وزرائے اطلاعات کےنام کھلا خط


کہنے کو صحافت پاکستانی ریاست کا وہ چوتھا ستون ہے،جس کاکام نہ صرف تینوں اداروں پر نظر رکھنا ہے۔بلکہ عوام کی آواز ،مسائل کو سامنے لانا ہے۔ مگر گزشتہ تین سالوں سے یہ حالات ہیں کہ صحافت کسی افریقی ملک کی وہ آبادی بن چکی ہے۔ جو دو وقت کے کھانے اور سر ڈھانپنےکوبھی لاچارہے۔
اب اس کی وجہ سیٹھ سے پوچھیں تو وہ حکومت کو قرار دیتے،حکومت سے پوچھیں تو وہ کہتے کہ ہم نے اتنے ارب روبے جاری کردئیے،اب سیٹھ جانیں اور آپ جانیں ،ہم کچھ کریں گے تو آزادی صحافت پر حملہ ہوجاتا ہے۔ صحافتی تنظیمیں جو دیگر یونینز کی طرح صحافیوں کے حقوق کی پہرے دار ہوتی ہیں ۔ان کے کردار پر سوال اٹھائیں تو وہ ایک ممتی پریس ریلیز جاری کرکے اپنا دامن جھاڑ لیتی ہیں۔
ان سب کے گھن چکر میں بس عام صحافی پھنس کر رہا گیا ہے۔یقین مانیں ہمارے اینکر صاحبان ، تجزیہ نگار، میرے جیسے لکھاری جو روز اول سے سیاستدانوں کو برا بھلا کہتے آئے ہیں ۔پاکستانی عوام کو لاشعور اور سیاستدانوں کو وعدہ کرکے واپس نہ آنے کی جو (myth)ہم نےبنائی ہے ۔اس کے سب سے بڑے متاثرین بھی ہم خود ہیں ،پاکستانی عوام تو چلو اتنا ایک باشعور ہے کہ چہرے ہی تبدیل کرتے رہتے ہیں ۔
ہم صحافیوں کے ساتھ تو اس سے بھی آگے کا ہاتھ ہوتا ہے کہ جب الیکشنز نزدیک آتے ہیں تو چند نام جو برسراقتدار ہوتے ہیں یا تو وہی دوبارہ منتخب ہوجاتے ہیں ۔یاپھر کنگ میکر بن کر کسی اپنے ساتھی کو منتخب کروادیتے ہیں۔ہر دفعہ بس یہ کہہ کر ووٹ لے لیاجاتا ہے کہ اس دفعہ تو دودھ کی نہریں جو پچھلی باری میں بہتے بہتے رہ گئیں ،اس دفعہ اگر موقع دیا گیا تو نہ صرف بہیں گی بلکہ فری ڈیلیوری کی افر بھی دی جائے گی۔
عام صحافی بیچارہ ترلے منتوں کے بعد ووٹ دے آتا ہے پھر پورا سال ان لوگوں سے ملنے کو ترستا ہے۔خیر موضوع کی طرف آتے ہیں۔اس وقت میں اورمیرے جیسے کئی اور صحافی جو نہ صرف ڈگری ہولڈر ہیں بلکہ ایک مکمل تجربہ بھی رکھتے ہیں کی تنخواہیں درجہ چہارم کے ملازمین سے بھی کم ہیں۔اوپر سے ادائیگی بھی بروقت نہیں ہوتی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری صاحب ، دیگر صوبائی وزرائے اطلاعات ، پی ایف یو جے(تمام دھڑوں)پی یو جے(تمام دھڑوں) آر یو جے ، تمام پریس کلبان ،ایمرا ، سمیت دیگر چھوٹی بڑی صحافتی تنظیموں کے عہدیداران کے نام میں یہ کھلا خط بڑے عرصے سے لکھنا چاہ رہا تھا۔
جناب احبابان اقتدار میں اور میرے جیسے دیگر صحافی دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔کئی ورکر اس فیلڈ کو چھوڑ کر فوڈ ڈیلیوری اور بائیک سروس تک چلارہے ہیں۔میں نے کئی دفعہ پہلے تحریروں میں ذکر کیا کہ اس فیلڈ میں اوسط تنخواہ تیس سے پینتیس ہزار ہے ۔اب جو نوجوان مہنگی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس فیلڈ میں روزگار کے حصول کے لئے آئے ۔اس کو طویل انٹرن شپ کے بعد بیس سے پچیس ہزار روپے پر رکھا جاتا ہے ۔وہ بھی ہر مہینہ نصیب والے کو ہی مل رہی ہے ۔اتنی قلیل تنخواہ میں نہ ہی کوئی انشورنس،نہ ہی میڈیکل کی سہولت نہ ہی پراویڈنٹ اور نہ ہی کوئی دیگر عیاشی میسر ہے ۔
مجھے جب کوئی دوسری فیلڈ ،دوسرے ادارے کا کوئی فریش گریجوایٹ اپنی تنخواہ اور میسر سہولیات کے بارے میں بتاتا ہے۔ تو تب پتہ چلتا کہ ہم کتنا محروم طبقہ ہیں۔ہم تو بیچارے تنخواہ کتنی ہے کےسوال کو الحمدللہ گزارا ہورہا کہہ کر خوبصورتی سے ٹال جاتے۔ مگرجو ہم پر بیت رہی ہے ،نہ ہی سفید پوشی کے بھرم میں کسی کو بتا سکتے نہ ہی تنخواہوں اور واجبات کی ادائیگی پر اپنے لئے آواز اٹھا سکتے۔یہاں تو صحافیوں کے ترجمان ادارے بھی تنخواہ اورواجبات نہ دینے والے اداروں اور مالکان کے نام تک چھاپنے کو تیار نہیں ہوتے۔ہم وہ بے بس ہیں کہ جو سرکاری اداروں ،ملازمین کی کرپشن اور ان کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا واویلا کرتے رہتے ہیں۔مگر اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانےپر جبری برطرفی کا رقعہ تھما دیا جاتا ہے۔
مجال ہے اس وقت کوئی صحافی تنظیم اس حق گو کے لئے کھڑی ہوتی ہو۔ راقم نے محترم فواد چودھری صاحب اور محترم حسان خاور صاحب کے سامنے اپنےحالات رکھے۔ اپنا مدعا بیان کیا کہ کس طرح شادی تک پر مجھے میرے واجبات ،حتی کہ بروقت تنخواہ بھی نہ ملی ہے۔میں اور میرے جیسے کئی ان حالات کا شکار ہوچکے ہیں،ہونے والے ہیں ۔ خدارا ہم ڈپریشن کےماروں کے لئے کچھ کیجئے ، وگرنہ روز قیامت ہم نےاس کسمپرسی ، اس بدحالی پر آپ کا گریبان پکڑنا ہے۔
فواد چودھری صاحب آپ کے پاس وقت ہے کہ ہم متاثرین کے لئے راست اقدام اٹھاکر نہ صرف اپنی دنیا بلکہ اپنی آخرت بھی سنواریں ۔ورنہ ہارٹ اٹیک، خودکشی،بدحالی کے ہاتھوں مرنے والا کا خون آپ اور آپ کے حکومت کےسرپرہوگا۔سر ہم ضبط کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں، میں خود کئی دفعہ خودکشی کا ارادہ کرچکا ہوں، خدارا ہمارا سہارا بنیں ۔بجائے ہم میں سے کسی کے مرنے ،خودکشی کرنے کے بعد مذمتی پریس ریلیزوں ، امدادی رقوم کے اجراء کے ،ہمارے زندہ ہوتے ہی ہمارے لئےکچھ کردیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments