منحوس حکومت اور منافق عوام


”یار جب تک یہ منحوس حکومت رہے گی ہمارے حالات سدھر ہی نہیں سکتے“ گامے نے دودھ میں بال صفا پاوڈر مکس کرتے ہوئے بڑے درد بھرے لہجے میں مجیدے سے کہا۔ مجیدا جو دودھ میں ملاوٹ کا کام بڑی مہارت سے سر انجام دے کر اپنا موٹر سائیکل صاف کرنے میں مشغول تھا بولا ”یہ تو ہے یار، مگر ان لوگوں کو لے کر بھی تو ہم لوگ ہی آتے ہیں نا، مگر اس حکومت نے تو حد ہی کر دی ہے۔ نہ پانی نہ بجلی نہ گیس ان کا بس چلے تو سانس پر بھی ٹیکس لگا دیں“

گاما جو کہ اپنا کام نپٹا کر موٹر سائیکل سٹارٹ کر رہا تھا، گالی دیتے ہوئے بولا ”مکان کا کرایہ دیتا ہوں تو بجلی کا بل آ جاتا ہے، وہ بھرتا ہوں تو گیس کا بل آ جاتا ہے، لگتا ہے اپنی زندگی تو بس یہ بل اور کرائے دینے میں گزر جائے گی اوپر سے بچوں کی فوج، آج کل ایک بچہ پالنا مشکل ہے میرے تو چھ ہیں ان کے خرچے ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے“

”یار اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے میرے مکان کے اوپر سے تو بجلی کا مین تار گزرتا ہے، میں نے تو واپڈا کے بندے سے بات کی ہوئی ہے، مہینے کے دو سو روپے لیتا ہے کنڈا ڈال کے دیا ہوا ہے اس نے، بس فکر نہ فاقہ عیش کر کاکا۔ لیکن پھر بھی پوری نہیں پڑتی یار ایسی منحوس حکومت ہے، برکت ہی اٹھ گئی ہے کمائی سے“ مجیدے نے موٹر سائیکل کو ریس دیتے ہو کہا۔

گاما جو موبائل کی سکرین میں آنکھیں گاڑھے ہوئے تھا بولا ”یار حکومت تو ہے ہی منحوس مگر بے حیائی بھی تو بڑھ گئی ہے آج کل دیکھا نہیں تو نے کیسا ٹک ٹاک پر ننگ مچایا ہوا ہے لڑکیوں نے، اسلامی ملک میں یہ سب ہو گا تو حالات خراب ہی ہوں گے، برکت کہاں سے آئے گی۔ یہ چیک کر میں نے تجھے ایک بڑی سیکسی ویڈیو بھیجی ہے“

مجیدے نے بھی بڑے اشتیاق سے جیب سے فون نکالا اور ویڈیو دیکھتے ہی بولا ”کیا پٹاخہ کڑی ہے یار، فالو کرتا ہوں اس کو۔ مزا آئے گا، بڑے دنوں بعد کوئی اچھی چیز دیکھی ہے“

گامے نے جو کہ اپنی موٹر سائیکل سٹارٹ کر چکا تھا، اپنے سر پر پٹکا باندھتے ہوئے مجیدے سے کہا ”یار وہ واپڈا والے بندے سے میری بھی بات کرنا، میں کنڈا تو نہیں ڈال سکتا لیکن اگر وہ میرا بجلی کا میٹر پیچھے کر دے تو بجلی کے بل میں تھوڑی بچت ہو جائے گی۔ اپنے محلے میں چودھری صاحب ہیں نا، تیری بھابی بتا رہی تھی ان کے گھر میں دو دو اے سی، فریج، ٹی وی سب چلتا ہے مگر بجی کا بل ہزار روپے سے زیادہ نہیں آتا، انہوں نے بھی میٹر پیچھے کروایا ہوا ہے“

”اچھا تو فکر نہ کر اللہ مالک ہے“ مجیدے نے گامے کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔

”مہربانی یار، اچھا سن بھولنا نہیں شام کو درس سننے بھی جانا ہے، مولوی صاحب ناراض ہو رہے تھے کہ کافی غیر حاضریاں ہو گئی ہیں ہم دونوں کی“ گامے نے موٹر سائیکل دھکیلتے ہوئے مجیدے کو تاکید کی۔

اور دونوں اللہ کا نام لے کر شہر کو نکل پڑے زہرآلود دودھ بیچنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments