انسان اور قرآن


(تحریر میں ڈاکٹر اسرار احمد کے خیالات اور علامہ اقبال کے اشعار شامل ہیں )

انسان ایک سماجی اور معاشرتی وجود ہے، وہ سماجی زندگی سے الگ رہ کر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔

انسان کی زندگی اس کی ضرورتوں کو آشکار کرتی ہے اور ضرورتوں کی تکمیل باہمی تعاون سے ہی ممکن ہے، لیکن اگر انسان خود غرضی پر اتر آئے اور دوسروں کا خیال نہ کرتے ہوئے صرف اپنے بارے میں سوچے، اپنی ضرورت سے بڑھ کر اپنے لئے چاہے تو یہی وہ نقطۂ آغاز ہے جہاں سے انسانی سماج میں ظلم و ستم، لوٹ مار اور قتل و غارت کی ابتداء ہوتی ہے۔ خوشحالی کی فضا قائم کرنے کے لئے سماج میں ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو سماج کو ایک نظام دے سکے اور انسانی فلاح کے لئے ایک نظام قائم کرسکے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ انسانی سماج میں نظم و ضبط پیدا کرنے کے لئے اب تک انسان کے خود ساختہ بیسیوں نظام وجود میں آئے، لیکن کہیں نظام کا نقص نظر آیا اور کہیں قائد و رہبر کا۔

اسلام نے قرآن کی شکل میں انسانی سماج کو کامل ترین نظام حیات عطا کیا۔ خالق انسان نے انسان کی فطرت سے پوری آگاہی کے ساتھ بالکل فطری نظام زندگی انسان کے حوالے کیا لیکن اس فطری نظام کو عملی شکل دینے اور معاشرہ میں اس کے ذریعے مکمل اعتدال قائم کرنے کے لئے انسانی فطرت سے مکمل طور پر آشنا اور انسانی غلطیوں، کوتاہیوں، ظلم، نا انصافی اور بے اعتدالی سے بالکل پاک و پاکیزہ یعنی معصوم انسان ضروری ہے جو رہبر و امام کی شکل میں اس الٰہی نظام سے بخوبی آشنا ہو اور اسے یوں چلائے جو اس نظام کا حق ہے۔ کیونکہ کوئی بھی ظالم خواہ چھوٹا ہو یا بڑا انسانی معاشرہ کی حقیقی قیادت نہ کر سکتا ہے اور نہ اس کا حقدار ہے۔

جب خداوند عالم نے حضرت ابراہیم کو امامت کا منصب عطا فرمایا تو آپ نے اپنی ذریت کے لئے بھی اس کا تقاضا کیا۔ ارشاد ہوا کہ انسانی معاشرہ کی فلاح و بہبود کے لئے ضروری ہے کہ یہ منصب کسی ظالم کے ہاتھوں میں نہ جانے پائے۔

اقبال فرماتے ہیں۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
آج ہماری ناکامیوں کی واحد وجہ ترک قرآن اور آپسی اختلافات ہیں،

ہر وہ شخص جو قرآن مجید کا کتاب ہدایت و شفا کے طور پر خیر مقدم کرتا ہے اور قرآن مجید کے ساتھ اس کا طرز عمل حقیقی ہوتا ہے، اس کی شخصیت میں قرآن انقلاب پیدا کر دیتا ہے اور اسے ایک نئے سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔ تمام مسلمان یہ جانتے ہیں کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے لئے نازل ہونے والا ایک عظیم معجزہ ہے۔ آخر اس معجزے میں وہ کیا بات ہے جس کی وجہ سے یہ تمام سابقہ معجزوں پر سبقت لے گیا ہے؟ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اس کا اعجاز اس کے اسلوب بیان اور بلاغت میں ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ قرآن ہر زمان و مکان کے لئے موزوں و مناسب ہے، اس لئے معجزہ ہے۔

مگر قرآن کریم کا سب سے بڑا اعجاز اس کی انسانوں کو تبدیل کر دینے کی صلاحیت ہے۔ ہر انسان کو بدل ڈالنا تا کہ وہ ایک نئی قسم کا انسان بن جائے۔ معرفت الہی رکھنے والا انسان، قرآن جو تبدیلی پیدا کرتا ہے اس کا آغاز دل میں قرآنی نور کے داخل ہونے سے ہوتا ہے۔ یہ نور دل میں گناہوں، غفلتوں اور خواہش کی پیروی سے جنم لینے والی تاریکی کو دور کرتا ہے۔ دل میں نور دھیرے دھیرے بڑھتا چلا جاتا ہے، اور دل کے تمام احساسات میں روشنی اور زندگی کا احساس ہوتا ہے۔ قرآن ایک روح ہے جو دل میں جا کر اسے زندہ کر دیتی ہے۔ یہ روح جب دل میں جاگزیں ہو جاتی ہے تو دل نور ایمان سے جگمگا اٹھتا ہے، خواہشات اور حب دنیا دل سے نکل جاتی ہے اور اس کا واضح اثر انسان کے طرز عمل پر پڑتا ہے۔

یقیناً قرآن مجید کی تاثیر ہمارے تخیل سے بھی بہت زیادہ قوی ہے۔

قرآن مجید اپنی قوت تاثیر کی وجہ سے ہر ایک پر حجت ہے، لہٰذا اس شخص کا دعویٰ غلط ہے جو کہتا ہے کہ وہ قرآن سمجھنے کا اہل نہیں۔

ردا زینب
Latest posts by ردا زینب (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments