یہودیوں کی فلسطین میں آمد – قسط 5


اب تک ہم اس پر بات کر چکے ہیں کہ یہودیوں کو ایک عیسائی بادشاہ نے دوسری صدی عیسوی میں فلسطین سے نکالا اور وہ چوتھی صدی عیسوی میں ایرانیوں کی مدد سے ایک مختصر عرصے کے لیے فلسطین میں آئے لیکن انہیں جلد ہی یہاں سے رخصت ہونا پڑا۔ مگر پھر بھی وہ ایک قلیل تعداد میں یہاں موجود ضرور رہے۔ پھر انہوں نے یہاں آباد ہونے کے لیے ایک طویل مدتی منصوبہ بنایا۔ اس منصوبہ کے تحت وہ انفرادی طور پر فلسطین میں آ کر آباد ہونے لگے۔

تیرہویں صدی میں جب فلسطین پر مسلمان حکمران تھے تو وہ ایک بڑی تعداد میں تاجروں کے روپ میں یروشلم آ کر آباد ہونا شروع ہو گئے۔ اس دوران انہوں نے اپنی ایک عبادت گاہ کی بنیاد بھی رکھی۔ اس سے قبل فلسطین میں ان کی کوئی عبادت گاہ نہیں تھی۔ ہیکل سلیمانی بھی ایک غیر آباد جگہ تھی۔

جس دور کا آغاز 637 میں حضرت عمر ؓکی یروشلم آمد سے ہوا ( درمیان میں نوے سال کے لیے عیسائی بھی حکمران رہے اور دوبارہ یہ سلسلہ صلاح الدین ایوبیؒ نے شروع کیا) اس کا خاتمہ 1917 میں، تیرہ صدیاں گزرنے کے بعد انگریزوں کے ہاتھوں ہوا۔ اسی دور میں اس کی محافظ سلطنت عثمانیہ کا سورج بھی غروب ہو گیا۔ یہاں سے فلسطین کا چوتھا دور شروع ہوتا ہے۔

دور چہارم: جنگ عظیم اول اور فلسطین

فلسطین کے آخری مسلمان حکمران عثمانی تھے جنہوں نے 1517 سے 1917 تک چار سو سال یہاں حکومت کی۔ جنگ عظیم اول کے بعد 1917 میں انگریزوں نے اسے فتح کیا اور یوں 1187 سے 1917 تک سات سو تیس سال یہ شہر مسلمان حکمرانوں کے زیر اثر رہنے کے بعد سلطنت برطانیہ کا حصہ بن گیا اور مسلمان محکوم بن گئے۔ انگریزوں کی اس فتح میں یہودیوں کا ایک اہم کردار تھا۔ یہ بالکل اسی طرح سے ہوا جیسے ساتویں صدی عیسوی میں انہوں نے اہل ایران کی مدد سے اس شہر کو فتح کیا تھا۔ اب کی بار انہوں نے عیسائی مذہب کے ماننے والے انگریزوں کی مدد سے اس شہر پر قبضہ کروایا۔

انگریزوں نے یہودیوں سے یہ وعدہ کیا کہ وہ فلسطین میں ایک الگ ملک بنانے میں ان کی مدد کریں گے۔ انہوں نے یو این او کی مدد سے 1948 میں اسرائیل کی شکل میں یہودیوں کو ایک الگ ملک بنا کر دیا، اس کی سرحدیں روز بروز پھیلتی جا رہی ہیں اور اب فلسطین کے ستر فیصد سے زائد حصے تک پہنچ گئی ہیں اور وہ جو سات صدیوں سے یہاں آباد تھے، وہ سمٹ کر غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے تک محدود ہو گئے ہیں۔

انگریزوں نے یہ سب کچھ کیسے کیا؟ کس کس نے اس کام میں ان کی مدد کی؟ صہیونی تحریک کب شروع ہوئی؟ کس نے اسے پروان چڑھنے میں اہم کردار ادا کیا؟ اس کا احوال جاننا ضروری ہے۔

یروشلم پر 1099 میں صلیبی حملہ آوروں نے قبضہ کر لیا۔ اس وقت یہ خطے فاطمی حکمرانوں کے ماتحت تھا۔ محاصرے کے دوران مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں نے بھی صلیبی فوجوں کا مقابلہ کیا لیکن شکست ان کا مقدر بنی۔ مزید قتل و غارت سے بچنے کے لیے کثیر تعداد میں یہودی اس شہر سے نقل مکانی کر گئے اور عرب سمیت دنیا کے دیگر علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔

اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے دور اقتدار میں یہودیوں کی بڑی تعداد فلسطین میں آباد تھی اور انہیں ہر طرح کی شہری سہولتیں بھی میسر تھیں۔ اسی لیے انہوں نے اپنے شہر کی حفاظت کے لیے حملہ آوروں سے جنگ بھی کی۔

سلطان صلاح الدین نے جنگ جیت کر یہودیوں کو یروشلم میں واپس آنے اور آباد ہونے کی دعوت دی۔ جو ایک طرح سے نئے سرے سے یہودیوں کی آباد کاری تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صہیونی تحریک اٹھارہویں صدی میں شروع کی گئی، لیکن میں اس بات کو زیادہ حقیقت کے قریب سمجھتا ہوں کہ سلطان ایوبی کی دی گئی دعوت کے بعد سے ہی یہودیوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا تھا کہ ہر چند صدیوں بعد بے دخل ہونے سے بہتر ہے کہ فلسطین کے ایک حصے پر اپنی حکومت قائم کر لی جائے، اور پھر انہوں نے ایسا کر دکھایا۔

اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ 1211 میں فرانس اور انگلینڈ سے تین سو سے زائد یہودی مذہبی رہنماؤں نے فلسطین کا رخ کیا۔ اس سے ان کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس کے بعد بھی یہودی یہاں آتے رہے۔ یہ سب انہوں نے ایک خاص منصوبہ کے تحت کیا۔ اس سے مسلمان حکمرانوں کو پریشانی ہوئی اور انہوں نے اسے روکنے کی کوشش بھی کی جو زیادہ کامیاب نہ ہو سکی۔ تاریخ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ سولہویں صدی کے اوائل تک یہودیوں کی آبادی دس ہزار سے بڑھ گئی تھی۔

پھر ایک وقت آیا جب 1516 میں فلسطین سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گیا۔ ان کے دور حکومت میں کئی مرتبہ بغاوت بھی ہوئی لیکن سلطنت عثمانیہ اس پر قابو پانے میں کامیاب رہی۔ یاد رہے عرب سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرنے میں پیش پیش تھے۔ انہوں نے اس کام کے لیے فرانس کی مدد بھی حاصل کی۔ اس سب کے باوجود سلطنت عثمانیہ کا قبضہ اس وقت تک بر قرار رہا جب تک پہلی جنگ عظیم کے بعد انگریزوں کے ہاتھوں سلطنت عثمانیہ کا مکمل خاتمہ نہیں ہو گیا۔ اس سلطنت کے خاتمے میں عربوں نے انگریزوں کا بھرپور ساتھ دیا جس کے بدلے میں انگریزوں نے کئی مفتوحہ علاقے عربوں کے حوالے کر دیے۔

اس کے بعد ہی کئی نئے عرب ممالک معرض وجود میں آئے۔ یہ بھی تاریخ کا ایک دلچسپ باب ہے جو جاننے سے تعلق رکھتا ہے۔

سلطنت عثمانیہ کے زوال کا مختصر احوال آپ کے لیے فلسطین کے پورے مسئلے کو جاننے میں کارگر ثابت ہو گا۔

سترہویں صدی کے آغاز سے ہی سلطنت عثمانیہ نے یورپ پر اپنا معاشی اور فوجی غلبہ کھونا شروع کر دیا۔ اس وقت یورپ میں صنعتی انقلاب کا آغاز بھی ہو گیا تھا۔ سترہویں صدی میں جب ویانا کی لڑائی میں عثمانیہ سلطنت کو شکست ہوئی تو اس نے ان کی کمزوری کو ظاہر کر دیا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی ممالک نے عثمانیہ سلطنت سے آزادی حاصل کر لی۔ اسی دوران رومانیہ، سربیا اور بلغاریہ نے بھی آزادی کا اعلان کر دیا۔ 1912 اور 1913 میں ہونے والی بلقان جنگ کی شکست نے بھی سلطنت کے زوال میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ ( جو ایک کمزور ریاست تھی) نے جرمنی، آسٹریا اور ہنگری کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ بالآخر اسے اکتوبر 1918 میں شکست ہو گئی اور ترکی ”یورپ کے بیمار“ کے نام سے مشہور ہو گیا۔ پھر اس بیمار کے زیر تسلط علاقے برطانیہ، فرانس، یونان اور روس کے مابین تقسیم ہو گئے۔ فلسطین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ یہ علاقے انگریزوں کے قبضے میں چلے گئے۔ سلطنت عثمانیہ کا باضابطہ خاتمہ 1922 میں ہوا جب عثمانی سلطان کا لقب ختم ہو گیا اور ایک جرنیل مصطفیٰ کمال اتاترک کو ترک جمہوریہ کا سربراہ بنا دیا گیا۔

جنگ کے بعد ایک معاہدے کے تحت موجودہ فلسطین اور اسرائیل کا بیشتر حصہ برطانیہ کے پاس چلا گیا۔ انہوں نے اس سارے علاقے کو فلسطین کا نام دیا جس پر 1948 تک ان کا قبضہ رہا۔ ہندوستان میں یہودیوں کی موجودگی کی تاریخ پڑھتے ہوئے مجھے علم ہو کہ یہودی ہندوستان میں تین ہزار سال پہلے سے آباد ہیں۔ ٹائمز آف اسرائیل نے حال ہی میں ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ آندھرا پردیش میں ایسے یہودیوں کی ایک کثیر تعداد رہتی ہے جس کا تعلق افریقہ میں مقیم یہودی قبیلے افرائیم سے ہے اور وہ اب ”تلک“ زبان بولتے ہیں۔

اس سے اس بات کی تصدیق بھی ہوتی ہے کہ صدیوں پہلے ہندوستان کے جنوب میں رہنے والے لوگ افریقہ سے نقل مکانی کر کے آئے تھے۔ لیکن ان میں سے بہت کم ہی مقامی معاشرت کا حصہ بن سکے۔ ان لوگوں میں سے بھی ایک قابل ذکر تعداد اسرائیل جا رہی ہے۔ جنوبی ہندوستان کے علاقے کو چین میں ایک قدیم یہودی عبادت گاہ بھی پائی جاتی ہے جس کی دیوار پر لکھا ہوا ہے کہ یہ عبادت گاہ سینکڑوں سال پہلے تعمیر کی گئی تھی۔

اس سیریز کے دیگر حصےبنی اسرائیل سے اسرائیل تک تین مذاہب کا مرکز : قسط نمبر 4صہیونی تحریک: آغاز سے اب تک قسط 6

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments