قومی سلامتی پالیسی کا سیاسی بیانیہ


پاکستان کے داخلی اور خارجی مسئلہ کا ایک بنیادی نقطہ قومی سلامتی، خود مختاری اور قومی سیکورٹی پر مبنی ہے۔ عمومی طور پر ہم اس مسئلہ کی اہمیت کو سمجھ کر محض اسے ایک سیکورٹی کے تناظر میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ ہمیں محسوس یہ ہوتا ہے کہ شاید یہ مسئلہ ایک انتظامی نوعیت سے جڑا ہے اور اس کا بڑا تعلق بھی انتظامی نوعیت کے اداروں کی صلاحیت اور معاملات سے نمٹنے تک محدود ہے۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ریاست کی قومی سلامتی یا خودمختاری کسی ایک نقطہ تک محدود نہیں ہو سکتی بلکہ یہ ایک مجموعی جامع پیکج کا حصہ ہے۔ اس عمل میں ہر ادارہ دوسرے ادارہ کے ساتھ جوڑ کر اپنی پالیسی اور حکمت عملی کو وضع کر کے عملدرآمد کے نظام کو مضبوط اور مربوط بناتا ہے۔ یہ ہی سوچ اور فکر عملی طور پر ریاستی سیکورٹی کو مجموعی طور پر مستحکم کرنے کا سبب بنتی ہے۔

حال ہی میں ریاست اور حکومت دونوں کی ایک مشترکہ کوشش سے ”قومی سیکورٹی پالیسی 2022۔ 2026 کو حتمی شکل دی گئی ہے۔ اس کی منظوری نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے 36 th ویں اجلاس میں دی گئی ہے جس میں وزیر اعظم عمران خان، وزیر خارجہ، وزیر دفاع، اطلاعات و نشریات، داخلہ، مالیات، انسانی حقوق، چیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، تمام سروسز چیفس، نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اور سینئر سول اور فوجی افسران سمیت شامل تھے۔ اس پالیسی کو پہلی قومی سیکورٹی پالیسی کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔ یہ پالیسی موجودہ صورتحال میں پاکستان کی ضرورت بنتی ہے اور اس پر عملدرآمد کر کے ہی ہم ملک میں موجود ان تمام خامیوں، مشکلات یا چیلنجز سے نمٹ سکتے ہیں جو قومی خود مختاری اور سلامتی کے تناظر میں ہمیں درپیش ہے۔

نیشنل سیکورٹی پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو اس کے اہم خد و خال یہ ہیں۔ اول یہ پالیسی محض انتظامی یا سیکورٹی مسائل تک محدود نہیں بلکہ اس کا احاطہ کرتے ہوئے سات اہم نکات کو بنیاد بنایا گیا ہے جن میں قومی اہم آہنگی، طرز حکمرانی، معاشی تحفظ، انسانی تحفظ، علاقائی تحفظ، داخلی استحکام اور تحفظ اور خارجہ پالیسی کا استحکام شامل ہیں۔ دوئم یہ پالیسی مختلف نوعیت سے جڑے مسائل اور معاملات کے بارے میں ایک واضح پالیسی، گائیڈ لائن، حکمت عملی، مختلف طاقت سے جڑے اداروں کے درمیان رابطہ کاری کے مختلف پہلووں کو اجاگر کرتی ہے۔

سوئم یہ پالیسی واضح کرتی ہے کہ ہماری ترجیحات کا ایک مرکزی نقطہ جیو اسٹرٹیجک سے جیو معیشت کی طرف ہو گا۔ چہارم ہمیں خود کو علاقائی تنازعات، جنگ یا ٹکراؤ میں الجھنے، دوسروں کے معاملات میں بے جا مداخلت یا حصہ دار بننے سے گریز کرنا ہے۔ پنجم علاقائی ممالک بشمول بھارت سے بہتر تعلقات قائم کرنا اور ماضی کی تلخیوں میں الجھنے کی بجائے مستقبل کی طرف پیش رفت کرنا ہو گا۔ ششم نیشنل سیکورٹی فریم ورک کا اہم مقصد عام شہریوں کا تحفظ اور عزت و احترام کو یقینی بنانا اور اسے معیشت کی ترقی سے جوڑنا ہے۔

بنیادی طور پر جب ہم علاقائی یا عالمی سطح پر موجود چیلنجز سے نمٹنے کی بات کرتے ہیں تو اس کا اہم نقطہ سب سے پہلے خود اپنے داخلی معاملات کا جائزہ یا تجزیہ کر کے اپنے مسائل کی نشاندہی کر کے اس سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی اور عملدرآمد کا نظام درکار ہوتا ہے۔ کیونکہ جب تک ہم اپنے داخلی معاملات سے جن میں مختلف تضادات پر مبنی پالیسیاں موجود ہوتی ہیں کا موثر، بہتر اور شفاف علاج نہیں کرتے تو پھر ہم کیسے ان علاقائی یا عالمی چیلنجز سے نمٹ سکیں گے، خود بڑا سوالیہ نشان ہے۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے قومی سطح پر موجود تمام فریقین میں یہ اتفاق رائے موجود ہو کہ ہمارے مسائل کیا ہیں۔ کیونکہ مسائل کی درجہ بندی کرتے ہوئے جو سیاسی، سماجی، علاقائی تقسیم ہمارے یہاں موجود ہے وہ ہی اتفاق رائے کو پیدا کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لیے داخلی اور خارجی مسائل کے درمیان اہم آہنگی پیدا کرنا اور پھر مشترکہ طور پر ان سے نمٹنا ہی ہمارا مشترکہ چیلنج بھی ہے۔

یہ جو معیشت اور سیاسی استحکام کی بات کی جا رہی ہے دونوں کے درمیان باہمی تعلق کو پیدا کر کے ہی ہم سیاسی اور معاشی استحکام کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام جن میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جاری سیاسی رسہ کشی یا ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو تسلیم نہ کرنا اور معیشت جیسے اہم اور حساس معاملہ میں عدم اتفاق کی پالیسی یا ایک دوسرے پر سیاسی اسکورنگ کی جنگ نے سیاست اور معیشت کی ترقی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

اسی طرح سول ملٹری تعلقات کی بہتری کا قائم ہونا بھی ناگزیر ہے اور اسے حریف کے طور پر دیکھنے کی پالیسی نے فریقین میں ٹکراؤ کا ماحول پیدا کیا ہے جس سے فریقین کو باہر نکل کر جمہوری اقدار سمیت اعتماد سازی کے ماحول کو آگے بڑھانا ہو گا۔ ان اہم چیلنجز کا اگر ہم نے مقابلہ کرنا ہے تو ہماری اولین ترجیح مختلف اداروں کی سطح پر اصلاحات کے نظام کو موثر بنانا اور ادارہ جاتی عمل کی مضبوطی کو اپنی اہم ترجیحات کا حصہ بنانا ہو گا۔ ادارہ جاتی عمل یا اصلاحات کو بنیاد بناتے ہوئے افراد کی طاقت کے مقابلے میں ہمیں اداروں کی سطح پر خود مختاری کو قائم کرنا اور ان کو افراد کے مقابلے میں قانون کی حکمرانی کے تابع کرنا ہو گا۔

اسی طرح سے ہمیں ریاستی، حکومتی یا اداروں کی سطح پر قومی سیکورٹی سے جڑے معاملات یا وہ افراد یا ادارے یا گروہ جو کسی بھی سطح پر انتہا پسندی یا شدت پسندی کو بنیاد بنا کر ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں یا اسے کمزور کرتے ہیں ان پر سمجھوتوں یا پسند و ناپسند کی پالیسی یا کمزوری کا پہلو کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ اس تاثر کی ہر سطح پر نفی ہونی چاہیے کہ ہم بطور ریاست یا حکومت خود ہی ایسے عناصر کی بے جا حمایت کرتے ہیں یا ان کے بارے میں ہمدردی کا پہلو رکھتے ہیں جو ریاست کو یرغمال بنانے کو اپنی سیاست کا ایجنڈا سمجھتے ہیں۔

قومی سیکورٹی پالیسی کی کامیابی کا ایک بڑی فکر سیاسی اور مذہبی جماعتوں یا اہل دانش یا رائے عامہ بنانے والوں میں ملکیت کا احساس ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم مختلف نوعیت کی سیکورٹی پالیسی کو بناتے تو ضرور ہیں لیکن سیاسی جماعتیں یا رائے عامہ بنانے والے اس کی قیادت کرنے کی بجائے پیچھے کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں یا ان میں اعتماد سازی کا فقدان ہوتا ہے۔ اس لیے یہ مطالبہ کافی حد تک وزن رکھتا ہے کہ اس قومی سیکورٹی پالیسی کو بھی پارلیمنٹ سمیت ہر فورم پر بحث کے لیے پیش کیا جائے تاکہ اس دستاویز کی بارے میں لوگوں میں نہ صرف شعور پیدا ہو بلکہ اس کی ملکیت کا احساس بھی مضبوط بنیاد پر استوار ہو سکے۔ اس تاثر کی نفی ہونی چاہیے کہ یہ دستاویز محض کسی ایک ادارے کا حصہ ہے اور اس کا مقصد دیگر اداروں پر اس پالیسی کو مسلط کرنا ہے۔

سیاست، جمہوریت، پارلیمانی نظام اور قانون کی حکمرانی کا اہم جز ہی اصلاحات اور اداروں کی مضبوطی سے جڑا ہوتا ہے۔ اگر یہ ایجنڈا کسی ترجیحی سیاست کا حصہ نہ بنے تو قائم کردہ تمام اہم پالیسیوں کے نتائج ہمیں مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتے۔ اسی طرح اس پالیسی کی نگرانی اور جوابدہی کے نظام کے لیے ہمیں ادارہ جاتی سطح پر ایک مضبوط میکنزم درکار ہو گا جو تسلسل کے ساتھ اس پالیسی کی بنیاد پر جائزہ، تجزیہ، موازنہ کر کے اس میں شفافیت کے عمل کو قائم کرنا ہو گا۔

اس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر قائم کردہ ایپکس کمیٹیاں کو وزیر اعظم اور وزیر اعلی کی صدارت میں قائم ہیں ان کو فعال کرنا ہو گا۔ اس پالیسی کی سیاسی ساکھ اور صحت کو قائم کرنے کے لیے ہمیں سفارتی یا ڈپلومیسی کے محاذ پر زیادہ سرگرم ہونا ہو گا اور بھرپور فعالیت کے ساتھ اس پالیسی کی تشہیر کو ممکن بنا کر اپنا سافٹ امیج بھی قائم کر کے اس تاثر کی نفی کرنا ہوگی کہ ہم کسی تضاد کی بنیاد پر اپنی قومی سیکورٹی پالیسی کو چلا رہے ہیں۔

قومی سیکورٹی پالیسی کا بننا اچھا اقدام ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر اہم کام اس پالیسی کو بنیاد بنا کر اپنی داخلی پالیسیوں اور حکمت عملی سمیت اس پر عملدرآمد کے نظام کو موثر اور شفاف بنانا ہماری ترجیحی سیاست و حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے۔ جب کسی پالیسی پر قوم ساتھ کھڑی ہو اور اس کو واقعی یہ احساس ہو یہ ہی پالیسی ہماری سیاسی خود مختاری اور بقا کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے تو وہ اس کا حصہ بن کر خود بھی انفرادی یا اجتماعی سطح پر اپنا موثر کردار ادا کر کے ریاستی نظام کو موثر بناتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی گورننس یا طرز حکمرانی کی مدد سے بہتری پیدا کر کے لوگوں میں اعتماد پیدا کریں کہ ریاست ان کے ساتھ کھڑی ہے اور اس کی پالیسی میں کوئی تضاد نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments