حکومت بمقابلہ اپوزیشن: ’انشا اللہ بہتر ہو گا‘

عماد خالق - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


رواں برس کے آغاز سے جہاں موسمی درجہ حرارت گرا ہے وہیں ملکی سیاست کا درجہ حرارت بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے منی بجٹ پیش کیا جانا، ملک میں بڑھتی مہنگائی اور حالیہ مری سانحے نے ملک میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو ایک مرتبہ پھر حکومت مخالف تحریک چلانے کا موقع فراہم کیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے منگل کے روز احتساب عدالت کے باہر صحافیوں کی طرف سے ان ہاؤس تبدیلی کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا ’انشا اللہ بہتر ہو گا۔‘

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنماؤں کے بھی ایسے بیانات سامنے آئے ہیں جن سے پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان سرد مہری کم ہوتی اور تعلقات میں برف پگھلتی دکھائی دیتی ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے ایک مقامی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان میں سپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جاسکتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ کرے گی تو ہم اس کی حمایت کریں گے۔‘

جبکہ مسلم لیگ ن کے ایک اور رہنما خواجہ آصف نے بھی ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا کہ ‘یہ بہتر ہو گا کہ ہم پیپلز پارٹی کے 27 فروری کو اعلان کردہ لانگ مارچ میں مل کر مارچ کریں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ خواہش ہے کہ پی ڈی ایم کے پیلٹ فارم سے 27 فروری کے لانگ مارچ کا حصہ بننے کا فیصلہ ہو۔

اس بارے میں احسن اقبال نے بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کا ہمیں بھی فائدہ ہو گا، اس حکومت کے خلاف جتنے احتجاج ہوں گے حکومت اتنی ہی کمزور ہو گی۔

واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے 27 فروری کو حکومت مخالف لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے جبکہ پاکستان کی حزب مخالف کی جماعتوں کے سیاسی اتحاد پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے 23 مارچ کو حکومت مخالف لانگ مارچ تحریک کا اعلان کیا گیا ہے۔

کیا اپوزیشن ان ہاؤس تبدیلی لا سکتی ہے؟

نواز پی پی پی

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس سوال کے جواب میں کہا کہ پارٹی چیرمین بلاول زرداری کا یہ بہت پرانا اور واضح موقف تھا کہ ہمیں پارلیمانی آپشنز کو استعمال کرنا چاہیے اور پی ڈی ایم کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اس کا برملا اظہار کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پہلے بھی یہ کہا کہ ہمیں حکومت کے خلاف پارلیمان کے اندر موجود آپشنز کو بھرپور استعمال کرنا چاہیے، خصوصاً اس وقت میں جب ملک میں مہنگائی عروج پر ہو اور منی بجٹ آ رہا۔ ان کا کہنا تھا لیکن اس وقت پیپلز پارٹی پر پارلیمان سے مستعفی ہونے کا دباؤ ڈالا گیا۔

مصطفیٰ نواز کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک سال بعد بلاول زرداری کے موقف کی تائید ہے۔‘

کیا پیپلز پارٹی قومی اسمبلی یا سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد لانے پر غور کر سکتی ہے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ‘جی بالکل قومی اسمبلی اور سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح پنجاب میں بھی تحریک عدم اعتماد لائی جا سکتی ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ اگر نمبر گیم کی بات کریں تو سینیٹ میں حکومت کو عددی اکثریت حاصل ہے لیکن قومی اسمبلی اور پنجاب میں حکومت کے پاس بہت معمولی اکثریت ہے اور ماضی میں ہم نے یوسف رضا گیلانی کے موقع پر ثابت بھی کیا۔

پارلیمان سے باہر سڑکوں پر مشترکہ لانگ مارچ اور تحریک پر مصطفیٰ نواز کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں سب سے پہلے تو اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے ضروری ہے اور اگر ان جماعتوں میں اتفاق پیدا ہو جاتا ہے تو اس کے بعد اس کے امکانات کھلے ہیں۔

اپوزیشن جماعتیں

مسلم لیگ ن کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی میاں جاوید لطیف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم ہر صورت چاہتے ہیں کہ اس حکومت سے عوام کی جان چھوٹ جائے کیونکہ اب عوام مہنگائی، بری طرز حکومت اور معاشی حالات کے سبب اپوزیشن کو بھی اس حکومت کو گھر نہ بھیجنے کا مورد الزام ٹھہرا رہی ہیں۔ اور اپوزیشن کو بھی عوام تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ اب موجودہ صورتحال میں اس کی اہمیت زیادہ اس لیے بڑھ گئی ہے کیونکہ جہاں ایک جانب اپوزیشن پر کمزور حزب اختلاف ہونے پر عوامی تنقید بھی ہے وہیں معاشی صورتحال کے باعث ملک کی سالمیت اور سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہے۔’

میاں جاوید لطیف کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن آج بھی اس بات کے حامی نہیں کہ جس طرح موجودہ حکومت کو لایا گیا ہے ویسے ہی ہٹایا جائے لیکن اب ان ہاؤس تبدیلی کی بات کو ماننے یا اس کی حمایت کے لیے اس لیے تیار ہیں کیونکہ موجودہ حکومت کی نااہلی اور نالائقی کے باعث حالات خراب ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں فوج کے تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی آئی ایس پی آر) کا بیان کہ ‘فوج غیر جانبدار ہے’ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سے اپوزیشن کو علم ہو جائے گا کہ وزیر داخلہ کے بیان کے مطابق ‘ان پر کسی کا ہاتھ ہے یا نہیں۔’

سڑکوں پر احتجاج کے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم نے پہلے ہی 23 مارچ کے لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے لیکن اگر اس سے پہلے بھی کوئی ایسی تحریک چلتی جس میں دیگر جماعتیں بھی پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ میں شریک ہونے کا اعلان کرتی ہیں تو ہم اس کے لیے بھی غور کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کا فیصلہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہو گا۔’

اس مرتبہ اپوزیشن کا احتجاج کتنا عملی ہو گا؟

پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا ہے کہ جو اس ملک میں بدامنی، مہنگائی اور بری طرز حکمرانی کی صورتحال ہے جس کی واضح مثال مری کا سانحہ ہے۔ یہ صورتحال مہنگائی میں پستے عوام کے لیے ناقابل برداشت ہو چکی ہے اور یہ حالات حکومت کے خلاف تحریک کے لیے بہت سازگار ہیں۔

اس بارے میں مسلم لیگ ن کے رہنما میاں جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ ‘جب تک حکومت کو ایوان میں عددی برتری ہے اور بقول شیخ رشید کے جب تک ان پر اداروں کا آشیر باد ہے، جس کا برملا اظہار وزیر اعظم بھی سول ملٹری تعلقات کے ایک صفحے پر ہونے سے کر چکے ہیں۔ لہذا جب تک ادارے اپنے آئینی حدود میں نہیں جائیں گے اور ان اداروں بیٹھے افراد کسی کی حمایت یا مخالفت کرنا بند نہیں کریں گے اس وقت تک آئینی طریقے سے اس حکومت سے جان چھڑانا اتنا آسان نہیں ہو گا۔’

یہ بھی پڑھیے

عاصمہ شیرازی کا کالم: ریاست بند گلی میں؟

’مہنگائی پر اپوزیشن جماعتوں کا حکومت کے خلاف بیانیہ بکے گا‘

اپوزیشن کا حکومت مخالف اتحاد کتنا مضبوط اور دیرپا ہوگا؟

ان ہاؤس تبدیلی کامیاب ہوتی نہیں لگتی

سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی نے موجودہ سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کے راستے جدا ہو چکے تھے لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے دونوں کے درمیان رابطے بڑھتے اور فاصلے کم ہوتے دکھائی دیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے اندر پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کی جماعتوں میں تعاون جاری ہے اور اب کوشش ہو رہی ہے کہ پارلیمان سے باہر بھی کوئی اتفاق رائے ہو جائے۔

پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد یا ان ہاؤس تبدیلی کے بارے میں تجز یہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد کا تعلق ہے میں اس کی کامیابی کے کسی امکان کو نہیں دیکھ رہا کیونکہ ابھی تک حکومت کے کسی اتحادی نے حکومت سے بغاوت نہیں کی۔

مجیب الرحمان شامی کا مزید کہنا تھا تاہم تحریک انصاف کی اپنی صفوں میں کچھ دراڑیں پڑتی دکھائی دیتی ہیں اور اگر پی ٹی آئی کے کچھ لوگ ناراضگی کا اظہار کیا تو اس معاملے میں کوئی پیش رفت ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ہاؤس تبدیلی صرف حکومت پر دباؤ بڑھانا کی حکمت عملی ہے اور فی الحال مجھے ان ہاؤس تبدیلی کی تحریک کامیاب ہوتی نہیں لگتی۔’

انھوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اسمبلی سے باہر پیپلز پارٹی کی کال پر یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ پی ڈی ایم سمیت دیگر اپوزیشن جماعتیں اس میں شامل ہوں لیکن مولانا فضل الرحمان کے قریبی حلقوں کے مطابق وہ اس کے حق میں نہیں ہیں۔

مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں میں پیپلز پارٹی کے بارے میں دو آرا پائی جاتی ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو اکیلے احتجاج کرنے دیا جائے تاکہ اس کو اپنی سیاسی طاقت کا اندازہ ہو سکے جبکہ اس اتحاد میں شامل چند جماعتیں اس کے حق میں ہیں کہ پیپلز پارٹی کے احتجاج میں اپنا وزن شامل کر کے احتجاج کو وسعت دی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت مجھے یہ مشکل نظر آتا ہے کہ 27 فروری کو تمام جماعتیں اکٹھی ہو کر احتجاج کر سکیں۔

اپوزیشن اگلے انتخابات تک اپنی طاقت میں اضافہ چاہتی ہے

اپوزیشن کی حکومت مخالف حکمت عملی کیا ہے اس پر رائے دیتے ہوئے مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں اگلے انتخابات تک اپنی طاقت میں اضافہ کرنا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں جمعیت علما اسلام (ف) کو کامیابی ہوئی ہے اس کے بعد اب مولانا فضل الرحمان مارچ میں شروع ہونے والے دوسرے مرحلے میں بھی کامیابی کے لیے کوشاں ہیں۔

اسی طرح پنجاب میں بھی بلدیاتی انتخابات کی باتیں ہو رہی ہیں جس پر مسلم لیگ ن نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا اس تناظر میں اپوزیشن کی حکمت عملی یہ نظر آتی ہے کہ وہ اپنا سیاسی وزن بڑھاتے ہوئے اگلے انتخابات میں پہنچ جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments