زندہ باد کہنے دو


\"\"لے کے رہیں گے، پاکستان بٹ کے رہے گا ہندوستان کا نعرہ لگانے والے تقسیم ہند کے بعد مسلم اقلیتی صوبوں سے ہجرت کرکے پاکستان چلے آئے۔ جس کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد کے وہ الفاظ سچ ثابت ہونے لگے جن کا ذکر محترم وجاہت مسعود نے اپنے حالیہ کالم میں کچھ یوں کیا ہے کہ’ یو پی سے پاکستان جانے والے ایک گروہ سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد نے فرمایا کہ آپ مادرِ وطن چھوڑ کر جا رہے ہیں آپ نے سوچا اس کا انجام کیا ہوگا۔ آپ کے اس طرح فرار ہوتے رہنے سے ہندوستان میں بسنے والے مسلمان کمزور ہوجائیں گے اور ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے جب پاکستان کے علاقائی باشندے اپنی اپنی جداگانہ حیثیتوں کا دعویٰ لے کر اٹھ کھڑے ہوں۔ بنگالی، پنجابی، سندھی، بلوچ اور پٹھان خود کو مستقل قومیں قرار دینے لگیں۔ کیا اس وقت آپ کی پوزیشن پاکستان میں بن بلائے مہمان کی طرح نازک اور بے بسی کی نہیں رہ جائے گی؟‘۔ وقت گزرتا گیا اور مولانا کے الفاظ حقیقت میں تبدیل ہوتے گئے۔ مقامی افراد نے ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کو مختلف القاب سے نوازنا شروع کردیا۔ انہیں مکڑ، مٹروہ، تلیئر اور مہاجر کہا جانے لگا۔ تضحیک و تحقیر کے لئے کہے جانے والے ان الفاظ میں سے سننے والوں کو لفظ مہاجر سب سے مناسب لگا اور آزادی کے اکتیس برس بعد آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نام سے ایک طلبہ تنظیم وجود میں آگئی۔ یوں پاکستان میں مہاجر سیاست کا آغاز ہوگیا۔ مہاجر سیاست کا آغاز تو ملک میں اس واقعہ کے بعد ہی ہوگیا تھا جس کا ذکر محترم وجاہت مسعود نے اپنے مذکورہ کالم میں کیا ہے کہ ’ لیاقت علی خان قیامِ پاکستان کے بعد لاہور کے ایک جلسہ عام میں بطورِ وزیر اعظم خطاب کرنے آئے تو مسلم لیگ کے کچھ مقامی فرستادہ جانثاروں نے عین ڈائس کے سامنے لباسِ زیریں سے بے نیاز ہو کر رقص فرمایا تھا‘۔ راولپنڈی میں نوابزادہ لیاقت علی کے قتل کے بعد ملک میں مہاجر سیاست کے مستقبل کو مزید مستحکم بنادیا گیا۔ ایوبی آمریت کے دور میں محترمہ فاطمہ جناح اور ان کے رفقا و حامیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک اور دارالخلافے کی تبدیلی نے مہاجر سیاست کے لئے مضبوط جڑیں فراہم کردیں۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں کوٹہ سسٹم کے نفاذ اور لسانی بل نے مہاجر سیاست کی راہیں ہموار کردیں۔ 1978ء میں جامعہ کراچی میں جنم لینے والی مہاجر طلبا تنظیم نے چھ سال بعد ایک سیاسی جماعت کا روپ دھار لیا اور کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کی سیاست ایک نیا رخ اختیار کرگئی۔ تحقیر آمیز رویوں کی آندھی کے جھکڑوں کے رد عمل میں تعصب کے بگولے اٹھنے لگے۔ ایم کیو ایم کے قیام سے قبل سندھ کے تعلیمی اداروں میں اردو بولنے والوں سے جو سلوک ہوتا تھا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ان تلخ باتوں کا دہرانا کسی طور مناسب نہیں کہ نفرتیں پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے مگر کبھی کبھی حال کی تلخیوں کی وجہ بیان کرنے کے لئے ماضی کی تلخیوں کا تذکرہ ضروری ہوتا ہے کہ حال و ماضی کی تلخیاں مل کر ممکن ہے ایک شیریں مستقبل کو جنم دے دیں۔ عرض یہ ہے کہ سندھ کے تعلیمی اداروں کے ہاسٹلوں میں فولنگ یعنی بے وقوف بنائے جانے کے نام پر اردو بولنے والے طالب علموں سے برہنہ رقص بھی کروایا جاتا تھا۔ کالجوں و یونیورسٹیوں کی بسوں میں غیر سندھی طلبا کی پہچان کے لئے اں کے سروں کا پچھلا حصہ دیکھا جاتا تھا اگر سر چپٹا ہے تو وہ سندھی ہے ورنہ غیر سندھی۔ جس کے بعد سے اردو بولنے والی ماو¿ں نے بھی اپنے شیر خوار بچوں کے سر بٹھانے شروع کردیے تھے۔ اس کے علاوہ غیر سندھی کی پہچان کے لئے سندھی زبان کے ایسے الفاظ کہلوائے جاتے تھے جو کسی غیر سندھی کے لئے ادا کرنا مشکل ہوتے تھے۔ یقینا ان تلخیوں کا ذکر راقم کے لئے بھی تکلیف دہ ہے کہ جہاں لکھاری کو محبتوں کا امین ہونا چاہئے وہاں اس کے قلم سے اگر نفرت کی سیاہی ابلنے لگے تو بات تشویش کی ضرور ہے مگر کیا کیا جائے کہ ذکر جب چِھڑ گیا ابوالکلام کا….احساس ہی نہ رہا پھر طرزِ کلام کا۔ بہرحال مہاجر قومی موومنٹ کے قیام کے بعد لفظ مہاجر ان لوگوں کو بھی برا لگنے لگا جو اردو بولنے والوں کو مہاجر کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ 1992ء کے فوجی آپریشن کے بعد سمجھ دار لوگوں کے مشورے نے کام دکھایا اور مہاجر قومی موومنٹ متحدہ قومی موومنٹ بن گئی۔ یوں ایم کیو ایم ابوالکلام آزاد کی نصیحت پر کان نہ دھرنے والوں کی نمائندہ جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ متحدہ بننے کے بعد اپنے اوپر لگا لسانی جماعت کا لیبل ہٹانے کے لئے غیر مہاجر افراد کو بھی سینٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ٹکٹ دیے گئے اور انہیں ایوانوں میں پہنچایا گیا۔ یہ ایک بہترین جواب تھا ان کے لئے جو ایم کیو ایم کو نفرتوں کی سیاست کا علمبردار کہتے تھے۔ عزیزآباد جو کہ ایم کیو ایم کا گڑھ کہلاتا ہے وہاں سے غیر مہاجر امیدواروں کو کامیاب کروایا گیا۔ جبکہ شروع دن سے اپنے آپ کو قومی جماعتیں کہلانے والی پارٹیوں نے کبھی ایسی مثال پیش نہیں کی کہ لاڑکانہ، لاہور، میانوالی یا پشاور سے کسی اردو بولنے والے کو کامیاب کروایا جائے تاکہ محبتوں کو فروغ مل سکے۔ ایم کیو ایم کی سیاست کے جو منفی پہلو رہے ہیں ان سے کوئی ذی شعور اتفاق نہیں کرسکتا مگر مثبت پہلوو¿ں کو نظر انداز کردینا بھی سراسر زیادتی ہے۔ 1988ء میں ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بڑی تعداد میں متوسط طبقے کے لوگ ایوانوں میں پہنچے جس کی وجہ سے ملک کے دوسرے صوبوں کے عوام میں بھی ’سٹیٹس کو‘ کو چیلنج کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا۔ 1992ء کے فوجی آپریشن میں جناح پور کے نقشے بھی برآمد ہوئے اور ایم کیو ایم پر’ را‘ سے تعلقات کا الزام بھی لگایا گیا مگر بعد میں بریگیڈئیر امتیاز نے ایک ٹی وی شو میں اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ سارے الزامات بے بنیاد تھے۔ آج کل بھی ایم کیو ایم اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد کے قابل اعتماد ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ خصوصاً 22 اگست کی تقریر کے بعد سے ایم کیو ایم انتشار کا شکار ہے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کی اکثریت الطاف حسین کے ساتھ ہے۔ عوام کس کے ساتھ ہے اس بات کا فیصلہ آنے والے انتخابات میں ہی ہوسکے گا۔ 22 اگست کی تقریر پر معافی مانگنے کے بعد اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جس شہر میں اس نے مردہ باد کا نعرہ لگایا تھا وہاں وہ دل سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانا چاہتا ہے اور آج بھی وہ عوام میں مقبول بھی ہو تو ایسی صورتحال میں ملک کے طاقتور حلقوں کو سوچنا ضرور چاہئے۔ دوسری سب سے اہم بات یہ کہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کی دورانِ حراست ہلاکتوں کی وجہ سے سندھ کے شہری علاقوں میں مولانا ابوالکلام آزاد کی آواز کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ بازگشت کو ختم کرنے کے لئے ان آوازوں کو بلند ہونے دیا جائے جن کو دبانے کی وجہ سے ستر سال پہلے کی کسی آواز کی بازگشت گونج رہی ہے اور آج کی آوازوں کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments