آٹو انڈسٹری بھی تباہ کردیں


کیا نالائقوں کا ٹولہ اکٹھا ہوگیا ہے، باتیں ایسے کرتے ہیں کہ بہت بڑے ارسطو ہیں، کرتوت ایک ٹکے کی بھی نہیں ہے، وفاقی کابینہ میں بیٹھے وزراء ریوڑ کی طرح ہیں کسی نے کوئی آواز لگائی اور جدھر چاہا ادھر ہی ہانک دیا، بھیڑ بکریوں کی طرح عقل کا استعمال ہی نہیں کرتے چاہے آگے کھائی ہی کیوں نہ ہو، عوام تباہ حال ہوگئی، ملک تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ساڑھے تین سال بعد بھی تجربات ہی کئے جارہے ہیں اور تجربات بھی ایسے کررہے ہیں جس کا نتیجہ ہمیشہ صفر ہی نکلتا ہے

تحریک انصاف کی حکومت کے قیام سے قبل اور قیام کے بعد اب تک اس جماعت میں ارسطو ایک پایا جاتا تھا جس نے بڑے بڑے دعوے کئے تھے، اس ارسطو کو وزارت خزانہ دی گئی تو چند ہی ماہ میں اس کی قابلیت کھل کر سامنے آگئی ، جتنا عرصہ بھی ارسطو وزیر خزانہ رہا، ہر روز اس نے’ کھہ’ ہی اڑائی اور حکومت کے سرپر ڈالی

کوئی اجڈ، گنوار جو کہ ریڑھی لگاتا ہواس میں بھی اتنی عقل ہوتی ہے کہ سودا کیسے بیچنا ہے اور منافع کیسے کمانا ہے، ان پڑھ ریڑھی والا کبھی ایسا اقدام نہیں اٹھائے گا جس سے اس کی آمدن کم ہو اور اس کا سودا نہ بکے مگر حد ہے ہمارے وفاقی وزراءکی جن میں عقل نام کی کوئی چیز ان کے قریب سے بھی نہیں گزری ، وہ ساڑھے تین سال سے تجربہ، تجربہ ہی کھیل رہے ہیں ، ان کا ہر تجربہ حکومت کے گلے ہی پڑتا ہے اور بھگتنا بیچاری غریب عوام کو پڑتا ہے

پاکستان کی معیشت میں آٹو انڈسٹری منافع بخش صنعت سمجھی جاتی ہے، ایف بی آر کو تقریباً 25 فیصد ریونیو بیٹھے بٹھائے آٹو انڈسٹری سے مل جاتا ہے، آٹو انڈسٹری کا دارومدار ڈالر پر ہے کیونکہ کاروں میں استعمال ہونے والے پرزہ جات اور مٹیریل امپورٹ کیا جاتا ہے، ایک، دو ادارے کچھ پرزے پاکستان سے لے رہے ہیں ورنہ تمام سامان بیرون ملک سے ہی منگوایا جاتا ہے

2018ء میں تحریک انصاف کی حکومت قیام میں آئی جس کے بعد سے لے کر آج تک ڈالر ان کے قابو نہیں آیا اور مستقبل میں نہ ہی اس کی امید کی جاسکتی ہے، 2018ء سے  لے کر 2022ء جنوری تک چھوٹی گاڑیاں پانچ سے چھ لاکھ جبکہ ایک ہزار سی سی سے بڑی گاڑیاں دس لاکھ سے لے کر چالیس لاکھ روپے تک مہنگی ہوگئی ہیں جس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف ڈالر کی اونچی اڑان ہے

پاکستان میں عوام کو کار بکنگ کے بعد چار سے چھ ماہ کے بعد ملتی ہے، کار کی کل رقم کا پچیس سے تیس فیصد تک ادا کرکے بکنگ کرائی جاتی ہے اور پھر چار سے چھ ماہ کے بعد کار ملنے کی امید دلائی جاتی ہے، بقیہ رقم ڈلیوری کے ایک ماہ قبل دینا ہوتی ہے اس دوران اگر ڈالر مہنگا ہوگیا تو کار کی قیمت میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور عوام کو اضافہ شدہ رقم ادا کرنا پڑتی ہے

موجودہ حکومت میں عوام جس قیمت پر کار بک کراتے ہیں وہ ان کو اس قیمت پر نہیں مل رہی، ڈالر بڑھنے کے ساتھ ساتھ کاروں کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہوجاتا ہے اور عوام کو مجبوراً اضافہ شدہ قیمت دینا پڑتی ہے ، اس معاملے میں کار ساز ادارے بھی عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں جس کا حکومت نے کبھی نوٹس لینا پسند ہی نہیں کیا

رواں مالی سال کے بجٹ میں حکومت کو عوام کا درد اٹھا اور کاریں سستی کرنے کا منصوبہ بنایا، اس وقت ڈالر 166-67 روپے کا تھا، نالائق مشیروں نے مشورہ دیا کہ ٹیکس کم کردیں تو کاریں سستی ہو جائیں گی، یعنی حکومت اپنی آمدنی کم کر کے کاریں سستی کر دے، ایسا مشورہ ملک اور آٹو انڈسٹری کا دشمن ہی دے سکتا ہے، پھر خبر آئی کہ 800 سی سی تک کی کاروں پر ٹیکس کم کیا جائیگا، بجٹ میں یہ رعایت دیدی گئی، چند دن بعد وزیر صنعت و پیداوار خسرو بختیار کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگنے

خسرو بختیار بار بار مشیر خزانہ (اس وقت کے اور موجودہ وزیر خزانہ) کے دروازے پر بار بار چکر لگانے لگے کہ یہ رعایت ایک ہزار سی سی تک کی کاروں تک دیدی جائے ، پھر میٹنگز ہونے لگیں اور ایک ہزار سی سی تک کی کاروں پر ٹیکس کم کرنے کا اعلان کردیا گیا، پھر مافیا متحرک ہوگیا، سب اپنی اپنی دیہاڑیاں لگانے لگے اور یکم جولائی کے بعد جب نوٹی فکیشن جاری ہوا تو تین ہزار سی سی تک کی گاڑیوں پر ٹیکس کم کردیا گیا

ان عقل کے اندھوں سے کسی نے نہیں پوچھا کہ جو 96 لاکھ روپے کی فورچونر خرید سکتا ہے اس کی چار لاکھ روپے کی ٹیکس چھوٹ دینا کہاں کی عقل مندی ہے یا جو 55 سے  65 اکھ روپے کی گاڑی خرید سکتا ہے اس کو دو سے تین لاکھ روپے کی رعایت دینے کیا منطق ہے، اس اقدام سے حکومت کے ریونیو میں شدید کمی آئی، ایک ہزار سی سی کار پر ٹیکس تقریباً 90 ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے کم ہوا ،چند دنوں بعد ڈالر 175روپے سے اوپر چلا گیا تو کارساز اداروں نے ایک لاکھ بیس ہزار سے لیکر دو لاکھ روپے تک قیمتیں بڑھا دیں

حکومت نے نوٹس لیا چار ماہ گاڑیوں کی قیمتیں ہولڈ کردی گئیں اس دوران ڈالر 180روپے سے اوپر چلا گیا تو کار ساز کمپنیوں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے کاروں کی قیمت میں پونے دو لاکھ سے لے کر چار لاکھ روپے تک قیمتیں بڑھا دیں جو اس وقت بھی برقرار ہیں، اپنا ریونیو کم کرنے کے بعد حکومتی مشیروں کی آنکھ کھلی تو منی بجٹ میں پھر ایک لاکھ سے لیکر تین لاکھ روپے تک ٹیکس لگا دیا اس طرح کاروں کی قیمت چار لاکھ روپے تک بڑھ چکی ہے

اب حکومت نے ٹیکس میں چھوٹ صرف 800سی سی کاروں تک دی ہے جبکہ یہ رعایت ایک ہزار سی سی کی گاڑی تک ہونا چاہئے تھی، موجودہ حکومت کے یوٹرنوں نے عوام کو تباہ و برباد کردیا ہے جس کی وجہ سے آٹو انڈسٹری عدم استحکام کا شکار ہے، اب حکومت اون منی کے پیچھے پڑ گئی ہے اور طرح طرح کی شرائط عائد کررہی ہے جس سے آٹو انڈسٹری مزید مشکلات کا شکار ہوگی، حکومت نے ساڑھے تین سال میں ہر شعبہ کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیاہے، مجموعی طور ملک ہی تباہ ہوچکا، آٹو انڈسٹری جو تھوڑی بہت چل رہی تھی حکومتی پالیسیوں سے وہ بھی تباہ ہونے جاری ہے، حکومت کی پالیسی بالکل درست ہے جہاں ہر چیز تباہ کردی وہاں آٹو انڈسٹری کیوں چلے، کردیں اسے بھی تباہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments