ملاقات کرکے معاہدہ کیا۔ پاکستانی عسکری افسران کی خواہش تھی کہ وہ سویلین یعنی بنگالیوں کی بجائے انڈین آرمی کے سامنے ہتھیار ڈالیں کیونکہ سویلین کے سامنے ہتھیار ڈالنا برٹش آرمی کی روایت نہیں تھی، جس کا دونوں پچیس سال پہلے حصہ تھے۔ جنرل جیکب کے بقول ہمارے پاس اتنے جنگی قیدیوں کو رکھنے کا کوئی بندوبست نہیں تھا اس لئے یہ بندوبست کرنے کیلئے ہم نے پاکستانی افسران سے ایک ہفتے کا وقت لیا۔

اگر جنرل نیازی چالاکی کرکے انڈین آرمی کے سامنے ہتھیار نہ ڈالتا اور بنگالیوں کے سامنے سرنڈر کرتا تو ایک ایک سپاہی اور سویلین کو بدترین تشدد کے بعد تہہ تیغ کیا جاتا۔ اس لئے ایک ہاری ہوئی جنگ میں نوے ہزار جانیں بچا کر واپس لے آنے پر میں جنرل نیازی کی ہمیشہ قدر کرتا رہا ہوں۔

شمالی مردان کے علاقے گوجرگڑھی کے بخاری استاد (مولوی) کے دو بیٹے انڈیا میں قید تھے جن کا ذکر مولوی صاحب ہر جمعے کے خطبے میں بزدل کہہ کر کرتا، کہتا کہ اگر وہ بزدل نہ ہوتے تو ہندو کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالتے؟ اس کے بیٹے واپس آئے تو اس نے ان کا استقبال نہیں کیا۔ لیکن جب لوگوں نے دیکھا تو ایک کی بائیں ٹانگ گھٹنے سے نیچے نہیں تھی اور دوسرے کا بازو کاندھے کے نیچے سے غائب تھا۔

انڈیا بنگلہ دیش اور پاکستانیوں کے علاؤہ اس جنگ کا ایک اور فریق بھی تھا۔ 1946میں کابینہ مشن نے ہندوستان کو تین گروہوں میں تقسیم کرنے منصوبہ ہندوستانیوں کو پیش کیا تھا، جو کانگریس اور مسلم لیگ نے مختلف وجوہات کی بناء پر مسترد کیا۔ لیکن ہندوستان آج انہی تین گروہوں میں تقسیم ہے۔

انڈیا کو تقسیم کرنے کے لیے مسلمانوں کی اکثریت بنانے کی خاطر یا جناح صاحب کی ضد کی وجہ سے تقسیم کے وقت ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا، اگرچہ جناح صاحب خود بھی آخری دنوں میں متحدہ بنگال کو الگ ملک بنانے پر تیار ہوگئے تھے لیکن ناکام رہے لیکن پچیس سال تک اسی برطانیہ کے ایجنٹوں نے پاکستان پر حکومت کر کے برطانیہ کے تقسیم کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کردی۔ اس لئے جنرل جیکب، جنرل یحییٰ جنرل نیازی اور بھٹو بین الاقوامی پٹواریوں کے سامنے نئے رقبے کے انتقالات ہونے کے دوران مالکان کی تصدیق کرنے والے صرف نمبردار تھے۔ ان میں نہ کوئی بہادر نہ بزدل نہ سازشی اور نہ محب وطن تھا۔ وہ سارے استعمال ہوئے اور کیوں استعمال ہوئے مختصراً نیچے لکھ رہا ہوں اگرچہ یہ موضوع ایک پورے کالم کا متقاضی ہے۔

سرمایہ دار دنیا پاکستان کو افغانستان میں روس کے خلاف تیار کرنا چاہتی تھی لیکن ان کی دی ہوئی امداد مشرقی پاکستان میں بھی تھوڑی بہت استعمال ہوجاتی تھی، جبکہ مشرقی پاکستان کی اس روس مخالف منصوبے میں کوئی اہمیت نہیں تھی۔ بالفاظ دیگر، مشرقی پاکستان منصوبہ سازوں کیلئے ایک غیر ضروری بوجھ بنا ہوا تھا جس کو وہ اپنے (پاکستان کے) کاندھوں گرانا چاہتے تھے۔ جونہی وہ بوجھ گرایا گیا، تو چند سال پہلے ننگے عوام سے شکست کھانے والی فوج دنیا کی بہترین فوج بنی، ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کردی گئی، نمر ون جاسوسی ایجنسی کی مالک بنا دی گئی اور سوویت یونین تہس نہس کردی گئی جبکہ دوسری طرف ننگا بنگال آج ساری دنیا کو کپڑے مہیا کرنے لگا ہے کیونکہ اس نے فوج کی بجائے عوام اور معیشت میں سرمایہ کاری کرنا پسند کی تھی۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments