کیا سابق کرکٹر سعید انور کی اہلیہ شروع سے سادہ مزاج تھیں


سابق ڈیشنگ کرکٹر اور موجودہ دور کے مولانا سعید انور کا ایک ویڈیو کلپ نظروں سے گزرا جس میں وہ اپنی اہلیہ کے متعلق مخصوص تعریفاتی جملے کچھ اس طرح سے بیان فرما رہے تھے۔ “میری بیوی ایک ڈاکٹر تھی اس کی میرے ساتھ شادی ہوگی اور اسی وجہ سے وہ سپیشلائزیشن نہ کرسکی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں اکیلے سفر نہیں کر سکتا تھا کیونکہ ہمارا ماحول بہت گندا تھا۔ انیس سو چھیانوے میں میری شادی ہوئی اسی وقت سے میری بیوی میرے ساتھ ہے۔ وہ ڈاکٹر بنی ہے اور آگے مزید نہ پڑھ سکی لیکن وہ اب سب کچھ بھول گئی ہے لیکن اللہ کے فضل سے میں آپ کو کیا بتاؤں کہ نہ میری بیوی کو مہنگے کپڑے پہننے کا شوق ہے، نہ جیولری کا، نہ لچھے دار جوتے پہننے کا اور نہ ہی گاڑی کا شوق ہے۔ اس کو بس ایک ہی شوق ہے وہ ہے میرے ساتھ سفر کرنے کا، اللہ نے اس کے سارے شوق ختم کردیے”

 ان جملوں کو ہم یہ کہہ کر بھی نظر انداز کر سکتے ہیں یہ دونوں کا نجی معاملہ ہے وہ اپنے حساب سے جیسے چاہیں زندگی گزار سکتے ہیں اور ہمیں مداخلت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر جب آپ ایک “پبلک فگر” کی حیثیت سے اپنی سوچ کھلے عام شیئر کرتے ہیں تو یہ باتیں “تبلیغ و ترغیب ” کے دائرے میں آ جاتی ہیں اور سوالات بھی اٹھتے ہیں جس کا پھر آپ کو جواب بھی دینا پڑتا ہے۔سب سے پہلا اعتراض تو یہ بنتا ہے کہ کیا شرعی طور پر آپ اپنی شریک حیات کے ازدواجی معاملات کو پبلک میں ڈسکس کر سکتے ہیں ؟ کیونکہ آپ کے نزدیک اگر عورت کا ایک بال بھی ظاہر ہو جائے تو اس پر لعنت برسنا شروع ہوجاتی ہے مگر آپ تو پبلک میں بال تو درکنار ایک پورا نجی باب آشکار کر رہے ہیں تو کیا شرعی طور پر اپنی بیوی کی زندگی کو دوسروں کے سامنے کھولنا جائز ہے؟ کیا وقتی مقبولیت اور تبلیغ میں چاشنی پیدا کرنے کے لیے اپنی بیوی کی باتیں مجمع میں بتائی جا سکتی ہیں؟ کیا یہ گناہ بے لذت کے زمرے میں نہیں آئے گا؟ کیا یہ مخفی یا غائبانہ طور پر شو بزنس کا حصہ نہیں کہلائے گا؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ ان باتوں کو عوام کے سامنے ڈسکس کرنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے ؟ کیا آپ یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ میری بیوی نے میرے لیے سب کچھ چھوڑ دیا اور وہ معاشرتی رول ماڈل بن گئی اور دوسری خواتین کو بھی اس کی پیروی کرنا چاہیے؟ یہ سوال پوچھنے کی جسارت اس لیے کی ہے کہ جس تبلیغی جماعت کی پیروی کرتے ہوئے آپ ان سب ذاتی کرامات کا تذکرہ کر رہے ہیں ان کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے جال میں پھانسنے کے لئے اپنے سفری احوال اچھی طرح بنا سنوار کر اور بڑے فخر کے ساتھ ایک بڑے مجمع میں شئیر کئے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ترغیب ہو۔

یہ کتنا بڑا تضاد زندگی ہے کہ شوہر اپنی بھرپور چارمنگ کرکٹنگ لائف انجوائے کر چکا ہو اور بیوی کی بطور ڈاکٹر پروفیشنل لائف اپنے تبلیغی سفر کی خاطر تباہ کر دے کیونکہ اس نے آپ سے شادی اس وقت کی تھی جب آپ اپنے کیرئر کے ٹاپ پر تھے اور اسے کیا پتا تھا کہ اس نے ڈاکٹر بننے کے لیے جو اتنی طویل ریاضت کی ہے وہ اپنے شوہر کی پاکدامنی کے تحفظ کی نذر کرنا پڑ جائے گی اور اسے اپنے شوہر کے مشن کی خاطر سب کچھ بھلانا پڑ جائے گا۔ آپ کا یہ فرمانا کہ میری بیوی کے تمام شوق ختم ہوگئے تو جیسا دیس ویسا بھیس اور آخر وہ بھی تو ایک مشرقی خاتون ہے جسے گھر سے ہی خاوند کی خوشنودی کا پیغام دماغ میں فیڈ کرکے ازدواجی حیثیت سے نوازا گیا ہے وہ بھلا اپنی مرضی سے اپنی حد کیسے پار کر سکتی ہے؟

ویسے حیرانی کی بات ہے کہ آپ نے اپنی بیوی کے تمام مہنگے شوق ختم کر ڈا لے جبکہ آپ کے روحانی مرشد طارق جمیل نے مہنگا ترین ایم ٹی جے برانڈ متعارف کروا دیا ہے، یہ کیا معاملہ ہے؟ اصولی طور پر سود حرام جب وقت مصلحت آیا تو مفتی تقی عثمانی نے اسلامی بینکاری کو جائز قرار دے کر فتوی جاری کر دیا اور مذہبی مہر کے بعد سب کچھ جائز ٹھہرا ۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آپ کی اہلیہ ایک کامیاب ڈاکٹر بن کر غریبوں کا مفت علاج کرکے تبلیغ کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں دکھی انسانیت کی مسیحائی کر سکتی تھی کیونکہ اس فیلڈ میں کامیاب اور بااخلاق ڈاکٹرز کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور المیہ کی بات یہ ہے کہ اس فیلڈ کا سب سے زیادہ استحصال اسی فیلڈ کے مسیحا کر رہے ہیں۔ تبلیغی مبلغین میں تو ہم پہلے ہی بہت خود کفیل ہیں۔

تبلیغی جماعت کا یہ شروع سے مشن ہے کہ وہ ہر فیلڈ کے “ٹاپ رنر” کی تلاش میں رہتے ہیں کیونکہ یہ ان کے تشہیری آلات ہوتے ہیں جن کی بدولت جماعت کی گنتی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے،ان کے لیے تو یہ اضافہ بڑا فائدہ مند ہوتا ہے مگر جس فیلڈ کی”کریم” کو وہ بہلا پھسلا کر پھنسا لیتے ہیں، اس کی پروفیشنل لائف اور اس کی اپنی فیلڈ کے متعلق تمام صلاحیتوں حتی کہ اس کی ساری اوریجنل شخصیت کو ہی مسخ کر ڈالتے ہیں۔ بہت سے کرکٹرز، سنگرز، اداکار اور ڈرامہ نویسوں کا ٹیلنٹ تبلیغ کی نذر ہو کر ختم ہو گیا۔

میرے علاقہ میاں چنوں میں دو بڑے قابل ڈاکٹر تھے ایک ڈاکٹر صاحب تبلیغ کی نذر ہو کر ہسپتال سے ریٹائر ہو کر چلا کشی میں مصروف پائے جاتے ہیں جب کے دوسرے ڈاکٹر صاحب تبلیغ میں لگنے سے پہلے مکمل دیانتداری سے بغیر کسی مریض کا مذہب و فرقہ جانے اپنی میڈ یکل پریکٹس میں مصروف رہتے تھے اور اب تبلیغ کے سحر میں گرفتار ہو جانے کے بعد ہر مریض سے اس کا مذہب و فرقہ پوچھنے لگے ہیں، جب بھی کوئی مریض آتا ہے میڈیکل چیک اپ کرنے سے پہلے آدھا گھنٹہ تبلیغ کرتے ہیں پھر چیک اپ کرتے ہیں۔

مولانا سعید انور صاحب آپ جس مائنڈ سیٹ کی ترجمانی کر رہے ہیں اسے ہمارے معاشرے میں “میل شاونزم” یعنی مردانہ برتری والی ذہنیت کہا جاتا ہے جس کے مطابق شوہر ہی رشد و ہدایت کا منبع ہوتا ہے اور عورت کی زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط مرد طے کرتا ہے اور عورت کو بس اندھی پیروی کرنا ہوتی ہے۔ عورت کو ہی اپنی خواہشات کا گلا گھونٹنے پر مجبور کیوں کیا جاتا ہے؟ یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ آپ نے اپنے سارے شوق پورے کر لئے اور آپ کی بیوی کے سارے شوق اللہ نے ختم کر ڈالے؟ یہ آپ کی شخصیت کا عظیم کمال ہے بلکہ کرامت کہہ لیں تو زیادہ بہتر رہے گا کہ آپ کی قربت میں داخل ہو کر ایک باشعور اور پڑھی لکھی خاتون زندگی میں آگے بڑھ کر کچھ کرنے کی بجائے اپنی شخصیت کو ہی مسخ کر دے اور آپ خاموشی سے اسے نعمت کا درجہ دے کر لوگوں میں اس کی ترویج کرتے پھریں تو اس ساری صورتحال میں قابل تعریف بات کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے جسے آپ اپنی قربت کی کرامت سمجھ رہے ہوں وہی حقیقت میں کسی کی قابلیتوں وصلاحیتوں اور شخصیت کے مسخ ہونے کا سبب بنا ہو اور آپ اسے نعمت سمجھ کر سیلیبریٹ کر رہے ہوں؟

کاش کوئی اس خاتون سے بھی پوچھ لے کہ تمہیں اپنے علم و ریاضت اور شخصیت کو مسخ ہوتے دیکھ کر کیسا لگا اور کیا تمہیں کوئی ملال ہے؟ کیوں کہ زندگی تو تمام زندگی کے رنگوں سے ہی جچتی ہے اور زندگی کے رنگوں سے آشنا لوگ ہی حقیقی زندگی جیتے ہیں اور جو زندہ ہوتے ہوئے بھی زندگی سے منہ موڑ لے وہ جینا پھر کیا جینا ہوا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments