جنرل باجوہ دوبارہ توسیع کا امکان دوٹوک الفاظ میں مسترد کریں


وزیر اعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف کے طور پر دوسری بار توسیع دینے کے معاملہ کو قبل از وقت قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی نومبر بہت دور ہے، اس لئے انہوں نے اس معاملہ پر غور نہیں کیا۔ وزیر اعظم کے اس جواب سے یہ بات تو واضح ہے کہ اب بھی یہ آپشن زیر غور ہے کہ فوج کی سربراہی کے لئے نیا جنرل تعینات کیا جائے یا جنرل باجوہ کو ہی مزید تین سال کے لئے اس عہدہ پر فائز رکھا جائے۔

اس سے قبل آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے اپنی پریس کانفرنس میں اس حوالے سے پوچھے گئے سوال پر کہا تھا کہ ایسی باتیں ’بے بنیاد الزامات ہیں‘۔ یعنی پاک فوج کے ترجمان نے بھی موجودہ آرمی چیف کی دوسری توسیع پر دو ٹوک الفاظ میں یہ نہیں کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اب چھے سال تک فوج کی کمان کرکے تھک چکے ہیں اور پاک فوج میں ایک سے بڑھ کےایک قابل اور لائق افسر موجود ہے۔ اس لئے وہ اب نئی توسیع لینے پر تیار نہیں ہوں گے۔ یوں بھی جب کوئی بااختیار شخص کسی سوال پر خفگی کا اظہار کرے جیسا کہ جنرل بابر افتخار نے کیا کہ یہ جھوٹے الزامات ہیں، تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کی کوئی بات چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اب وزیر اعظم سے بھی اسی سلسلہ میں سوال کیا گیا ہے۔ انہوں نے سوال کی اس نوعیت پر تو حیرت کا اظہار نہیں کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دوسری بار ایک ہی جنرل کو دوبارہ توسیع دی جائے، وہ باقی جرنیلوں میں سے کسی جنرل کو نیا آرمی چیف تعینات کریں گے۔ وہ ایسا نہیں کر سکے کیوں کہ ملک کا آئین جو بھی کہتا ہو لیکن پاکستان میں منتخب وزیر اعظم اور نامزد آرمی چیف کے درمیان ’طاقت کا پلڑا‘ ہمیشہ آرمی چیف کی طرف جھکا ہوتا ہے۔ اس لئے کوئی شخص خواہ عمران خان ہی کیوں نہ ہو اور خواہ وہ ملک کا ایسا وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو جو اپنے تئیں ’بااختیار‘ بھی ہے اور ’مسٹر کلین ‘ کے رتبے پر بھی فائز ہے۔ یا وہ یہ دعوے کرتا رہا ہو کہ ایجنسیاں کسی اسکینڈل کی بنیاد پر اسے دباؤ میں نہیں لا سکتیں اور نہ وہ خود اپنے آئینی اختیارات سے دست بردار ہونے پر آمادہ ہے۔ حالات کی اصل تصویر گزشتہ سال کے آخر میں آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی کے موقع پر وزیر اعظم نے اپنی ’اتھارٹی‘ کا مظاہرہ کرکے دکھا بھی دی تھی۔ یہ اتھارٹی جنرل فیض حمید کو محض چند اضافی ہفتے ہی آئی ایس آئی کے عہدے پر برقرار رکھ سکی اور تمام امیدواروں سے ’انٹرویو‘ کرنے کا ڈرامہ رچانے کے بعد بھی وزیر اعظم کو آرمی چیف کے تجویز کردہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو ہی آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کرنا پڑا۔

اس کے بعد سے مسلسل یہ گفتگو ہورہی ہے کہ اس ایک واقعہ نے حکومت اور ملٹری کے درمیان خیر سگالی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس معاملہ کے کئی پہلو ہیں تاہم سب سے اہم یہ بات ہے کہ کوئی بھی منتخب سول حکومت ابھی تک ملک میں اتنی بااختیار نہیں ہوپائی کہ وہ اپنے آئینی اختیارات کا بے دریغ استعمال کرسکے۔ یہ ایک ایسی بنیادی مشکل ہے جس کا سامنا پیپلز پارٹی کی حکومت اور آصف زرداری کو بھی کرنا پڑا۔ اس وقت نواز شریف اسٹبلشمنٹ کا ہرکارہ بن کر جمہوری اداروں کی بالادستی کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ نواز شریف کی حکومت کو بھی شروع دن سے ہی اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا اور عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف وہی کردار ادا کیا جو کسی حد تک نواز شریف نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف ادا کیا تھا۔ حتیٰ کہ 2017 میں پاناما پیپرز اور بیرون ملک ملنے والی ایک تصوراتی تنخواہ کو عذر بنا کر سپریم کورٹ نے نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیا۔ اسٹبلشمنٹ نے خوشدلی سے 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کا کھیل مکمل کیا تاکہ ملک کی دونوں دیرینہ اور مسلمہ سیاسی پارٹیوں سے نجات پاکر عمران خان کی سربراہی میں ایک نئے سیاسی گروہ کو ایک پیج کے کرشماتی اشتراک کے تحت ملکی سیاست میں واحد کھلاڑی کے طور پر سامنے لایا جائے۔

اقتدار حاصل کرنے کے جوش میں عمران خان یہ فراموش کربیٹھے کہ ایک تو اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ پکڑ کر اقتدار حاصل کرنے ولا کوئی لیڈر عوامی ضرورتیں پوری نہیں کرسکتا بلکہ اسے اپنے سرپرستوں کی خوشنودی کے لئے کام کرنا پڑے گا۔ دوسرے یہ کہ یہ خود مختار حکومت نہیں ہوتی۔ اس کا نام ضرور حکومت ہے لیکن کوئی سیاسی لیڈر یا جماعت دراصل ایک سمجھوتہ کرتی ہے جس کے تحت اسے اقتدار حاصل ہوتا ہے اور اسٹبلشمنٹ اصل اختیارپر قابض رہتی ہے۔ ملکی سیاست دانوں نے اسے حتمی سچائی کے طور پر قبول کیا ہے اور کبھی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ اقتدار کسی سیاسی جدوجہد کا حتمی مقصد نہیں ہوتا بلکہ کسی جمہوری نظام میں شہریوں کی بہبود اور انسانی حقوق کا تحفظ اصل مطمح نظر ہونا چاہئے۔

عمران خان کی مشکلات دو وجہ سے دوچند رہی ہیں۔ ایک تو متفقہ منصوبہ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کو ختم نہیں کیا جاسکا اور نااہل قرار ہونے کے باوجود نواز شریف بدستور پنجاب کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ دوسرے نعرے بازی کے جوش و ولولہ کے باوجود عمران خان کی حکومت کسی شعبہ میں بھی کارکردگی نہیں دکھا سکی۔ اس ناکامی کا اصل بوجھ اسٹبلشمنٹ کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اسی لئے دیگر وجوہات کے علاوہ عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کا اصل رخ فیصلہ ساز قوتوں کی طرف ہے۔ پاک فوج کے ترجمان اسے ’عوام اور مسلح افواج کے درمیان رخنہ‘ بتاتے ہوئے اس کی ذمہ داری بعض عناصر کی اداروں کے خلاف سازشوں کو قرار دیتے ہیں۔ اور عمران خان اپنی ناکامیوں کے بوجھ سے کامیابی کا ’کبوتر‘ نکالنے کے لئے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایک اور توسیع دینے کا آپشن کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔

دنیا ٹی وی کو ایک انٹرویومیں وزیر اعظم عمران خان نے مہنگائی کے علاوہ کرپشن کے الزام میں اپوزیشن لیڈروں کو سزا دلوانے میں ناکامی کو اپنی حکومت کی سب سے بڑی کوتاہی قرار دیا ہے۔ لیکن اس کا الزام بھی وہ بالواسطہ طور سے ملکی عدالتوں پر عائد کرنے کی کوشش کررہے ہیں کیوں کہ ’نیب تو شواہد کے ساتھ ریفرنس تیار کردیتی ہے لیکن عدالتوں میں معاملات آگے نہیں بڑھتے‘۔ یہ دعویٰ کرنا درحقیقت عمران خان کی مجبوری بن چکی ہے کیوں کہ حکومت کی نااہلی اور معاشی ابتری کی موجودہ صورت حال میں عمران خان کا کرپشن کا بیانیہ ناکام ہوچکا ہے۔ لوگ جان چکے ہیں کہ سیاست دانوں کے خلاف یہ بیانیہ عام کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن نہ تو الزامات ثابت ہو پاتے ہیں اور نہ ہی ’بدعنوانوں ‘ کو علیحدہ کر کے سامنے لائی گئی پاکباز حکومت بنیادی مسائل حل کرپائی ہے۔

ایسے میں ’ڈیل ‘ کی باتیں اور مسترد شدہ سیاسی عناصر کو دوبارہ معاملات سنبھالنے کے لئے آمادہ کرنا ایک قومی ایمرجنسی بن چکی ہے۔ گو کہ میڈیا میں یہی تاثر عام کیا جاتا ہے کہ نواز شریف ڈیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں یاآصف زرداری ’متبادل‘ کے طور پر خود کو پیش کررہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت اسٹبلشمنٹ کو کسی ایسے سیاسی حل کی ضرورت ہے جس میں ملک کو درپیش بحران کم ہوسکے اور ایک نااہل اور غیر فعال قیادت مسلط کرنے پر اسٹبلشمنٹ کی غلطی پر پردہ ڈالا جاسکے۔ اسی خطرہ کو بھانپ کر عمران خان سول ملٹری تعلقات کے بارے میں والے سوال پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے فوجی قیادت سے تعلقات مثالی ہیں۔ یوں وہ دراصل اپنی خفت مٹانے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ اگر تحریک انصاف کی حکومت تمام شعبوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہے اور اپوزیشن لیڈر صرف چوری چھپانے یا نئی کرپشن کرنے کے لئے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں تو عمران خان کو فوجی قیادت سے ’مثالی تعلقات‘ کی بیساکھیاں کیوں درکار ہیں؟ منتخب لیڈر کے طور پر انہیں پارلیمنٹ میں اکثریت چاہئے اور فوج توآئینی طور سے وزیر اعظم کی تابع فرمان ہی ہے۔ اس کا اظہار حال ہی میں آئی ایس پی آر کے سربراہ نے بھی کیا ہے۔ اس کے باوجود اگر سول ملٹری تعلقات کے بارے میں سوال اٹھائے جاتے ہیں اور اس کا جواب فوجی قیادت سے ’مثالی تعلق‘ کی صورت میں دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو جان لینا چاہئے کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ گڑبڑ تو ہے۔

اس کا ایک حل یہی ہے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایک اور توسیع کا لالچ دیا جائے اور اس طرح ایک طرف 2023 کے انتخابات دوبارہ جیتنے کی راہ ہموار کی جائے اور دوسرے موجودہ مدت کے دوران کسی بھی بڑے بحران سے بچا جائے۔ ان دو آپشنز پر غور کرتے ہوئے عمران خان کے پیش نظر صرف اپنا اقتدار ہے۔ اسی لئے وہ کسی بھی قیمت پر فوج کو راضی کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی شہباز شریف کو سزا دلوا کر نااہل قرار دلوانا چاہتے ہیں۔ عمران خان کو روز اول سے شہباز شریف ہی سے خوف لاحق ہے۔ انہیں شبہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ سنجیدگی سے شہباز شریف کو ان کے متبادل کے طور پر تیار کررہی ہے۔ اس لئے ایک ہی انٹرویو میں جنرل باجوہ کی دوبارہ توسیع کا آپشن کھلا رکھنے کا اشارہ دیتے ہوئے اور شہباز شریف کو سیاست سے ’ناک آؤٹ‘ کرنے کی منصوبہ بندی کا ذکر کیا گیا ہے۔ عمران خان کا یہ بیان نامکمل خواہشات کا اظہار ہے۔ کتنی بدنصیبی کی بات ہے کہ ملک کا وزیر اعظم اپنی غلطیوں کا ادراک کرکے اصلاح احوال کی بجائے اب بھی اقتدار پر قبضہ بحال رکھنے کے لئے جوڑ توڑ کررہا ہے۔ یا پھر روزانہ کی بنیاد پر بیان جاری کرکے مقبولیت اور کامیابی کا بھرم قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

عمران خان کے سیاسی عزائم جو بھی ہوں لیکن پاک فوج کو بہر حال ان کی تکمیل میں معاونت سے گریز کرنا چاہئے۔ توسیعی مدت پر خدمات انجام دینے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہئے کہ کسی بھی آرمی چیف کی بار بار توسیع کا سب سے زیادہ نقصان اسی ادارے کو ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس عہدے اور پوزیشن تک پہنچ سکے ہیں۔ بلکہ وقت آگیا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی طرح سینارٹی کے اصول کے مطابق طے کیا جائے تاکہ اس معاملہ میں ہونے والے غیر ضروری مباحث کا خاتمہ ہوسکے۔ جنرل باجوہ کی دوسری توسیع کے حوالے سے تمام قیاس آرائیوں کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ باقاعدہ اعلان کریں کہ وہ نومبر میں اپنی توسیعی مدت پوری ہونے پر ریٹائر ہوجائیں گے۔

کسی بھی نظام میں کوئی ادارہ کسی فرد کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ اداروں کی وجہ سے افراد نمایاں ہوتے ہیں۔ مو جودہ آرمی چیف نے دوبارہ توسیع کی خواہش کو زندہ رکھا تو ملکی سیاست کے علاوہ پاک فوج کی صلاحیت و مورال پر بھی اس کا منفی اثر مرتب ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments