جناب شاہد خاقان عباسی منجھے ہوئے سیاستدان ہیں ایک بیان کے ذریعے انہوں نے ملکی سیاسی بحث کا موضوع مواد اور رخ ہی موڑ دیا۔ انہوں نے جناب شہباز شریف کو مسلم لیگ نون کی جانب سے اگلا وزیراعظم قرار دیا۔ تو بحث کا مرکزی خیال تین شخصیات اور ایک سیاسی جماعت تک محدود ہو گیا۔ دلچسپ پہلو اس مباحثے کا یہ رہا کہ حکمران پی ٹی آئی نے بھی اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے محدود المعنی اعتراض اٹھایا کہ نون لیگ میں دھڑے بندی ہے نون لیگ واضح طور پر تقسیم ہو رہی ہے ایک حلقہ شہباز شریف کو وزیراعظم بنانا چاہتا ہے جبکہ محترمہ مریم نواز اور ان کے قریبی حلقے انہیں اگلا وزیراعظم سمجھتے ہیں۔

مباحثے کے تمام شرکاء کا البتہ اس پر اتفاق نظر آیا کہ اگلا وزیراعظم جو کوئی بھی ہو گا اس کا حتمی فیصلہ جناب میاں محمد نواز شریف ہی کریں گے۔ اور یہ کہ آئندہ حکومت نون لیگ کی ہے ہوگی۔ پی ٹی آئی نے اس خیال سے اتفاق کا اشارہ دیا۔ سیاسی مباحثے کے اس متفقہ نکتہ نے جناب نواز شریف کو ملکی سیاسی مباحثے کا محوری نقطہ بنا دیا۔ پی ٹی آئی نے نون لیگ میں آرزو مندانہ داخلی اختلاف رائے کا سہارا لیا اور آئندہ کے حکومتی سیاسی منظر نامے میں اپنے کسی کردار کو خود ہی نظر انداز کر گئی کسی بھی اہم رہنماء نے تسلیم نہیں کیا یا بیان نہیں دیا کہ جناب عمران خان ہی اگلے وزیراعظم ہوں گے ! یا کم از کم یہ کہا جا سکتا تھا کہ انتخابات میں پی ٹی آئی کامیابی حاصل کرے گی اور اگلی حکومت بھی وہی بنائے گی۔ کم از کم اپنے ہم خیال حلقے کی خوش امیدی کے لیے سہی ایسا بیان دینا تو آسان تھا لیکن اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی میں خود شکستگی کا احساس گیرائی تک سرایت کرچکا ہے

پی ٹی آئی کے اس ذہنی رجحان کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو مائنڈ آف سیلف سٹیٹ آف ڈینائل یا خود انکاری و شکستگی کی علامات نمایاں کرتا ہے۔ جس سے اگلے انتخابی معرکے کے خد و خال کی نشاندہی ہوتی ہے

جناب شاہد خاقان عباسی کے موقف کو مباحثے میں مزید تقویت جناب زبیر احمد کے بیان سے ملی جس سے دراصل پارٹی میں فیصلہ سازی کے مرکزی کردار کی وضاحت کی گئی تھی زبیر صاحب نے میاں شہباز شریف کے لئے اگلے وزیراعظم ہونے پر اظہار ٍ اختلاف نہیں کیا تھا بلکہ چند امکانی خدشات بیان کیے تھے مثلاً یہ بات قابل فہم ہے کہ حکمران حلقہ میاں شہباز شریف کے خلاف مقدمات کا جلد فیصلہ کرائے اور انہیں بھی نا اہل قرار دلا دے۔ تو اس صورتحال کا کیا نتیجہ نکلے گا؟

دوسری صورت یہ بھی ممکن ہے کہ جناب نواز شریف کی نا اہلی کا فیصلہ بعض اہم قانونی دلائل اور واقعات کی روشنی میں منسوخ ہو جائے، تو بھی معروضی صورتحال میں جوہری تبدیلی آ جائے گی۔ زبیر صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ مریم نواز کی سزا ختم نہ ہوئی تو وہ انتخاب لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گی ان الفاظ سے انہوں نے میاں شہباز شریف کے لئے وزیراعظم بننے کی بالواسطہ راہ ہموار کرنے کی شعوری کوششیں کی تھی تاکہ مرکزی ملکی سیاسی مباحثے سے اگلے وزیراعظم کے حوالے سے کسی بھی دوسری جماعت کے کسی رہنماء کو خارج کر دیا جائے اور نون لیگ کو آئندہ کے لیے مرکزی حکومت ساز جماعت تصور یا تسلیم کرایا جائے حتمی نقطہ برامد ہوا کہ اگلا وزیراعظم کون ہو گا؟ اس کا حتمی اختیار یا فیصلہ میاں نواز شریف نے ہی کرنا ہے۔ اور یہ بات مستقبل کے سیاسی منظرنامے کا تعین کرنے میں اہم نوعیت کا حامل ہے

ان بیانات کے اثرات جاری تھے کہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کو بلدیاتی الیکشن میں عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یہ تاثر جائز طور پر مقبول عام ہو گیا کہ ضمنی انتخابات میں مسلسل شکستوں کے بعد پی ٹی آئی کو اس کے ”قلعے“ کے پی میں ہونے والی شکست اس کی بد ترین طرز حکمرانی اور ناقص کارکردگی پر عوام کی مہر ٍ تصدیق ثبت کی ہے۔ ثانوی طور پر یہ نقطہ بھی نمایاں ہوا کہ اب پی ٹی آئی ”طاقتور حلقے“ کی من پسند نہیں رہی چنانچہ 2018 ء کے انتخابات کے برعکس اب اسے اگلا انتخاب اپنے زور ٍ بازو پر لڑنا پڑے گا۔ تو اسے شدید مشکلات پیش آ سکتی ہیں دسمبر کے آخر میں نون لیگ کے رہنماؤں نے جس مہارت اور بصیرت کے ساتھ اپنی جماعت کو ملک کی سب سے نمایاں مقبول سیاسی جماعت بناتے ہوئے اسے پورے ملکی سیاسی مباحثہ کا مرکزی کردار بنا دیا ہے۔ وہ بہت اہم ہے ملکی بحث کو نواز شریف اور ان کی جماعت و ذات کے گرد مرتکز کرنے کے لئے جناب ایاز صادق نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے جنوری 2022 میں نواز شریف کی وطن واپسی کا غیر مبہم اعلان کر دیا۔

چنانچہ اس دھماکہ خیز بیان نے سازشی تھیوریز کے ماہرین کو متحرک کیا۔ کہا جانے لگا کہ نواز شریف کی واپسی کسی ڈیل کا نتیجہ ہو گی چنانچہ ڈیل کے ذریعے واپسی کے منفی تاثر کو نمایاں کرتے ہوئے ان کے نعرے ووٹ کو عزت دو پر پھبتیاں کسی گئیں۔ درپیش صورتحال میں سب سے زیادہ بد حواسی کا مظاہرہ جناب عمران خان نے کیا حیرت و صدمے پر مبنی انداز میں تسلیم کر لیا کہ ”سزا یافتہ مجرم کو چوتھی بار وزیراعظم بنانے کی کوشش ہو رہی ہے“ ۔ سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم کے اعتراف میں کس جانب اشارہ کیا گیا ہے جو نواز شریف کی سزا ختم کر کے اسے پھر سے بر سر اقتدار لانے کی تیاریاں کر رہے ہیں؟

اگر مسند اقتدار پر متمکن ہوتے ہوئے بھی جناب عمران خان متذکرہ سازش ناکام بنانے سے قاصر یا عاجز ہیں تو اس کے دو پہلو ہوں گے ۔ اول یہ ہے کہ وہ منتخب شدہ با اختیار وزیراعظم نہیں لہذا ان کی استطاعت محدود ہے ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ اگر وہ عوامی حمایت و ساکھ کے مالک ہوتے تو ایک ”سزا یافتہ مجرم“ کی اقتدار سنگھاسن تک راہ ہموار کرنے والے عناصر کے خلاف فوری تادیبی کارروائی کرتے مگر انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ محض ٹسوے بہانے جیسا بیان داغ دیا جو وزیراعظم کی بے بس فریادی کی پکار بن گیا اور اس سے یہ بھی تاثر مستحکم ہوا کہ ایک ”صفحے کی کہانی“ مخدوش ہو چکی ہے یہ کہ عمران حکومت آخری ہچکیاں لے رہی ہے اور اس کا بنیادی سبب ملکی معیشت کا ڈوبتا جہاز ہے جو دفاعی اخراجات کی ادائیگی کے لئے بھی قرضوں کا محتاج ہو گیا ہے۔

یہی محتاجی آئی ایم ایف کے شرائط نامے پر ثبت ہیں جن کی تکمیل کے لئے مہنگائی، معاشی بد حالی اور روز مرہ اشیاء ضروریہ کی طلب پوری کرنے سے قاصر عوام پر 350 ارب روپے کا مزید مالی بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ اگر دفاعی اخراجات کے لئے قرضے پر انحصار ناگزیر ہے تو قیاس ممکن ہے کہ منگل کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں مجوزہ ضمنی بجٹ منظور ہو جائے گا تو 1.07 ارب ڈالر قرض کی قسط کے اجراء کا امکان روشن ہو گا۔ لیکن ٹیکسوں میں رد و بدل کے نتیجے میں نیز توانائی وسائل کی قیمتوں میں اضافے سے معیشت کا مزید برا حال ہو جائے گا۔

گمان غالب ہے کہ ملکی معیشت کو پیداواری تخلیقی انداز میں بحال کرنے کے لئے طاقتور حلقے نے قومی صنعت کار طبقہ کے سر خیل نواز شریف کو مدد کے لئے پکارا ہو۔ اگر ایسا ہوا ہے تو لازمی طور پر نواز شریف نے سیاست میں غیر سیاسی مداخلت کی گارنٹی طلب کی ہو گی۔ انتخابی عمل میں مداخلت کے تدارک کا قابل قبول وعدہ لیا ہو گا۔ یہ بھی طے پایا ہو گا کہ طاقتور محکمہ خود کو اپنے آئینی فرائض تک محدود رکھے گا۔ مذکورہ قیاس آرائی اگر درست ہے تو اسے صحیح سمت میں پیش رفت سمجھنا دانشمندی ہوگی کیونکہ سردست جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کے دو ہی راستے باقی بچے ہیں۔

اول۔ پرامن جمہوری مزاحمت اور عوامی دباؤ کے ذریعے طاقت کو آئین کی اطاعت پر مجبور کر دیا جائے اس عمل میں کئی ناخوشگوار مشکل مقامات آسکتے ہیں جن کا متحمل ہونا مشکل ہے۔ دوسری صورت یہی ہے کہ ہائی برڈ سیاسی نظام بنانے والے اس کی مکمل ناکامی کا خود اعتراف کریں۔ اور سیاسی میدان سیاسی جماعتوں کے لئے کھلا چھوڑ دیں۔ عوام جو فیصلہ کریں اس کے سامنے سر تسلیم ختم کر لیا جائے یہی ملکی سالمیت کے لیے بہترین لائحہ عمل ہے امید کرنی چاہیے کہ اگر دوسری تجویز کو پذیرائی مل رہی ہے تو اسے ڈیل قرار دینے سے گریز کرنا چاہیے۔

میاں نواز شریف کی واپسی کے اعلان پر حواس باختہ ہونے والی پی ٹی آئی قیادت اب اگر سنبھلی بھی تو وہ میاں صاحب کی واپسی ان کے ویزے کی مدت ختم ہونے سے تعبیر کر کے خیالی تسکین پا رہی ہے یہ کہتے ہوئے کہ واپسی تو برطانوی قانون کے نتیجے میں ممکن ہو رہی ہے لیکن نون لیگ اسے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا وسیلہ بنا رہی ہے۔ یہ دلیل معقول نہیں کیونکہ نواز شریف کے پاس برطانیہ میں مزید قیام کے کئی قانونی راستے موجود ہیں۔ اس سے قطع نظر اہم سوال یہ ہے کہ

حکومت کو مجوزہ ضمنی بجٹ منظور کرانے میں کامیابی ملتی ہے یا ناکامی۔ ہر دو صورتوں میں اگلا سال عام انتخابات کا سال ہو گا۔ شفاف آزادانہ مداخلت سے پاک انتخابات کا سال۔ نہ کہ 2018 کے انتخابی ڈرامے کا اعادہ۔ ضمنی بجٹ کی نامنظوری سے اگر حکومت کا خاتمہ ہوا تو پی ٹی آئی سیاسی شہادت سے محروم رہے گی۔ دوسری صورت میں عدم اعتماد کی بجائے عوامی سیاسی دباؤ کی شدت میں اضافے سے ہائی برڈ سیاسی سانچے کو منہدم کرنا زیادہ بہتر عمل ہو گا۔