کچھ ہونے والا ہے؟


پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اس کے چیئرمین وزیراعظم عمران خان کو خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات مہنگے پڑ گئے ہیں۔ یہ صوبہ ان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، تاریخ میں پہلی بار انہوں نے صوبائی اسمبلی کے یکے بعد دیگرے دو انتخابات جیتے تھے۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر اکثریت حاصل کی گئی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کا اُس وقت بھی یہ کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا راستہ روکا جائے۔ مسلم لیگ(ن) جو وفاقی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر چکی تھی، ان کا ساتھ دے تو وہ آزاد امیدواروں کو اپنی جانب مائل کر سکتے ہیں، لیکن نواز شریف اس پر راضی نہیں ہوئے۔ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی، اس کے حلقہ بگوش بہت جذباتی تھے۔ پورے ملک میں خان صاحب نے اک آگ سی لگا رکھی تھی۔ وفاقی سطح پر کامیابی حاصل نہ کرنے کے باوجود ان کے حامی نوجوان آپے سے باہر ہو ہو جاتے تھے، سوچا یہ گیا ہو گا کہ اگر خیبرپختونخوا میں عمرانی حکومت قائم ہو جائے گی تو پارلیمانی سیاست مضبوط ہو گی۔ صوبائی حکومتیں پرفارمنس کے میدان میں بازو آزمائیں گی، اور ایجی ٹیشنل پالیٹکس کمزور ہو جائے گی۔ سو مسلم لیگ میدان میں نہیں اتری، مولانا صاحب اپنا سا منہ لے کررہ گئے، اور پرویز خٹک نے وزارت علیا کی ذمہ داری سنبھال کر اپنا اور اپنے قائد کا ڈنکا بجانا شروع کر دیا۔ بعد کی اطلاعات کے مطابق وہ اپنا ڈنکا زیادہ بجاتے پائے گئے، یا ان کے قائد کو یہی احساس ہوا یا دلایا گیا، نتیجتاً وہ 2018ء کے انتخابات کے بعد صوبہ بدر کر کے وفاق میں وزارتِ دفاع کے سپرد کر دیئے گئے

پرویز خٹک سرد خانے میں ”منجمد“ ہو گئے تو صوبہ عمران خان صاحب نے اپنے من پسند وزیراعلیٰ (محمود خان) کے سپرد کر دیا۔ 2018ء میں پی ٹی آئی نہ صرف وفاقی سطح پر سب سے بڑی پارٹی بنی، بلکہ خیبرپختونخوا میں بھی صوبائی اسمبلی کی کم و بیش دوتہائی نشستوں پر کامیاب ہو گئی۔ ہمارے پشتون بھائی ایک حکومت کو دو بار منتخب نہیں کرتے یا کوئی حکومت ان کی توقعات پر پورا اتر نہیں پاتی، لیکن پی ٹی آئی کے معاملے میں نئی تاریخ رقم ہو گئی۔ پہلے سے بھی زیادہ ووٹ اور نشستیں لے کر اُس نے خیبرپختونخوا کو اپنا قلعہ بنا لیا۔ یہاں کے نوجوانوں اور بڑے بوڑھوں کو ایک ایسا لیڈر ہاتھ آ گیا تھا، جو ملک بھر میں ان کا جھنڈا لہرا سکتا تھا۔ خان عبدالقیوم خان کے بعد عوامی سطح پر ایک اور ”خان“ پذیرائی حاصل کر چکا تھا، سو مرجع خلائق تھا۔ پی ٹی آئی آگے بڑھتی گئی، اور سابق صوبہ سرحد کے نئے خان نے اسے ہاتھ کی چھڑی یا جیب کی گھڑی سمجھ  لیا۔ دور و نزدیک بھی یہی سمجھا جانے لگا کہ کوئی دوسرا یہ قلعہ سر نہیں کر سکے گا۔ یہاں تاحیات عمرانی پرچم لہراتا رہے گا……لیکن اسی ماہِ دسمبر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات نے نقشہ یکسر پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ جماعتی بنیادوں پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات نے تحریک انصاف کے چھکے چھڑا دیے ہیں۔

عمران خان خیبرپختونخوا کے بلدیاتی نظام کو پورے پاکستان کے سامنے مثال بنا کر پیش کرتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں انہوں نے ایسا قانون بنوایا تھا، جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ مقامی اداروں سے جڑ گئے تھے۔ محلہ اور دیہی کونسلیں بہت سوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھیں۔ بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کے حق میں عمران خان کے دلائل سیاسی کارکنوں کو ازبر ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی اس حوالے سے کھسیانی ہو جاتی تھیں، کہ دونوں نے اپنے اپنے طور پر مقامی اداروں کو بااختیار بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی تھی۔ خیبرپختونخوا کی نئی حکومت بھی بلدیاتی اداروں کے حق میں زیادہ پرجوش نظر نہیں آتی۔ کورونا کے بہانے انتخابات ملتوی تھے، قانون میں ترمیم کر کے ضلع کونسلوں کو ختم کر دیا گیا تھا۔ اب زور تحصیل کونسلوں پر تھا۔ محلہ اور دیہی کونسل کے انتخابات بھی غیر جماعتی بنیاد پر کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔

اپوزیشن (خصوصاً جماعت اسلامی) کا الزام تھا کہ ضلع کونسلیں ختم کر کے ان کے اختیارات صوبائی حکومت نے اپنے جیب میں ڈال لیے ہیں۔ تحصیل کونسلیں ان کی طرح طاقتور نہیں ہوں گی۔ محلہ اور دیہی کونسل میں غیر جماعتی انتخابات کو بھی قبول نہیں کیا جا رہا تھا۔ سو پشاور ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا، وہاں سے ضلع کونسلیں تو بحال نہ ہوئیں، لیکن ہر سطح کا انتخاب جماعتی بنیاد پر کرانے کا پروانہ جاری ہو گیا۔ وزیراعلیٰ محمود خان کی حکومت سپریم کورٹ پہنچی وہاں دہائی دی کہ محلہ اور دیہی کونسلوں کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کرانے کی اجازت دی جائے، التوا کی خواہش بھی ظاہر کی گئی، لیکن سپریم کورٹ کے فل بنچ نے بھی نہ صرف پشاور ہائی کورٹ کا حکم برقرار رکھا، بلکہ الیکشن کمیشن کو مقررہ تاریخ (19دسمبر) پر قائم رہنے کا حکم دے دیا۔ یوں 17 اضلاع میں انتخابی عمل مکمل ہو گیا۔ دوسرا مرحلہ جنوری میں درپیش ہو گا۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تحصیل اور سٹی کونسل کے سربراہ کا انتخاب براہِ راست منعقد ہوا، رائے دہندگان نے جماعتی بنیادوں پر ووٹ دیے۔ عمران خان اپنے بلدیاتی نظام کو سب سے اچھا قرار دیتے ہیں، اگرچہ کہ پنجاب میں معاملہ الٹ رہا ہے، تاہم یہ ایک الگ موضوع ہے۔ قصہ مختصر، عمران خان کو ان کے حریف اول مولانا فضل الرحمن نے پچھاڑ دیا ہے۔ تحریک انصاف سے جمعیت العلمائے اسلام آگے نکل گئی ہے۔ تحریک کے ووٹ اس کو نشستوں میں برتری نہیں دِلا سکے۔ شہروں میں بھی مات ہو گئی، اور تحصیلوں میں بھی وہ پیچھے رہ گئی۔ پشاور پر مولانا فضل الرحمن کے داماد حاجی زبیر علی کے بھائی قابض ہو چکے ہیں۔ تحریک نے ووٹ تو 24 فیصد لے لئے ہیں، مولانا سے ایک فیصد زائد، لیکن نشستیں کم ہاتھ آئی ہیں، اور بلاشرکت غیرے حکمرانی کا دعویٰ بھی بکھر گیا ہے۔ خیبرپختونخوا ہاتھ سے نکلتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ اس کی وجوہات تلاش کی جا رہی ہیں، توجیہات پیش کی جا رہی ہیں، عمران خان مختلف اقدامات کر رہے ہیں، کبھی مہنگائی کو ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے، تو کبھی ٹکٹوں کی تقسیم کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ کوئی وزیراعلیٰ پر گرم ہے، تو کوئی گورنر اور سپیکر پر برس رہا ہے۔ ہر ایک کی انگلی دوسرے پر اٹھ رہی ہے…… لیکن جو ہونا تھا، وہ ہو چکا۔ اِدھر اُدھر، جو پیغام جانا تھا وہ جا چکا… پارٹی میں کھلبلی مچی ہے تو مخالف حوصلہ پکڑ رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کا حوصلہ مزید بلند ہوا ہے، تو زرداری صاحب بھی دو دو ہاتھ کرنے کے لیے بے چین ہو رہے ہیں۔ ان کے تیور بگڑ گئے ہیں۔ نواز شریف کی واپسی کی خبریں گرم ہیں۔ سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق مسکرا مسکرا کر کہہ رہے ہیں، کچھ ہونے والا ہے۔ لاہور میں خواجہ رفیق شہید کی 49ویں برسی کے حوالے سے منعقد ہونے والے بہت بڑے اجتماع میں انہوں نے خواجہ سعد رفیق، لیاقت بلوچ، خواجہ آصف اور خواجہ حسان کو گواہ بنا کر پراسرار انداز میں کہا وہ لندن میں نواز شریف سے مل کر آئے ہیں، ایک بار پھر ملاقات کے لئے جانے والے ہیں۔ ان کے معنی خیز اشارے خان صاحب کو ڈرا رہے تھے کہ ”تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں“…… پی ٹی آئی کے ترجمانوں کو جناب چیئرمین ہدایت کر رہے ہیں، نواز شریف پر ٹوٹ پڑو، کرپشن کی کہانیاں عام کرو، ان پر زور دو، نواز شریف سزا یافتہ ہے، وہ کیسے اقتدار میں واپس آ سکتا ہے؟…… سیاسی پنڈت زائچے بنا رہے ہیں، ایاز صادق لیکن اپنے الفاظ پر قائم ہیں …… کچھ ہونے والا ہے…

بشکریہ: ڈیلی پاکستان

مجیب الرحمن شامی
Latest posts by مجیب الرحمن شامی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مجیب الرحمن شامی

یہ کالم روز نامہ پاکستان کے شکریے کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے

mujeeb-ur-rehman-shami has 129 posts and counting.See all posts by mujeeb-ur-rehman-shami

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments