محمود خان اچکزئی کے جرائم


\"\"مردم شماری یا بہتر الفاظ میں ڈیموگرافک سروے دراصل ایک سماجی سائنس ہے۔ اس کے ذریعے دنیا کے تمام ممالک عوام میں وسائل اور سہولیات کی منصفانہ تقسیم اور قومی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ درست مردم شماری نہ ہونے سے نہ صرف معاشی مسائل جنم لیتے ہیں بلکہ کسی بھی سماج میں گہرے معاشرتی اور سیاسی مسائل جنم لیتے ہیں۔ آبادی کا درست تعین معاشرے میں معاشی اور سماجی ترجیحات طے کرتا ہے۔ مردم شماری صرف افراد کی گنتی کا نام نہیں۔ مردم شماری سے ذریعہ معاش، شرح خواندگی، حصول تعلیم، ملازمت، صحت عامہ، عمروں کا ڈھانچہ، دیہی و شہری آبادی کی تقسیم اور آبادی میں شرح پھیلاﺅ کا علم حاصل ہوتا ہے۔ اس کے بعد ان عوامل کو مدنظر رکھ کر ملکی وسائل کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ آبادی کی ضروریات پیش نظر رکھی جاتی ہیں۔ انہی کی بنیاد پر ترقیاتی منصوبہ بندی، صحت و تعلیم کے وسائل اور بنیادی سہولتوں کے فراہمی کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ قومی اقتصادی کمیشن وفاق اور صوبوں کے درمیان فنڈز کی تقسیم اسی بنیاد پر کرتا ہے۔ پاکستان میں چھوٹے صوبوں کا ایک دیرنہ مطالبہ فنڈز کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر نہ کرنے کا ہے۔ اگرچہ یہ ایک الگ موضوع ہے اور اسے پھر کسی وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔

بلوچستان میں بلوچ پشتون اگر کوئی قضیہ موجود ہے تو وہ آبادی کا ہے۔ پشتون قوم پرست سیاست کرنے والی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت صوبے میں پشتون اور بلوچ آبادی برابر تھی۔  1972 اور 1981 کی مردم شماری میں بلوچوں کی تعداد پشتونوں سے زیادہ ظاہر کی گئی ہے۔ دوسری جانب بلوچ قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ 1979 کے افغان جنگ کے بعد افغان مہاجرین کی آمد اور ان کے پشتون علاقوں میں آباد ہونے سے 1981 کی مردم شماری میں ہی ہزاروں افغانوں کو مقامی پشتون آبادی میں شمار کیا گیا۔ یہ ایک قضیہ ہے جو ابھی تک حل نہیں ہوا۔ اسی جھگڑے کی بنیاد پر 1998 میں کی جانی والی مردم شماری کا پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے بائیکاٹ کر دیا۔ انہوں نے صرف بائیکاٹ ہی نہیں کیا بلکہ باقاعدہ لوگوں کو دھونس، دھمکی سے اس پر قائل کیا کہ یہ مردم شماری پشتونوں کے نقصان میں ہو گی۔ مردم شماری کے دوران پشتون اکثریتی ضلعوں میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے کارکن باقاعدہ مردم شماری کے عملے کے ساتھ مار پیٹ کرتے رہے اور مردم شماری کے ساز و سامان کے تھیلے چھینتے رہے۔\"\"

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پشتون اکثریتی اضلاع میں آبادی میں اضافے کی شرح بہت کم لکھی گئی۔ پوری تفصیل ممکن نہیں مگر کچھ اضلاع کے شماریاتی تقابل پر ایک نظر ڈال لیں۔ مثال کے طور پشتون اکثریتی علاقوں کا تقابل یوں ہے۔ 1981 کے مقابلے میں 1998 میں ژوب کی آبادی 213285 نفوس سے بڑھ کر 275142 ہوئی جو  29 فیصد اضافہ بنتا ہے۔ قلعہ سیف اللہ کی آبادی 30 فیصد اضافے کے ساتھ 148362 سے بڑھ کر193553 ہوئی۔ لورالائی کی آبادی204055 سے بڑھ کر22 فیصد اضافے کے ساتھ 250147 ہوئی۔ دوسری جانب بلوچ اکثریتی علاقوں میں آبادی میں اضافے کی شرح یوں ریکارڈ کی گئی۔ جعفر آباد کی آبادی 63فیصد اضافے کے ساتھ 265342 سے بڑھ کر 432817 ہوئی۔ ڈیرہ بگٹی کی آبادی 103821 سے بڑھ کر 181310 ہوئی جو 74فیصد اضافہ ہے۔ نصیر آباد کی آبادی 129112 سے بڑھ کر245894 جو90 فیصد اضافہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے بائیکاٹ کے باوجود محمود خان اچکزئی کے آبائی حلقے قلعہ عبداللہ کی آبادی 170590سے بڑھ کر 360724 ریکارڈ کی گئی جو 111فیصد اضافہ بنتا ہے۔ 111 فیصد اضافہ پاکستان کے تمام اضلاع میں ایک ریکارڈ اضافہ تھا۔ جبکہ ان کے اکثریتی انتخابی علاقے پشین کی آبادی 208007 سے بڑھ کر376728 ہوئی جو 81 فیصد اضافہ ہے۔ یاد رہے کہ 1990 کے انتخابات میں محمود خان اچکزئی پشین سے قومی اسمبلی کی نشست جیتے تھے جبکہ 1993 کے انتخابات میں پشین کم قلعہ عبداللہ کی نشست جیتے تھے۔ مردم شماری کے بائیکاٹ کے باوجود اپنے انتخابی حلقوں میں آبادی میں یہ رکارڈ اضافہ فرشتوں کی کارستانی قرار دی جا سکتی یا پھر حسن تغافل کہا جا سکتا ہے۔ محمود خان اچکزئی کی جماعت کا دعوی یہ تھا کہ 1972 اور 1981 کی مردم شماری میں ان کے ساتھ دھاندلی کی گئی ہے جبکہ ان کا عمل یہ ہے کہ 1998 کی مردم شماری میں انہوں نے پشتون بلیٹ کی آبادی میں اضافے کی شرح بلوچ بیلٹ کے مقابلے میں نصف ریکارڈ کروا دی۔ آبادی کے یہ اعداد و شمار صرف اخبار کے صفحے پر اعداد نہیں ہیں بلکہ یہ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے پاس درج حقائق ہیں جن کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ محمود خان اچکزئی صاحب اس جرم پر کبھی شرمندہ نہیں ہوئے۔

جہاں بھی نئے انتظامی یونٹ بنتے ہیں چاہے وہ نئے صوبے ہوں یا نئے اضلاع، اس سے علاقے میں ترقی کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔ کاروبار کے مواقع بڑھتے ہیں۔ ملازمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں صوبوں کے بڑھوتری کا عمل تو شروع نہیں ہو سکا مگر نئی ضلع بندیاں وقفے وقفے سے ہوتی رہی ہیں۔ 1974/75 کے دوران بلوچستان میں نئی ضلع بندیوں کا شور تھا۔ تجویز یہ تھی کہ خضدار کو قلات سے الگ کر کے نیا ضلع بنایا جائے۔ جعفرآباد کو سبی سے الگ کر کے نیا ضلع بنایا جائے اور پشین کو کوئٹہ سے الگ کر کے نیا ضلع بنایا جائے۔ محمود خان اچکزئی صاحب کی جماعت اس زمانے میں بھی احتجاج پر تھی اور فرما رہے تھے کہ ہمیں کوئٹہ اور پشین کی تقسیم نامنظور ہے۔ آج یہ نئی ضلع بندیوں کے لئے شور کر رہے ہیں مگر اپنے پچھلے عمل پر انہوں نے کبھی شرمندگی کا اظہار نہیں کیا۔

انہوں نے’ہم نہیں مانتے‘ کی روش اپنا رکھی ہے۔ یہ سرشت انہوں نے 2008 کے انتخابات میں بھی اپنائی اورانتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ مدعا ان کا یہ تھا کہ پرویز مشرف کے تحت ہمیں یہ غیر آئینی انتخابات قبول نہیں ہیں۔ اس کے برعکس پرویز مشرف کے تحت ہونے والے2002 کے انتخابات میں انہوں نے بھرپور شرکت کی تھی جس میں محمود خان قلعہ عبداللہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے تھے جبکہ صوبائی اسمبلی کی چار نشستیں حاصل کی تھیں ۔ یاد رہے کہ اگست 2002 میں پرویز مشرف ایل ایف او جاری کر چکے تھے اور اکتوبر 2002 میں انتخابات تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ 2002 میں جنرل مشرف کے تحت ہونے والے انتخابات کیسے آئینی تھے؟ مگر ان سوالات کے جوابات کون دیتا ہے۔ 2008 کے انتخابات کے بائیکاٹ کا نتیجہ یہ نکلا کہ پشتون اکثریتی علاقوں سے جمیعت علماءاسلام نے کم و بیش تمام نشستیں جیت لیں۔ اس سے ان علاقوں میں جو سیاسی اور سماجی نقصانات ہونے تھے وہ تو اپنی جگہ ہوئے مگر چونکہ افغانستان میں طالبان برسرپیکار تھے۔ ادھر پشتون اکثریتی علاقوں طالبان کے حامی حکومت میں شامل تھے۔ اس لئے پشتون بیلٹ سے کھل کر طالبان کے جہاد کے لئے بھرتی بھی جاری تھی اور علاقے میں طالبان مضبوط ہوتے رہے۔ اس بائیکاٹ کے فیصلے پر ابھی تک یہ بضد ہیں کہ ہمارا فیصلہ درست تھا۔

کچھ ایسا ہی موقف محمود خان کی جماعت نے سی پیک پر بھی اپنا رکھا ہے۔ ایک طرف جب خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں دونوں صوبوں کے حصے اور مغربی روٹ کے لئے میاں نواز شریف کی حکومت سے برسر پیکار ہیں۔ ایسے میں محمود خان اچکزئی کی جماعت جو بلوچستان میں مسلم لیگ نواز کی حکومت میں حلیف جماعت ہے۔ صوبے میں محمود خان اچکزئی صاحب کے بھائی گورنر ہیں۔ محمود خان صاحب کی جماعت سی پیک پر احتجاج کی بجائے دور کی یہ کوڑی لائے ہیں کہ سی پیک پاکستان کے لئے ایک اور ایسٹ انڈیا کمپنی ثابت ہو گی۔ عرض مدعا یہ ہے کہ اگر یہ ایک اور ایسٹ انڈیا کمپنی ثابت ہو رہی ہے تو میاں نواز شریف صاحب کو قائل کیا جائے جو ان کے اتحادی بھی ہیں ۔ اب جب سی پیک بن ہی رہا ہے تو پھرمغربی روٹ کے حوالے سے اس مجرمانہ خاموشی کا کیا مطلب ہے؟ ایک طرف تو صورتحال یہ ہے کہ سلیم صافی کے ایک کالم کے جواب ان کی جماعت نے بلوچستان اسمبلی سر پر اٹھا لی اور باقاعدہ سلیم صافی کے خلاف قرارداد پیش کرنے لگے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ وزیراعلی ڈاکٹر مالک کے منع کرنے پر قراداد پیش نہیں کی ورنہ جانے کب تک ہمیں اس شرمندگی کے ساتھ بھی جینا پڑتا۔ اور دوسری طرف سی پیک کے حوالے سے حال یہ ہے کہ محمود خان اچکزئی کے بھائی ڈاکٹر حامد اچکزئی جو بلوچستان اسمبلی میں وزیر بھی ہیں نے میرے ساتھ ایک ٹی وی پروگرام میں فرمایا کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سی پیک پر مجموعی طور پر تو وفاقی حکومت کے ساتھ ہے، تاہم اگر کے پی یا بلوچستان کی دیگر جماعتیں اس حوالے سے کوئی تحریک اٹھاتی ہیں تو ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ بلوچستان میں حکومت میں شامل جماعت، نواز شریف کی حامی جماعت، صوبے میں گورنر رکھنے والی جماعت یہ تحریک خود کیوں نہیں اٹھاتی؟

اب معاملہ فاٹا کا درپیش ہے۔ اچکزئی صاحب کی جماعت فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے خلاف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی طور پر محمود خان اچکزئی کی جماعت کا فاٹا میں کوئی وجود نہیں ہے۔ فاٹا میں یہ کسی طرح اسٹیک ہولڈرز قرار نہیں دیئے جا سکتے۔ مگرایف سی آر جیسے غیر انسانی قانون کے خاتمے کی جب بات آئی ہے تو محمود خان اچکزئی صاحب کو جرگہ یاد آتا ہے یا پھر ریفرنڈم یاد آتا ہے یا پھر جانے کونسا لر او بر گرینڈ پشتونستان یاد آتا ہے۔ گاہے گاہے ان کے ہمنوا ہمیں نجی محفلوں میں بتاتے ہیں کہ اس سے ڈیورنڈ لائن کو عالمی سرحد تسلیم ہو جائے گی اور یہ کسی گریٹر پشتونستان کے نقصان میں ہو گا۔ صورت حال یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں فاٹا کے نمائندے انضمام کے حق میں ہیں۔ خود انضمام کے لیے قومی اسمبلی میں تحریک فاٹا کے نمائندوں نے جمع کروائی ہے۔ وفاقی حکومت اس کے لئے تیار ہے۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ خیبر پختونخوا کی سب پرانی اور بہت حد تک مضبوط جماعت اے این پی اس کے حق میں ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد میں ہونے والے فاٹا کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ انضمام کے حق میں ہے۔ مگر محمود خان اور ان کی جماعت انضمام کے خلاف ہیں۔ محمود خان اور ان کی جماعت فرماتے ہیں کہ فاٹا کو الگ صوبہ بنایا جائے۔ محمود خان کی جماعت بلوچستان میں گزشتہ ستر سال سے ایک الگ صوبے کی سیاست کر رہی ہے۔ کبھی فرماتے ہیں کہ پرانا چیف کمشنر صوبہ بحال کیا جائے۔ کبھی فرماتے ہیں کہ بولان سے چترال تک ہم ایک نیا صوبہ بنائیں گے۔ کبھی فرماتے ہیں کہ ملک میں مزید انتظامی یونٹ قائم کئے جائیں اور بلوچستان کے پشتون بیلٹ کو جنوبی پشتونخوا نامی صوبہ بنایا جائے۔ گزشتہ ستر سال سے یہ لوگ الگ صوبہ وفاق سے نہیں منوا سکے تو اب سمجھ نہیں آتا کہ فاٹا کو کیسے نیا صوبہ بنوائیں گے؟ فاٹا کے موجودہ حالات اور ایف سی آر جیسے غیر انسانی قانون کو دیکھتے ہوئے اس وقت فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام کا فیصلہ سب سے اچھا، مناسب اور بروقت فیصلہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ محمود اچکزئی کے گنوائے گئے تمام سیاسی فیصلے تاریخ نے غلط ثابت کئے ہیں۔ فاٹا کے انضمام کے فیصلے کی مخالفت بھی غلط ہی ثابت ہو گی۔ مگر محمود خان اچکزئی صاحب کو پرانی غلطیوں پر بھی پشیمانی نہیں ہے تو نئی غلطی پر بھی پشیمانی کا امکان نظر نہیں آتا۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments