پیشہ ور تنظیموں اور اداروں سے وابستہ توقعات!


وطنِ عزیز کے معروضی حالات، بالخصوص معاشرے میں پائے جانے والے چڑچڑے پن کی شدت عشروں پہلے پڑھے اَرل تھامپسن کے ناول ‘A Garden of Sand’ کے ایک کردار مسٹر میک ڈرمڈ کی یاد دلا تی ہے۔ میک ڈرمڈ ایک امریکی کسان ہے جو بیسویں صدی کے Great Depression کے دوران مالی عسرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی زرعی اراضی بیچ کر شہری علاقوں کی طرف نقل مکانی پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ ایک عام کسان کی حیثیت سے مسٹر میک ڈرمڈ اپنی تمام تر مشکلات کا ذمہ دار اس وقت کے امریکی صدر کو قرار دیتا ہے، چنانچہ دن رات انہی کو کوستا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار مسٹر میک ڈرمڈ کا کم سن نواسا جیکی نامی ایک بچہ ہے، جس کا باپ ایک کھلنڈرا نوجوان ہے جو گریٹ ڈیپرشن کے دوران مسٹر میک ڈرمڈ کی زمینوں پراس کا ہاتھ بٹا نے کی بجائے گٹار بجانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ جیکی پیدا ہوتا ہے تو اس کا لاابالی باپ ایک روز اچانک کار حادثے میں گزر جاتا ہے۔ نوجوان بیوہ اور نومولود کی ذمہ داری مسٹر میک ڈرمڈ کے کاندھوں پر پڑتی ہے تو اس کے چڑچڑے پن اور نفرت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ میک ڈرمڈ اگرچہ پانچ سو سے زائدصفحات پر مبنی ناول میں ایک جزوی کردار ہے، اندریں حالات ہمارے معاشرے میں مگر ایک نہیں لاکھوں چھوٹے بڑے مسٹر میک ڈرمڈ کارفرما نظر آتے ہیں۔
بے انصافی پر مبنی فکری تقسیم ہے کہ دن بدن کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ تقسیم کو فکری کہنا بھی چاہیئے، یا نہیں؟ہم جانتے ہیں کہ وطنِ عزیز میں سیاسی پارٹیاں مستحکم سیاسی اداروں سے زیادہ خاندانی، وراثتی اور شخصی املاک کی صورت کارفرما ہیں۔ نظریات پر نہیں، ہماری محبتیں، نفرتیں اور وفا داریاں خاندانوں اور خاص شخصیات کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ سیاسی پارٹیوں سے وابستہ افراد کی اپنے اپنے ممدوح ‘قائدین’ سے اندھا دھند وابستگیاں اس لئے قابلِ فہم ہیں کہ انہی خاندانوں اور شخصیات سے ان کے انفرادی اور گروہی مفادات جڑے ہیں۔ مہنگائی، پریشان کن معاشی صورتِ حال اور مایوس کن حکومتی کارکردگی کے پیشِ نظر عام پاکستانی کی حکومتی پالیسیوں پر تنقیدبھی جائز ہے۔ تاہم تقسیم (Polarization) میں شدت قابلِ تشویش اس وقت ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ خالصتاََ پیشہ ور حلقے بھی نفرتوں اور محبتوں کے اس بے جا کاروبار میں انصاف پر مبنی توازن کی حِس سے محروم نظر آنے لگتے ہیں۔ ہر معاملے پر سیاسی عہدیداروں اور کارکنوں کا اپنی اپنی ممدوح شخصیات کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کی اندھی حمایت کرنا کچھ عجب نہیں، کہ ترقی یافتہ جمہوریتوں میں بھی یہی رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ تاہم قومی اداروں میں متعین اہم افراد اور خالصتاََ پیشہ ور تنظیموں سے بہرحال قومی امور پر خالصتاََ پیشہ ورانہ موقف کی ہی توقع کی جانی چاہیئے۔ بدقسمتی سے حالیہ برسوں کے دوران اہم ریاستی اداروں میں بھی تقسیم کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ شاید کچھ افراد کچھ عرصے سے اسی میں کوشاں تھے۔ چنانچہ اہم عہدیداروں کی مدت ملازمت اور ممکنہ توسیع کو مسلسل زیرِ بحث لایا جاتا ہے تو ضرور شخصیات سے جڑے خدشات، خواہشات اور توقعات ہی پسِ پشت کار فرما ہوتے ہیں۔ کسی کو اس سال کے اکتوبر میں آنے والی تبدیلیوں کا بے چینی سے انتظار ہے تو کوئی سال2023 ء کے آخر میں اہم عہدے پر کسی کے ‘فائز’ ہونے کا منتظر ہے۔ ذاتی مفادات پر مبنی اہم ریاستی عہدوں پر ممکنہ تعیناتیوں سے جڑی امیدوں کو قومی بد قسمتی نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟
 ملک میں مختلف درجے کی وکلاء تنظیموں کا منشور خالصتاََ پیشہ ورانہ امور کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ بھی اسی بدقسمتی کا ہی ایک تسلسل ہے کہ ان پیشہ ور تنظیموں کے بارے میں کچھ عرصے سے خالص سیاسی امور میں خاص پوزیشن لئے جانے کا تاثر تقویت پکڑ رہا ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد میں ایک سیمینار میں چیف جسٹس آف پاکستان اور دیگر سینئر جج حضرات کی موجودگی میں عدالتوں کو مطلوب ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کو خطاب کے لئے فورم دیا گیا تو یہی تاثر مزید مستحکم ہوا تھا۔ چند ماہ پہلے کچھ جانے پہچانے صحافی اکٹھے ہو کر اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے ایک سزا یافتہ فرد کی میڈیا پر تقریروں پر سے پابندیاں ہٹوانے کی درخواست لے کر پیش ہوئے تھے تو حال ہی میں وکلاء کی ایک اعلیٰ ترین تنظیم  نے ان کی نااہلی ختم کروانے کے لئے عدالت سے رجوع کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہمارے دور جوانی میں ہمارے سینئرز ہمیں عام اخباروں کی بجائے اس انگریزی اخبار کا مطالعہ کرنے کی نصیحت کرتے تھے، قومی سلامتی کے ادارے سے جس کی بے جا مخاصمت کا تاثر اب عام ہے۔ کل تک جس کے صفحات جج ارشد ملک کی ویڈیو اور جسٹس ثاقب نثار سے منسوب آڈیولیک پر پر جوش سرخیوں اور ولولہ انگیز تجزیوں سے لبریز ہوتے تھے، اب ‘رائٹ آف پرائیویسی’ کا واویلہ دے رہا ہے۔ آڈیو لیک کا الزام ایجنسیوں پر صاف دھرتے ہوئے سیاست دانوں کو ان کے خلاف ڈٹ جانے کا درس دے رہا ہے۔
ضروری ہے کہ قومی اداروں میں اہم عہدیداروں کی طرح پیشہ ور تنظیموں، صحافتی اداروں اور ان سے وابستہ سینئرپروفیشنلز کو بھی ایسی سرگرمیوں اور ‘پوزیشنز’ لینے سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کرنی چاہیئے کہ جس سے ان کے Partisan ہونے اور ان کے بارے میں پیشہ ور وکیل یا صحافی کی جگہ ‘پولیٹیکل ایکٹیوسٹ’ ہونے کا تاثر تقویت پکڑے۔ بد قسمتی سے بظاہر ایسا دکھائی نہیں دے رہا۔ صورتِ حال یہ ہے کہ اب کئی ایک پیشہ ور تنظیموں، اداروں اور ان سے وابستہ زیادہ تر افراد کی کسی بھی معاملے پر آراء کا اندازہ قبل ازوقت کیا جا سکتا ہے۔
کیا ہم میں سے اکثر یہ نہیں جانتے کہ دورِ جدید میں کسی بھی قوم کے ترقی و عروج کا دارومدار افراد، سیاسی خاندانوں کی حکمرانی اور قومی وسائل پر الیٹ طبقات کی آہنی گرفت میں نہیں بلکہ مستحکم اور خود مختار ریاستی اداروں کے وجود میں پنہاں ہے؟ ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے کچھ اپنے محدود علم کی بنا پر حقائق کے درست ادراک سے محروم ہوں، لیکن وہ دانشور اور تجزیہ کار جو قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ سے واقف ہیں، انگریزی اور اردو ادب سے جنہیں شناسائی ہے، اور جدید عالمی معاشیات کی پیچیدگیوں کو خوب جانتے ہیں، مگر اکتوبر 2020ء کے بعد باپ بیٹی کو بالترتیب علی برادران جیسے مشاہیر اور محترمہ فاطمہ جنا ح سے تشبیہہ دینے پر اتر آئے تھے، کیا وہ بھی’لا علمی’ کا بہانہ تراش سکتے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ پے در پے لیک ہونے والی آڈیو اور ویڈیو لیکس پر ان کے ردِ عمل میں تضاد کیوں ہے؟
ہم جیسے عام افراد جب مسٹر میک ڈرمڈ جیسا طرز عمل اختیار کریں تو قابلِ فہم ہے۔ اہم ریاستی عہدوں پر فائز شخصیات، پیشہ ور تنظیموں، اداروں اور ان کے وابستہ اکابرین سے بہرحال سنجیدہ، متوازن اور مبنی برانصاف موقف ہی کی توقع کی جانی چاہیئے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments