پی ٹی آٸی کا الیکشن لڑنے کا سٹائل ہی ایسا ہے


ایک شخص نے کسی فقیہ سے دریافت کیا کہ
جب میں نہر میں نہاؤں تو منہ کس طرف کروں؟
قبلہ کی طرف یا دوسری طرف ؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ :
افضل تو یہ ہے کہ تمہارا رخ کپڑوں کی طرف ہو ، (کہیں انہیں کوئی لیکر نہ بھاگ جائے)
کے پی کے کے حالیہ بلدیاتی الیکشن کے ہنگام حکمران پارٹی کا رخ بھی اپنے سیاسی کپڑوں کے بجاٸے جنید صفدر، ان کی اہلیہ، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے لباس کی طرف تھا، جس کی وجہ سے نہ صرف اس کے سر سے افضلیت کی دستار کھینچ لی گٸی بلکہ مولانا نے کمال مہارت سے اس کے سیاسی بخیے بھی ادھیڑ دیے۔
اپنے ہوم گراٶنڈ پر بلدیاتی الیکشن میں بری طرح پٹنے کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ حکمران پارٹی پوری سنجیدگی، برد باری اور حقیقت پسندانہ انداز سے شکست کی ٹھوس وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کرتی(جو بالکل اظہر من الشمس ہیں)اور اپنی نا اہلی اور نا لاٸقی تسلیم کر کے ان مساٸل کا مداوا کرتے جو شکست کا باعث بنے ہیں۔ مگر شومیٕ قسمت کہ وزیراعظم اور وزیر مشیر بڑی ڈھٹاٸی اور ہٹ دھرمی سے عجیب و غریب عذر لنگ تراش کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ کوٸی اس شکست کی وجہ مہنگاٸی کوقرار دے رہا ہے مگر ہمارے وزیراعظم تو تواتر سے فرما رہے ہیں کہ پاکستان سستا ترین ملک ہے۔ پھر سمجھ نہیں آتی کہ حکمران پارٹی سستے ترین ملک میں مہنگاٸی کی وجہ سے الیکشن کیسے ہار گٸی؟سستی کال مہنگی والا معاملا نہیں ہو گیا؟
کسی نے عذر لنگ تراشا کہ الیکشن میں حکمت عملی ٹھیک نہیں تھی۔ ٹکٹس دیتے وقت موروثیت، اقربا پروری اور عزیز داری کا خیال رکھا گیا، سیاسی وفا داری نہیں دیکھی گٸی۔ پی ٹی آٸی کے کھلاڑی آپس ہی میں کھیل رہے تھے۔ کسی نے حیلہ بنایا کہ کپتان کے کھلاڑیوں کے لیے پچ سازگار تھی، امپاٸر تھا، اس کی انگلی تھی، تھرڈ امپاٸر کی مدد تھی اور نہ روحانی”بابے رحمتے” کے دم درود اور جھاڑ پھونک کا آسرا تھا۔ اس کے علاوہ کپتان کے کچھ کھلاڑی تو “بوٹوں” کے بغیر کھیل رہے تھے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔
کپتان کے شکست خوردہ لشکر کے نڈھال سپاہیوں کی یہ آہ و زاری اور بہانہ بازی دیکھ کر راقم کو ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے۔ ایک کھلنڈرا، بانکا، ظاہردار اور نمود و نماٸش کا رسیا نوجوان بس سے اترتے وقت لڑکیوں کو کسی حرکت سے اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتا تھا۔ اور تو اسے کچھ نہ سوجھا، بس سے اترتے ہوٸے اس طرح کی قلابازی کھاٸی کہ اوندے منہ گر پڑا۔ لڑکیوں سمیت سب مسافر اس کی طرف لپکے تاکہ اس کی خیریت معلوم کر سکیں۔ نوجوان کو پی ٹی آٸی کی طرح اندرونی اور بیرونی چوٹیں تو بہت آٸیں مگر شرمندگی کے مارے زبردستی مسکرانے کی کوشش کر کے مسافروں کی طرف دیکھ کے بولا کہ”ہمارا بس سے اترنے کا سٹاٸل ہی ایسا ہے”۔
پی ٹی آٸی کی قیادت اور کارکنان بھی الیکشن ہارنے کے بعداس لفنگے نوجوان کی طرح یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ جان بوجھ کر الیکشن ہارے ہیں۔ کے پی کے وزیراعلٰی نے الیکشن ہارنے کے حوالے سے وزیراعظم کو ایک مفصل رپورٹ پیش کی جس میں انہوں نے شکست کی اصل وجوہات بتانے کے بجاٸے آٸیں باٸیں شاٸیں کر کے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی۔ حکمران پارٹی جس طرح مرضی خود کو طفل تسلیاں دے مگر حقیقت یہ ہے کہ شکست کی اصل وجہ اندرونی اختلاف یا ٹکٹوں کی تقسیم ہر گز نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ چند سال پہلے بت گروں کی طرف سے پیش کیاجانے والا بت عوام نے پاش پاش کردیا۔
اگر حکمرانوں کا طرز استدلال درست ہے تو پھر وہ چودہ میں سے بارہ ضمنی انتخاب کیوں ہارے؟کنٹونمنٹ بورڈز کے الیکشنز میں انہیں عبرت ناک شکست کیوں ہوٸی؟ لاہور، ملتان، کراچی، راولپنڈی، سیالکوٹ میں کیوں ہارے؟وہاں تو اندرونی اختلافات اور ٹکٹوں کی تقسیم کا کوٸی مسٸلہ نہ تھا۔ سچ یہ ہے کہ کپتان کی نام نہاد باٸیس سالا جدوجہد کا جنازہ نکل گیا۔ کپتان کا بیانیہ بری طرح پٹ گیا۔ ان کی حکومت کی نااہلی اور بدترین کارکردگی نے نے انہیں اس انجام سے دو چار کیا ہے۔ مہنگاٸی، کرپشن، اقربا پروری، بے اصولی، بد انتظامی، گیس، بجلی، پٹرول، ادویات و اشیاٸے خورونوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے نے انہیں شکست فاش دی۔ بالا واسطہ اور بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار نے سونامی کا رخ موڑ دیا۔ اس حکومت نے تو نادر شاہ کے دور کا یہ ظالمانہ محاورہ زندہ کر کے غریب عوام کو زندہ درگور کر دیا کہ”کھادا پیتا لاٸیے دا، باقی نادر شاہیے دا”
جو لوگ ووٹ کو عزت دینے کی دہاٸی دے رہے تھے وہ کے پی کے میں تو کوٸی کارکردگی نہ دکھا سکے تاہم مولانا کی جیت پر بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کے مصداق جشن فتح ضرور منا رہے ہیں۔ حکمران پارٹی اپنی شرمناک ہزیمت کا تاثر زاٸل کرنے کے لیے ایک یہ بھونڈی سی دلیل دے رہی ہے کہ کپتان نے پہلی بار ملک میں بلدیاتی انتخابات کے ذریعے بنیادی جمہوریتوں پر عمل درآمد کے خواب کو شرمندہٕ تعبیر کیا ہے۔ یہ بات کرتے ہوٸے انہیں ذرا بھی ندامت نہیں ہوتی کہ بلدیاتی الیکشن کپتان یا اس کی ٹیم کا کارنامہ نہیں سپریم کورٹ کے حکم کا شاخسانہ ہے۔ ایک خبر یہ بھی گردش کر رہی ہے کہ پہلے مرحلے میں شکست کے بعد کپتان کے حکم پر کے پی کے حکومت نے دوسرے مرحلے کے الیکشن انعقاد کے حوالے سے لیت و لعل اور ٹال مٹول سے کام لینا شروع کردیا ہے۔ کے پی کے جہاں پی ٹی آٸی کا اقتدار آٹھ سال سے چلا آرہا ہے، میں یہ حال ہے تو پنجاب میں کیا ہوگا جسے فتح کرنا کپتان کے نزدیک پانی پت کی چوتھی جنگ جیتنے جیسا ہے۔ اندریں حالات راقم کو نہیں لگتا کہ دیگر صوبوں میں حکومت بغیر “چھتری” الیکشن کروانے پر آمادہ ہو گی۔
کے پی کے کی شکست کے بعد شاید وزرا، ترجمانانِ شیریں بیان اور ہر وقت ن لیگ اور اپوزیشن پر تیرِ الزام اور سنگِ دشنام برسانے والے شہباز گلوں، فیاض چوہانوں، چودھری فوادوں اور مرادوں سے مانگے سعیدوں کو معلوم ہوگیا ہو گا کہ جنید صفدر کی شادی کے دوران اگر ان کی توجہ شریف خاندان کے لوگوں کے لباسوں، ان کی قیمتوں، بٹنوں اور ان پر سجے ہیرے موتیوں کے بجاٸے ووٹروں اور ان کی حالت زار کی طرف ہوتی تو ان کی پارٹی کو اس قدر عبرت انگیز شکست نہ ہوتی۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments