دوران۔ کرونا اور ما بعد کرونا صورتحال میں طبقہ اشرافیہ کے نونہالوں کو تعلیم دینے والے اداروں نے تو خوب مال سمیٹا۔ انہیں تمام تر بقا یا جات اور واجبات بھی ملے اور رعایات بھی کیوں کہ یہ ادارے ہمارے طبقاتی سماج میں ’سٹیٹس سمبل‘ گردانے جاتے ہیں۔ مگر مافیا مافیا کے شور میں کسی نے ان اداروں کی بات نہیں سنی جو انتہائی کم فیس میں اچھا ماحول بھی دے رہے تھے اور معیاری تعلیم و تربیت کا بندو بست بھی کر رہے تھے، ایسے اداروں کا وجود مٹتا چلا جا رہا تھا۔ ان کے لیے عمارتوں کے کرائے اور ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں سکول بند اور لاکھوں اساتذہ سمیت کل تک سکول مالکان کہلائے جانے والے سفید پوش لوگ بے روزگار ہی نہیں بے یارو مددگار بھی ہو گئے۔ اب ان میں سے بہت سارے دو وقت کی روٹی کے لیے در بدر پھر رہے ہیں۔

دوسری جانب حکومتی اقدامات نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ دیگر شعبہ جات کی طرح تعلیمی شعبہ میں بھی مثبت، درست اور دور رس نتائج کے حمل بر وقت فیصلوں کا فقدان رہا۔ بڑے ( فیسوں کی مد میں ) اور کم فیس لینے والے اداروں کو ایک ہی چھڑی سے ہانکا گیا۔ کہیں بھی چھوٹے اداروں کے حوالہ سے کسی خصوصی رعایت کا اعلان نہیں کیا گیا۔ بے یقینی مسلسل قائم رہی۔ سالانہ امتحانات لینے نہ لینے کی بات ہو، نمبروں کی تقسیم کا معاملہ ہو، شفاف نتائج مرتب کرنے سے سنگل نیشنل کریکلم کے لاگوں کرنے کا فیصلہ ہو، ہر بار فیصلہ سازوں کی زمینی حقائق سے لا علمی اور قوت۔ فیصلہ کی عدم موجودگی کا مسئلہ در پیش رہا۔ حکومتی نا اہلیوں کی لمبی فہرست میں محکمہ تعلیم کے کارنامے بھی جلی حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔

کرونا کی ستم ظریفی اور حکومت کی عدم توجہی اور تعلیم کش اقدامات کے باوجود جو ادارے کرونائی برسوں میں اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ان کا وجود بھی سکڑ کر آدھا رہ گیا ہے۔ ان میں سے بہت سے ادارے آج بھی قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں کیوں کہ انھیں کرونا میں واجبات اور بقایا جات کی مد میں کبھی کچھ نہیں ملا۔ آج بھی ایسے بہت سے ادارے والدین کی بلیک میلنگ کا شکار ہیں۔ ان کے لیے تو والدین ہی سب سے بڑا مافیا ہیں جو واجبات بھی ادا نہیں کرتے اور واجبات کا تقاضا کرنے پر سکول تبدیل کر لینے کی دھمکیوں سے نوازتے ہیں۔ اکثر اوقات کئی ماہ کی فیسیں ادا کیے بغیر رفو چکر ہو جاتے ہیں۔

اب ایک بار پھر اومیکرون کی آمد آمد ہے۔ آئندہ چند ماہ میں اومیکرون کے بڑھنے کے قوی امکانات ہیں۔ ایسے میں ایک بار پھر معاملہ تعلیمی اداروں کی بندش تک جا سکتا ہے۔ اس بار خدارا فیصلے سوچ سمجھ کر کیجیے گا۔ ورنہ ایک نسل تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور ایک بہت بڑا تعلیم یافتہ طبقہ روزگار چھن جانے کے خوف میں مبتلا ہے۔