یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو


بچپن میں ایک روپے کی پتنگ کے لئے ایک کلومیٹر تک بھاگتے تھے، کھیلتے کھیلتے کتنی چوٹیں لگ جاتی تھیں، لیکن درد کا احساس نہیں ہوتا تھا، کٹی پتنگ کو پکڑنے کے لیے کئی کلومیٹر تک دوڑتے، سارا سارا دن کھیلتے، لیکن ذرا تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا تھا، ایک دھن تھی، ایک جنون تھا، جو سارا دن ہمیں چست رکھتا تھا آج پتہ چلتا ہے دراصل یہ جنون ایک چیلنج تھا، خوشیوں کو حاصل کرنے کا چیلنج،

خوشیاں آسانی سے نہیں ملتی، بلکہ اسے حاصل کرنے کے لئے دوڑنا پڑتا، ہے محنت کرنا پڑتی ہے، کیونکہ یہ دکانوں پر نہیں ملتی۔

شاید یہی زندگی ہے، جب بچپن تھا تو جوانی ایک خواب تھا، جوانی ایک حسین سراب تھا، یہ ہو جائے گا وہ کر لیں گے، جب جوان ہوئے تو بچپن ایک خوبصورت یاد بن کر رہ گیا، جب گھر میں رہتے تھے تو آزادی اچھی لگتی تھی، اب آزادی ملی ہے تو گھر جانے کی جلدی رہتی ہے۔ کبھی ہوٹل کا کھانا، پیزا، برگر اور کوک بہت پسند تھے۔ آج گھر کا کھانا پسند ہے، سکول میں جن کے ساتھ لڑائی ہوتی تھی آج انہیں انٹرنیٹ پر تلاش کرتے ہیں، خوشی کس چیز کا نام ہے آج پتہ چلا بچپن کیا تھا، اس کا احساس آج ہوا بچپن کی کچھ افواہیں آج بھی یاد ہیں۔

کسی پھل کا بیج کھا لیا تو پیٹ میں درخت اگ آئے گا۔ چاند پر بڑھیا چرخا کات رہی ہے۔ چاندنی رات میں پریاں آئیں گی۔ ٹیچر کی کرسی پر بیٹھو گے تو فیل ہو جاؤ گے۔ آلتو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو پڑھا تو ٹیچر نہیں مارے گا۔

کاش ہم زندگی بدل سکتے اور دوبارہ بچپن میں جا سکتے اور بچپن کا بھرپور مزا لے سکتے جب ہمارے پاس چار رنگوں والا قلم ہوا کرتا تھا اور ہم سب کے بٹن کو ایک ساتھ دبانے کی کوشش کرتے تھے، جب ہم دروازے کے پیچھے چھپتے تھے تاکہ کوئی آئے تو ہم ڈرا سکیں، جب ہم سوچتے تھے یہ چاند ہمارے ساتھ ساتھ کیوں چلتا ہے بلب کے سوئچ کو آن آف کے درمیان اٹکانے کی کوشش کرتے تھے، برتھ ڈے اس لئے مناتے تھے کہ ڈھیر سارے گفٹ ملیں بچپن میں سوچتے کہ ہم بڑے کیوں نہیں ہو رہے اب سوچتے ہیں کہ بڑے کیوں ہو گئے ہیں۔

یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے لے لو مجھ سے یہ میری جوانی
مگر مجھ کو لٹا دو وہ بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments