خلقت خدا کی بادشاہت خان صاحب کی اور حکم آئی ایم ایف کا


7اکتوبر 1837ء کو دہلی کا قلعہ دنیا کے معروف ترین شاہی خاندان مغلوں کا آخری شہنشاہ اپنی تاجپوشی کی تقریب کے بعد تخت شاہی پر براجمان ہے_ہر طرف خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں_ اندر سے خوفزدہ وار بجھے ہوئے مشاہیر مملکت بادشاہ سلامت کی درازئ عمر کی دعائیں کر رہے ہیں_ہندو مسلم یگانگت کے حامی بادشاہ بہادر شاہ ظفر,اپنی زندگی کی آخری سانسیں لیتے دہلی دربار میں جلوہ افروز ہیں جس کے دیوار و در کو نئے بادشاہ کے استقبال کے لئے خوب سلیقے اور مغلائی تہذیب کے رس سے سجایا گیا ہے مگر اس طرح کہ ریاست کی بنیادی کھوکھلی ہو چکی ہیں_خزانے خالی ہیں اور دربار کے نظم و نسق کے لیے بھی بادشاہ سلامت کو انگریز نمائندگان کا دست نگر ہونا پڑتا ہے_دہلی جو ہندوستان کا دل ہے اور پورے ہندوستان سے چنیدہ افراد اس دربار کی زینت ہیں  جس کے شان و شکوہ سے بھرے گنبدوں اور غلام گردشوں میں بادشاہ سلامت اپنے اکابرین و عمائدین کے ساتھ تذبذب کی حالت میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں اس ہندوستان کے دل دہلی میں صورت حال یہ ہے کہ عام آدمی کے لب پر ایک ہی جملہ گردش کرتا ہے_
 “خلقت خدا کی بادشاہت مغلوں کی حکم کمپنی بہادر کا”
بادشاہ اور اسکا تیموری خاندان انگریز کے وظیفہ خوار ہیں اور یہ روسیاہ وظیفہ اتنی بڑی سلطنت اس کے وسائل اس میں موجود قدرتی معدنیات کے سامنے  بھلا کیا ہے کہ غلامی کے طوق کی ایک شکل جسے درحقیقت دہلی سرکار نے اپنے گلے میں ڈال لیا ہے ورنہ اس برے زمانے میں بھی صرف چونگی ٹیکس کی آمدن پچاس لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ بادشاہ کو پوری سلطنت انگریز کے حوالے کرنے کے بعد اپنے خاندان اور بادشاہت کیلئے بارہ لاکھ وظیفہ ملتا ہے_ان بارہ لاکھ میں بادشاہ سلامت نے کار دربار انجام دینے ہیں,اکابرین کا خیال رکھنا ہے,دربار سے وابستہ متفرق امور کے ناظمین کے وظائف ادا کرنے ہیں,سائلین کی داد رسی کرنی ہے,اس سب کے علاؤہ بہت کچھ جو بادشاہ اور دربار کے شایانِ شان ہے مگر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اپنے زمانے کا یہ شاعر,صوفی,بین المذاہب ہم آہنگی کا داعی شہنشاہِ ہند کوڑی کوڑی کے لیے انگریزوں کا محتاج ہے یہاں تک کہ مالی تنگدستی کے سبب سے کبھی سامان بیچنا پڑا تو کبھی قرض لینا پڑا_بے بسی محتاجی اور رسوائی کا بازار روز بروز گرم سے گرم تر ہوتا جا رہا ہے اور شہنشاہ معظم کسی معجزے کے منتظر ہیں_انگریز رفتہ رفتہ پورے ملک پر قابض ہو رہے ہیں سندھ اور ممبئی کے اتصال کے بعد اسے ایک کمشنر کی عملداری میں سونپ دیا گیا ہے_لاہور سمیت پنجاب سکھ انگریز قبضہ میں چلا گیا ہے اور اب اودھ کی باری ہے_معاملہ شاہی خاندان کی گردن تک آن پہنچا ہے جاگیریں,باغات,مکانات,ڈیوڑھیاں انگریز تسلط میں جا چکی ہے آخر کار اس کا انجام ایک صبح بادشاہ سلامت کو اپنے بیٹوں کے سروں کے تحفے سے ہوا جو جنرل ہڈسن نے خوان پر رکھ رومال سے ڈھانپ کر بادشاہ کے سامنے رکھ دئے وہی بیٹے جن کے دھڑ دہلی کے چوک میں عوامی پر دہشت طاری کرنے کے لیے لٹکائے جا چکے ہیں_ بادشاہت اس مقام پر آن پہنچی ہے کہ ایک معمولی کھاٹ جس پر گدا بچھا ہوا ہوتا ہے,پر سفید لباس میں ملبوس,سفید مخروطی پگڑی جو کبھی بادشاہ سلامت کے شکست خوردہ سر کو ڈھکے ہوتی تو کبھی ان کے سامنے رکھی ہوتی ہے پر بوڑھا بادشاہ موجود ہے,البتہ دو مفلوک الحال ملازم پشت پر کھڑے مورچھلوں سے انہیں ہوا کر رہے ہوتے ہیں کہ شاید انگریز چاہتے ہیں کہ بادشاہ کے زخم ہر پل سبز رہیں_اٹھارہ مشتبہ چشم دید گواہوں,دو سو کے لگ بھگ دستاویزات کے ساتھ بہادر شاہ ظفر قومی مجرم ٹھہرائے گئے اور انہیں غدار قرار دے کر ملک بدر کر دیا گیا گو اس ملک بدری میں بھی بادشاہ کی اولاد اور بیگم نے انگریز کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے اجتناب نہیں کیا_چند سو روپے کا وظیفہ جو انہیں قید میں گذر واوقات کیلئے ملتا,میں اضافے کے لیے بارہا خطوط لکھے کہ اس شاہی خاندان کو مانگ کر کھانے کی لت لگ گئی ہے_
“خلقت خدا کی,بادشاہت مغلوں کی حکم کمپنی بہادر کا”
شنید ہے کہ وفاقی حکومت مختصر سالانہ بجٹ تیار کر چکی ہے_اس بجٹ کے ذریعے ساڑھے تین سو ارب(350) روپے کے مزید محصولات عام آدمی پر لاگو کئے جائیں جا رہے ہیں یہ وہ سہولتیں ہیں جو حکومت کی طرف سے حالیہ برس کے لیے عام آدمی کو فراہم کی گئی ہیں اور 12 جنوری سے پہلے حکومتِ وقت یہ ٹیکس چھوٹ واپس لینے جا رہی ہے_اس سلسلے میں عام روزمرہ ضروریات سے متعلقہ 144 اشیاء پر 17 فیصد مزید محصول لاگو کیا جا رہا ہے ان اشیاء میں زندگی گذارنے کے لیے لازمی عناصر نمک,مرچ,چاول,چینی, خوردنی تیل, دودھ اور دودھ سے تیار کردہ دیگر اشیاء سے لے کر نئی زندگی کی آمد کے عمل کو روکنے تک کی اشیاء کا گوشوارہ نہایت دانش مندی کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے کہ عوام تو یوں بھی خدا کی ہے مگر خان صاحب کی شمع اقتدار جلتی رہنی چاہیے کہ آئی ایم ایف کی خوشنودی پہلا اور آخری مرحلہ ہے جس کے لیے قانون سازی کا عمل جاری ہے جیسے مغل فرمانروا ہر نئے مطالبے پر مشاہیر کا ایک نیم آزادانہ مشاورتی اکٹھ کرتے جس کے نتائج سے پہلے سے سب لوگ آگاہ ہوتے,دربار سے وابستہ عمائدین اچھی طرح جانتے ہیں کہ انگریز کی پیش کردہ ہر بات کو من و عن قبول کرنا ہے_اس جی حضوری کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ بنیادی مرحلہ کمپنی بہادر کی خوشنودی ہے کہ بصورت دیگر بطور وظیفہ ملنے والی رقم کا سلسلہ منقطع ہونے میں کچھ خاص دقت نہیں ہونی ہے_دسمبر کے ابتدائی ہفتے کے اختتام تک کی معاشی حالت کے مطابق,ملک میں جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نومبر میں ملک میں مہنگائی کی شرح یعنی افراطِ زر 11.5 فیصد رہی جبکہ اکتوبر میں یہ شرح 9.2 فیصد تھی یعنی افراطِ زر میں مسلسل تیزی کے براہ راست اثرات عام آدمی کی زندگی پر پڑنے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں عام آدمی کی زندگی روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے اور اس منی بجٹ کی صورت جو مہنگائی اور ابتری کا سونامی حکومت وقت کی طرف بڑھے گا شاید وہ اس کی قیمت نہ چکا سکے کہ حکمران جماعت گزشتہ حالات کی جو قیمت خیبرپختونخوا کے الیکشن میں ادا کر چکی ہے وہ بھی اس کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں_
دوسری طرف خان صاحب کی حکومت نے نئے قوانین پاس کرنے کی مکمل تیاری کر لی ہے بلکہ یوں کہیں عزم کا اظہار کر دیا ہے جس سے پیچھے ہٹنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جس کے مطابق ریاست پاکستان اپنے ہی اسٹیٹ بینک کے معاملات کی جانچ پرکھ نہیں کر سکے گی,حکومت کسی بھی حوالے سے اپنے ہی مرکزی بینک سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کر سکتی_گورنر اسٹیٹ بینک پارلیمان سمیت کسی بھی ریاستی ادارے جو جواب دہ نہیں ہوگا_وہ اپنا جزو وقتی جانشین خود مقرر کرے گا_پانچ سال کی مدت ملازمت میں حکومت پاکستان اس کو ہٹانے کے اختیار سے قاصر ہے حتی کہ ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کی تعیناتی بھی گورنر اسٹیٹ بینک کی مرضی کے خلاف نہیں کی جا سکتی_پاکستان اپنے مرکزی بینک سے کسی قسم کے قرضہ جات نہیں لے سکے گا_اسٹیٹ بینک آف پاکستان گورنر کی وساطت سے مکمل طور پر آئی ایم ایف کے کنٹرول میں رہے گا وہی مرکزی بینک جو ریاست پاکستان کی ملکیت ہے جو 12 جنوری کے بعد اپنی موجودہ حالت میں نہیں رہے گا_یہ بینک اپنی آئندہ پالیسی کا تعین گورنر اسٹیٹ بینک اور آئی ایم ایف کی مرضی و منشاء پر کرے گا کہ یہی آئی ایم ایف کی خوشنودی حاصل کرنے کا طریقہ ہے بصورت دیگر “قرض” کی شکل میں ملنے والی رقم کی ادائیگی روک دی جائے گی جس کی قوت سے پروٹوکول کی گاڑیوں کی چھتوں پر نصب سرخ بگل بجنے سے اطراف کے لوگوں پر بیک وقت دہشت اور دبدبہ طاری ہوتا ہے اُسی خلقت پر جو خدا کی ملکیت ہے_
ہاں یہ طے ہے کہ خان صاحب کی حکومت کسی سے ڈیل نہیں کرے گی اور سابق حکمران جماعتوں کے سربراہان کے ساتھ گفتگو قطعا نہیں کرے گی بھلے خدا کی خلقت خود ایک سونامی کا روپ دھار کر سب کچھ بہا لے جائے وار ڈی چوک ڈیڑھ سو برس گذشتے کے دہلی کا مرکزی چوک بن جائے جہاں پر کمپنی بہادر اپنی طاقت اور منہ زوری کے اظہار کے لیے عام آدمی تو کجا شہزادوں کی لاشیں لٹکانے سے بھی گریز نہیں کرتی تھی_
خلقت خدا کی باشاہت مغلوں کی حکم آئی ایم ایف کا_

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments