بھائی ذیشان ہاشم کے نام دوسرا خط


\"\"سرمایہ داری نظام ایک ایسا معاشی نظام ہے جس میں نجی ملکیت کی آزادی، آزادانہ مقابلہ، ذاتی پسند، وسائل کے استعمال میں منافع کی شرح کو مد_نظر رکھنا، اشیا کی قیمتوں کا طلب اور رسد کے توازن سے طے ہونا، عاملین_پیدائش کا نجی ملکیت میں ہونا اور حکومتوں کا محدود کردار شامل ہے۔ ایسا نظام جہاں معاشی سرگمیوں کا مقصد شرح منافع میں اضافہ ہے۔ جیسے کہ Adam Smith خود کہتا ہے \” ہمارا کھانا کسی قصائی یا نانبائی کی رحمدلی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اشیا کی فراہمی میں ان سب کے اپنے ذاتی مفاد ہوتے ہیں \”۔ اس طرح صارف اور آ جر یا طلب و رسد کا جہاں توازن ہو جاتا ہے تو اشیا کی قیمت بھی طے ہو جاتی ہے۔

اٹھارویں صدی میں کلاسیکل مکتب فکر دراصل \”مرکنٹال مکتب فکر \” کے رائج معاشی تصورات کی ناکامی کی صورت میں وجود میں آیا۔ مرکنٹال مکتب فکر کا معاشی فلسفہ یہ تھا کہ کسی بھی ملک یا قوم کی معاشی ترقی یا طاقت کا راز اس بات میں ہے کہ اس ملک کے پاس \”بلین \” یا قیمتی دھاتوں (سونا –چاندی) کی مقدار کتنی ہے – اور ان دھاتوں کے حصول کے لئے حکومت کو معاشی پالیسی میں مداخلت کرنی چاہے– حکومت کو ایسی منصوبہ بندی کرنی چاہے کہ ملک کی برامدات میں اضافہ ہو اور درامدات میں کمی– غیر ملکی صارف یا خریدار ملکی آجر کو سونا اور چاندی میں قیمت ادا کرے گا، نیز تجارت کا توازن مثبت ہو گا اور سونا چاندی کے ذخائر میں اضافے سے ملکی معاشی ترقی یا طاقت میں اضافہ ہو گا۔ اس معاشی فلسفے سے ملکی صنعتکاروں کو فائدہ پہنچا کیوں کہ انھیں برامدات پر ٹیکس میں رعایت، اشیا کی پیدائش کے لئے خام مال کی سستے داموں فراہمی، ملکی صنعت کی حوصلہ افزائی، اور مخصوص پیداواری اداروں پر اجارہ داری شامل تھی – اس معاشی فلسفے نے یورپی اقوام کے دوسری اقوام کے وسائل پر قبضے کی پالیسی (کالونیز) کو بھی جنم دیا – خاص طور پر برطانیہ میں اس معاشی فلسفے کی بدولت خاصی معاشی ترقی ہوئی- لیکن اس معاشی فلسفے نے اقوام کے درمیان سونے چاندی کے حصول کے لئے مسلسل کشمکش کی فضا پیدا کر دی اور دوسرا یہ کہ اس فلسفے کی بدولت افراط _زر کا مسلہ بھی پیدا ہو گیا –

حکومت کے معیشت میں بڑھتے ہووے کردار سے جہاں صنعت کاروں اور برآمد کنندگان کو فائدہ پہنچا وہاں عوام کی طرف سے اس حکومتی مدد کے خلاف آوازیں اٹھی جو حکومت عوام کے ٹیکس سے صنعت کروں کو بطور سبسڈی دیتی تھی،اس فلسفے نے جہاں روزگار میں اضافہ کیا وہاں افراط_زر کو بھی جنم دیا – اس معاشی فلسفے کے مقابلے میں معاشیات کے \” کلاسیکل مکتب _فکر \” کا ظہور ہوا –جس کا بانی آدم سمتھ تھا جس نے 1776 میں \” Wealth of Nations\” تحریر کی –مرکنتلسٹ کے تجارتی تھیوری کے سامنے آدم سمتھ نے اپنا بین الاقوامی تجارت کا نظریہ \” Advantage Absolute \” پیش کیا جس کی رو سے بین الاقوامی تجارت میں شامل تمام اقوام فائدہ حاصل کر سکتی ہیں اگر وہ اس شے کی پیداوار میں تخصیص حاصل کر لیں جس میں انھیں Absolute Advantageحاصل ہے –کلاسیکل معیشت دانوں میں آدم سمتھ، ریکارڈو، سینئر، جے-ایس-مل، جے –بی-سے، مالتھس شامل تہے۔

کلاسیکل معیشت دان \”فری مارکیٹ اکانومی \” کے حامی تھے، مطلب کہ ان کا کہنا تھا کہ معاشی معاملات میں حکومتی مداخلت نہیں ہونی چاہے، ورنہ مارکیٹ کے عمل میں مسائل پیدا ہو جاتے ہیں – مارکیٹ خود کار نظام کے تحت کام کرتی ہیں –جب بھی کبھی مارکیٹ میں کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو \”invisible hand\” اسے حل کر دیتا ہے مطلب کہ مارکیٹ خود اسے حل کر لیتی ہے اور حکومتی مداخلت کی کوئی ضرورت نہیں –معیشت کے تمام کرداروں کو اپنے بہترین مفاد میں فیصلے لینے چاہے – کلاسیکل معیشت دان کہتے تھے کہ معیشت ہمیشہ مکمل روزگار اور توازن کی سطح پر ہوتی ہے- انہوں نے اس توازن کی بنیاد ان مفروضوں پر رکھی کہ معیشت میں موجود سرمایہ کی منڈی، محنت کی منڈی اور اشیا و خدمات کی منڈیاں مکمل آزادی سے کام کر رہی ہوں، نہ تو کم سے کم اجرت ہو اور نہ ہی شرح سود پر کوئی روک تھام ہو- اور دوسرا یہ کہ اجرت اور شرح سود،طلب و رسد کے قانون کے تحت خود بخود توازن میں آ جاتے ہیں –اور اجرت اور شرح سود کا یہ خود کار نظام ہی \” invisible hand\” کے کام کرنے کے لئے شرط ہے –اور ساتھ ہی جے-بی-سے کا قانون بھی یاد رکھنا ہو گا جس کے مطابق مارکیٹ میں جو بھی اشیا و خدمات پیدا ہوتی ہیں وہ صرف ہو جاتی ہیں اور زائد کچھ نہیں بچتا دوسرے لفظوں میں \” رسد اپنی طلب خود پیدا کرتی ہے \”۔

دی گریٹ ڈپریشن(1930):

 1920 کی دہائی امریکا میں معاشی ترقی کی دہائی تھی، اسی معاشی ترقی کی بنیاد پر امریکی صدر ہربرٹ( فری مارکیٹ اکانومی کا پرجوش حامی ) نے کہا تھا کہ بہت جلد امریکا غربت سے نجات حاصل کر لے گا ( لیکن یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے کے پروفیسر ایمانول سیز کے فراہم کردہ عداد و شمار کے مطابق 1928 اور 2007 میں امریکا میں معاشی تفاوت اپنے عروج پر تھی)- اگست 1929 تک امریکا میں معاشی سرگرمیاں اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکی تھیں لیکن اکتوبر 1929 میں امریکی اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی، 1929 سے 1932 تک بے روزگاری کی شرح 3% سے 25 % تک جا پہنچی، اشیا و خدمات کی پیداوار 30% تک کم ہو گئی، 5000 بنک دیوالیہ ہوئے، صارفین کے پاس بنکوں کو قرضہ لوٹانے کے لئے رقم نہیں تھی، کسان کا حال بھی کچھ مختلف نہی تھا وہ اجناس تو پیدا کر چکے تہے مگر خریدنا والا کوئی نہیں تھا نتیجہ دیوالیہ پن –سرمایہ کاری کم ترین سطح پر تھی، مارکیٹ میں اشیا کی زائد مقدار تو تھی مگر خریدتا کون ؟ (یاد رہے اس وقت تک \” فری مارکیٹ اکانومی کے فلسفے کا راج تھا، جے –بی –سے کے قانون کے مطابق اشیا کی رسد اپنی طلب خود پیدا کر رہی تھی، حکومت کا معاشی سرگرمیوں میں کردار محدود تھا،( 1929 تک امریکی حکومت اپنی مجموعی پیداوار کا محض 3% خرچ کر رہی تھی، جو کہ کنیزازم کے بعد مجموعی پیداوار کے 10% کے قریب پہنچا ) –یہ سب فری مارکیٹ اکانومی کے فلسفے کا ہی نتیجہ تھا کیوں کہ اس سے پہهلے کینزازم کا وجود نہیں تھا۔ اگر اس بحران کا سبب حکومتی مداخلت تھیں تو کیا ہم جان سکتے ہیں وو کونسی حکومتی پالیسیز تھیں جو اس بحران کا سبب بنیں ؟

کینز کا ظہور بھی تو گریٹ ڈپریشن ہی کا نتیجہ تھا – دوسرا یہ کہ کینز نے سرمایا داری نظام کے خاتمے یا متروکیت کی بات تو نہیں کی – اس نے کلاسیکل یا فری مارکیٹ اکانومی کے نظریے میں ہی ترمیم کی – جیسے کہ جے-بی-سے کے قانون کے مقابلے میں کینز نے کہا کہ \” طلب اپنی رسد خود پیدا کرتی ہے، نہ کہ رسد اپنی طلب \” – کینز نے یہ بھی کہا کہ معیشت میں ہمیشہ کامل روزگار کی صورتحال نہیں ہوتی جیسا کہ کلاسیکل معیشت دان فرض کرتے تہے، معیشت کامل روزگار کی سطح سے بلند یا پست بھی ہو سکتی ہے اور ایسی صورت میں افراطی رخنہ یا تفریتی رکھنا پیدا ہو جاتا ہے –اور سب سے اہم بات یہ کہ کلاسیکل یہ فرض کرتے تہے کہ شرح سود، اجرت اور قیمت تیزی سے معیشت کے خود کر نظام میں خود کو ایڈجسٹ کر لیتی ہیں، جبکہ کینز نے بتایا کہ ایسا نہیں ہوتا، شرح سود، اجرت اور قیمتیں خود کو ایڈجسٹ کرنے میں وقت لیتی ہیں اور اس دوران طلب اور رسد کے توازن میں فرق آتا ہے، اور ساتھ ہی بیروزگاری پیدا ہو سکتی ہے – اس پر کینز نے یہ تجویز کیا کہ ایسے حالات میں حکومت کو مداخلت کرنی چاہے، کیونکہ مجموئی پیداوار کم ہو رہی ہوتی ہے اس لئے حکومتی مداخلت سے مجموئی پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے اور معیشت \” معاشی چکر \” سے نکل سکتی ہے اور ایسا ہوا بھی- حکومتی مداخلت نے ہی گریٹ ڈپریشن سے نکلنے میں مدد دی اور 1970 تک کینز کے معاشی نظریہ نے راج بھی کیا – یہ بھی کینز نے ہی بتایا نہ کہ بھائی جو کمایا جاتا ہے وو سارے کا سارا صرف نہی ہو جاتا اس میں سے بچت بھی ہوتی ہے اور آمدنی بڑھنے سے مختتم صرف کم ہوتا چلا جاتا ہے – اور اسی وجہ سے معاشی تفاوت بڑھتی جاتی ہے – معاشی تفاوت کے اضافے میں کلاسیکل معاشی نظریہ کا کتنا ہاتھ ہے یہ کون نہی جانتا ؟

ہاشم بھائی، آپ نے لکھا کہ گریٹ ڈپریشن 1930 حکومتی مداخلت کا نتیجہ تھا تو کیا میں پوچھ سکتا ہوں وہ کونسی حکومتی مداخلت تھی ؟ اور اگر تھی تو کیا کنیز کے نظریے کی بدولت تھی ؟اور کیا کنیز نے سرمایا داری نظام پر سوال اٹھایا یہ محض کلاسیکل معاشی نظریہ پر تنقید کی ؟

(مارکس ازم میں ریاست کا تصور یہ ہے کہ ریاست ایک طبقاتی ادارہ ہے جو اس وقت قائم ہوا جب سماج دو طبقات میں تقسیم ہو چکا تھا اور ان طبقات میں مفاہمت پیدا کرنے کے لئے ریاست کا ادارہ وجود میں آیا، اور جب یہ طبقات ختم ہوں گے تو اس ادارے کی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی – میرا نہیں خیال کہ مارکس ریاست کو آغاز ہی سے ختم کرنے کی بات کرتا ہے)

تاخیر پر معذرت –

شکریہ

عدیل رانا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments