دینِ ملّا فی سبیل اللہ فساد


فرض کریں کہ اگر کوئی مسیحی آپ کو God bless you کہہ دے تو کیا آپ کے نظر تصور خدا تبدیل ہوجاتا ہے؟ اگر آپ کو کوئی غیر مسلم good bye کہہ دے جس کے معنی god be with you کے ہیں تو کیا وہاں بھی آپ خدا سے مراد اس کا خدا سمجھیں گے یا وہ خدا جس کو آپ خدا مانتے ہیں؟ ایسے کئی الفاظ ہیں جو ہم روز مرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہیں جیسے دنوں کے نام Sunday یا Monday جو یونانی زبان کے الفاظ ہیں جن کے معنی سورج کا دن اور چاند کا دن کے ہیں تو کیا ہمارے ذہنوں میں شرک کا تصور تبدیل ہوجاتا ہے؟ معصوم مسلمانوں کے جذبات سے کھیل کر Black Friday کو Blessed Friday میں تو تبدیل کروا دیا گیا لیکن شاید ہی ان فتنہ پروروں میں کسی کو Friday کے معنی بھی معلوم ہوں خیر اسے پردے میں ہی رہنے دیجئے ورنہ مزید مشکلات میں گھر جائیں گے۔ یہاں بات عمومی تاثر کی ہے دوستوں جیسے کوئی غیر مسلم آپ کو عید کے دن عید مبارک کہہ دے تو آپ اسے ایک معتدل اور مہذب سمجھیں گے یا یہ سمجھنے بیٹھ جائیں گے کہ یہ بھی روز عید کو ویسے ہی سمجھتا ہے جیسے کہ آپ۔

اگر آپ کسی کے مذہب میں منائے جانے والے تہواروں پر انہیں اس کی مبارکباد یا اس کا احترام نہیں کرنا چاہتے تو آپ بھی کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ کوئی دوسرے مذہب کے لوگ آپ کی مذہبی رسومات، تہوار اور مقدسات کا احترام کرے گا؟ اگر دین اسلام ہی کی بات کی جائے تو اس میں عمل کا دار و مدار نیت پر ہے، سزا و جزا بھی اس ہی کہ مطابق ملے گی۔ آپ کا کسی بھی مذہب کو اس کے تہوار پر مبارکباد دینے پر آپ کی نیت کے مطابق ہی آپ کو پرکھا جائے گا اس لیے فتنہ پروری سے اجتناب کیجیے اور اس دنیا کو رہنے قابل جگہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

دوسرے مذاہب کے لوگ جو اس ملک کے بھی شہری ہیں ان کے مذہبی تہواروں میں انہیں مبارک باد یا اس کا خیر مقدم کرنے سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ آپ اسے ویسے ہی اپنا لیں جیسے اس کا تصور دوسرے مذہب میں ہے۔ بلکہ اس سے احساس، رواداری اور احترام کا تاثر جاتا ہے۔ آپ ایک مہذب قوم بن کر دنیا کی نظر میں سامنے آتے ہیں۔ اس چھوٹے سے اقدام سے آپ دوسرے مذاہب کو مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کا پیغام دیتے ہیں۔ آپ کے اپنے مذہب کے لوگ جو غیر مسلم ممالک میں مقیم ہیں جنہیں وہاں مذہبی رسومات کی ادائیگی اور تہوار منانے میں مشکلات درپیش ہیں کیا معلوم آپ کے اس عمل سے ان کے لیے بھی آسانیاں ہوجائیں۔

مذہب، عقیدہ، رنگ، نسل، علاقہ و زبان بھلے ہماری مختلف ہوں لیکن رشتہ انسانی کے تحت ہم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور اس رشتے کی بنیاد احساس ہے۔ احساس ہے تو انسانیت ہے احساس نہیں تو کچھ نہیں۔

ہمارا ملک ویسے ہی مذہبی منافرت کی آگ میں جل رہا ہے اپنا شمار اسے بجھانے والوں میں کریں نہ کہ ہوا دینے والوں میں۔ آئیں محبتیں بانٹیں۔ صلہ رحمی سے کام لیں۔ ویسے بھی جن کا وجود انسانیت کے لیے باعث زحمت ہو وہ بھلا رحمت اللعالمین ص کے ماننے والے کیسے ہو سکتے ہیں۔ ؟ اگر دوسرے زاویے سے دیکھیں تو اس ملک میں بسنے والی تمام اقلیتیں اس ملک کی برابر کی شہری ہیں اور ان کے اس ملک میں وہی حقوق ہیں جو اکثریت کے ہیں اس لیے کسی کو بھی ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں، ریاست کو تو بانی پاکستان کی وصیت سمجھ کر اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ مذہب، ذات یا عقیدے کی بنیاد پر اس ملک میں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments