سچائی تم کو آزاد کرے گی


ایک کہاوت ہے کہ ایک لڑکی شادی کے بعد جب سسرال گئی تو اس کی ساس نے اس کے سامنے ایک کالے رنگ کی مرغی پکڑی اور ٹوکرے کے نیچے بند کر دی۔ بہت دنوں ‌تک لڑکی سوچتی رہی کہ اس کی ساس نے ایسا کیوں ‌کیا، اس کے پیچھے کیا منطق ہے۔ خیر اس نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا کہ ماں جی! آپ نے میرے آنے پر مرغی ٹوکرے کے نیچے کیوں ‌بند کی؟ تو ساس بولی بیٹی وجہ تو مجھے معلوم نہیں ‌مگر جب میں ‌اس گھر میں ‌بیاہ کر آئی تھی تو میری ساس نے بھی کالی مرغی ٹوکرے کے نیچے بند کی تھی تو اب تو آئی تو میں ‌نے بھی یہی کیا اور کوئی وجہ نہیں۔ مگر لڑکی کی تسلی نہیں ‌ہوئی وہ سمجھی ضرور کوئی بات ہے جو اس کی ساس نے اس سے چھپائی ہے۔ چنانچہ وہ اپنی دادی ساس یعنی اپنی ساس کی ساس کے پاس گئی اور مرغی اور ٹوکرے کی منطق پوچھی دادی ساس نے بھی وہی جواب دیا کہ جب وہ اس گھر میں ‌بیاہی آئی تھی تو اس کی ساس نے کالی مرغی ٹوکرے کے نیچے بند کی تھی۔

خیر اس بات کو کئی سال بیت گئے، اور اس لڑکی کا اپنا بیٹا جوان ہوا۔ جب وہ اپنی بہو بیاہ کر لائی تو اس نے بھی اس کے سامنے کالی مرغی پکڑی اور ٹوکرے کے نیچے بند کر دی۔

ہم میں ‌سے بھی ہر کوئی کسی نہ کسی طرح‌ مرغی اور ٹوکرے والی ریت نبھاتا ہے۔ بعض تو اس حد تک چلے جاتے ہیں ‌کہ کوئی پوچھ لے کہ بھائی/بہن اس کی وجہ کیا ہے تو سوال شاید گستاخی کے زمرے میں ‌ آتا ہے۔

ضرورت سچائی جاننے کی ہے نہ کہ کسی بھی ریت، روایت، عقیدے یا نظریے کی اندھی تقلید کرنے کی۔

آج بھی بہت سے عالم، استاد، رہنما ہمارے سامنے مرغی ٹوکرے کے نیچے بند کرتے ہیں ‌مگر ہم میں ‌ہمت نہیں ‌کہ پوچھ سکیں ‌کہ وہ ایسا کیوں ‌کرتے ہیں ‌کیونکہ ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں گستاخی کا الزام نہ لگ جائے، اور اسی خوف کی وجہ سے ہمارے دل و دماغ بھی مرغی کے ساتھ اسی ٹوکرے کے نیچے بند ہو جاتے ہیں ‌۔ اب مرغی تو اس قابل ہے نہیں ‌کہ بتا سکے کہ اسے کیوں ‌ ٹوکرے کے نیچے بند کیا گیا۔

ٹوکرے سے آزاد ہونے کا واحد راستہ سچائی جاننا ہے۔
”سچائی تم کو آزاد کرے گی“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments